سلام رضا میں سراپائے محبوبﷺ کی ضیاپاشیاں  (۲)

                                 اللہ تعالی نے انسان کو بصارت وبصیرت سے سرفراز فرمایا تاکہ انسان ان دونوں قوتوں سے دنیا کی آسائش وزیبائش کو دیکھ سکے اور معرفت خداوندی حاصل کرے۔بصیرت کے ذریعہ انسان کائنات ہست وبود کے داخلی امور اور حقائق ودقائق پر آگہی حاصل کرتا ہے اسی کو مصطفی جان رحمت ﷺ نے فراست مومن قراردیا ہے، آپ ارشاد فرماتے ہیں: اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ مرد مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔فراست کی بہترین مثال سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ داماد رسول ﷺ کے عہد زریں کا واقعہ ہے آپ ایک مرتبہ منبر رسول ﷺ پرجلوہ گر ہوکر خطبہ دے رہے تھے دریں اثناء ایک صحابی رسول ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو فورا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کہا:  یدخل علیّ أحدکم وفی عینیہ أثر من الزنا تم میں سے ایک شخص ہمارے پاس آتا ہے اس حال میں کہ اس کی آنکھوں میں زنا کی علامت ہے تو برجستہ وہ صحابی جلیل کہنے لگے   أوحی بعد رسول اللہ ﷺ  کیاحضور کے بعد بھی وحی کا سلسلہ ہے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں یہ فراست صادقہ ہے۔ یہ تو حضور ﷺ کے ایک غلام کی فراست صادقہ کی مثال ہے اب اندازہ لگائیے کہ آقائے دوجہاں سیاح لامکاں ﷺ کی بصیرت وبصارت کی ہمہ گیر وسعتوں اور بلندیوں کا عالم کیا ہوگا؟ امام عشق ومحبت حضور پرنور ﷺ کی ان کرشمہ ساز آنکھوں کی عظمتوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آگیا           اس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام!

مصطفی کے چشمان مقدسہ کے بارے میں قرآن کہتا ہے:  ما زاغ البصر وما طغی  نہ نگاہِ انور جھپکی نہ حدسے بڑھی۔شب معراج مصطفی کریم ﷺکی نگاہیں براہ راست تجلیات ربانیہ کو اپنے اندر جذب کرتی رہیں۔ تو اندازہ لگائیے کہ جن آنکھوں نے تجلیات الہیہ کو اپنے اندر جذب کرلی ہوں ان آنکھوں کی بصیرت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔سیدنا موسی علیہ السلام رب کی صفاتی تجلی کو دیکھ کر چالیس دن تک اس کی نورانیت میں مدہوش رہے پھر جب ہوش سنبھالا تو یہ عالم تھا کہ تیس تیس میل فاصلے کی چیزوں کو دیکھ لیتے تھے۔ جس میں کسی طرح کا خفا نہیں رہتا تھا۔تو سوچیے کہ جب صفاتی تجلی کے انعکاس سے حضرت موسی علیہ السلام کو اتنی زیادہ بصیرت مل سکتی ہے تو مصطفی کریم ﷺ نے تو رب ذو الجلال کو دنی فتدلی، فکان قاب قوسین او ادنی والے مقام سے دیکھا تھا تو ان چشمان مبارکہ کا عالم کیا ہوگا اسی لیے اعلی حضرت فرماتے ہیں:

 کس کو دیکھا یہ موسی سے پوچھے کوئی                            آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام

ان آنکھوں کی قدرت وطاقت کی صحیح معرفت حاصل کرنے کے لیے ہم آپ کے سامنے دو تین روایات بیان کرتے ہیں جس سے آپ کو مصطفی کریم ﷺ کے چشمان مقدسہ کا صحیح اندازہ ہوجائے گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: کان رسول اللہ ﷺیری باللیل فی الظلمۃ کما یری بالنہار من الضوء رسول پاکﷺ جس طرح دن کے اجالے میں دیکھتے تھے اسی طرح رات کے اندھیرے میں بھی دیکھ لیتے تھے۔حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقائے دو جہاں نے ارشاد فرمایا:  انی أری ما لاترون  میں وہ سب کچھ دیکھتا ہوں جوتم نہیں دیکھ سکتے۔اسلام کے ابتدائی ایام میں صحابہء کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نماز میں حضور ﷺ سے سبقت کرجاتے تھے تو ایک دن آقائے دو عالم ﷺنے صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے خطاب کرتے ہوئے کہا:  فواللہ ما یخفی علی خشوعکم ولا رکوعکم انی لاراکم من وراء ظہریقسم ہے خدا کی تمہارے خشوع وخضوع اور رکوع مجھ سے پوشیدہ نہیں، میں تم کو اپنے پیٹھ پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔رکوع تو ظاہری عمل ہے یہاں پر قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حضور سرور کونینﷺ دل کی کیفیات وتخیلات بھی دیکھ رہے ہیں۔ اللہ اللہ مصطفی کریم ﷺ کی بصارت وبصیرت۔۔۔۔۔۔کچھ بدبختوں کا قلم اتنا جری رہا کہ مصطفی کریم ﷺ کو پیٹھ پیچھے کا بھی علم نہیں لکھ مارا۔العیاذ باللہ صدہا بار العیاذ باللہ۔آقائے دوجہاں ﷺبنفس نفیس فرماتے ہیں، میں تم کو اپنے پیٹھ پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں یہ ناہنجار کہتے ہیں پیٹھ پیچھے کا علم نہیں۔اللہ تعالی انہیں ہدایت عطافرمائے۔

                         سرکار مدینہ تاجدار حرم ﷺ کے شہزادہ غوث اعظم قطب الاقطاب شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں۔

نظرت الی بلاد اللہ جمعا                کخردلۃ علی حکم الاتصال

میں نے اللہ تعالی کے تمام شہروں کی طرف دیکھا تو وہ سب مل کر رائی کے دانے کے برابر ہوگئے۔مزید ارشاد فرماتے ہیں

 فمن فی اولیاء اللہ مثلی             ومن فی العلم والتصریف حالی

پس اولیاء اللہ میں سے کون میرا نظیر ہے اور کون میرے علم اور تصرفات میں میرے حال کو پہنچا ہے۔اس کا صریح جواب نفی میں ہوگا۔ہر گز نہیں۔غوث اعظم کا حال یہ ہے کہ اللہ تعالی کے تمام شہر آپ کی دور رس نگاہوں کے سامنے ہے اور علم وتصرفات میں اولیاء اللہ میں آپ کا مثل ونظیر نہیں۔تو اندازہ لگائیے کہ سرکار دو جہاں ﷺ کے تصرفات کا عالم کیا ہوگا۔انسان کی نگاہیں وعقلیں حقیقت محمد ی کو جاننے اور پہچاننے سے قاصر ہیں۔ صوفیہ فرماتے ہیں:  الخلق عرفوا اللہ وما عرفوا محمدا  خلق خدا خدا کو تو پہچانتی ہے لیکن انہیں حقیقت محمدی کی پہچان وشناسائی نہیں ہے۔غوث اعظم کا مقام کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تو امام الانبیاء ﷺکے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے آخر تھک ہار کر یہی کہہ سکتے ہیں:         

  لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کردیا                  خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے

 فمبلغ العلم فیہ انہ  بشر                          وأنہ خیر خلق اللہ کلہم

امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ آپ کی زبان مبارک کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں

وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں                           اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام

حضور نبی اکرم ﷺ کی زبان مقدس حق وصداقت کی آئینہ دار تھی آپ کے زبان فیض ترجمان کا رب قدیر نے اپنے کلام پاک میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا:   لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ  آپ یا د کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔

             مزید زبان اقدس سے نکلا ہوا ہر لفظ وحی الٰہی ہے جس کا قرآن یوں عکاسی کرتا ہے:  وما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی  اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے، وہ تونہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے۔مصطفی کریم ﷺکی زبان اقدس سے نکلا ہوا ایک ایک جملہ وحی خدا ہے، اسی سے آپ احادیث نبویہ شریفہ کی اہمیت وافادیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

               آئیے امام الانبیاء ﷺکی کن والی زبان کی مزید وضاحت کیلئے آپ کے سامنے مسلم شریف کی ایک حدیث نقل کرتا ہوں۔ حضرت ابو ایاس سلمہ بن عمرو بن اکوع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺکی بارگاہ اقدس میں ایک آدمی بائیں ہاتھ سے کھارہاتھا تو آپ ﷺ نے کہا:  کل بیمینک قال لا استطیع قال لا استطعت فما رفعہا الی فیہ  آپ نے کہا دائیں ہاتھ سے کھا تو اس نے کہا میں دائیں ہاتھ سے کھا نہیں سکتا، تو آپ کو اس کا یہ مغرورانہ جواب ناگوار گزرا تو آپ نے کہا،لا استطعت تجھے اس کی استطاعت نہ ہو۔ توراوی حدیث فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ اپنا دایاں ہاتھ زندگی بھر اٹھا نہ سکا۔

                آپ کی زبان اقدس سرچشمہء حیات وگنجینہء معجزات ہے۔ آپ کی فصاحت وبلاغت اور سلاست وبراعت کے سامنے فصحاء عرب وعجم حیران وششدر رہ جاتے تھے۔کیا خوب کہا اعلی حضرت نے کہ۔۔۔

تیرے آگے یو ہیں دبے لچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے

کوئی جانے منہ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں!

 اس کی پیاری فصاحت پہ بے حد درود             اس کی دل کش بلاغت پہ لاکھوں سلام

اس پیارے محبوب ﷺ سے ہم بے پناہ محبت کرنے کے بجائے دنیا کی فانی محبت میں پھنسے ہوئے ہیں۔جس محبوب کو اتنی خوبیوں کا پیکر بنایا ہو تو اس کا حق یہ ہے کہ ہم اسی محبوب کو اپنا پیتم بنائیں اور دل کے نہاں خانوں میں محبت رسول ﷺ کا چراغ روشن کریں ورنہ زندگی بھر ذلت وخواری کی اتھاہ گہرائیوں میں ہچکولے کھاتے رہیں گے۔ در مصطفی ﷺ سے دوری ہی ہماری اس زبوں حالی وخستہ حالی کا سبب ہے، جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

 اے تہی از ذوق وشوق وسوز ودرد                می شناسی عصرما باما چہ کرد

عصرما ما رازما بیگانہ کرد                         از جمال مصطفی بیگانہ کرد

اللہ تبارک وتعالی سے دعا گو ہوں کہ رب قدیر ہمارے سینوں کو محبت رسول ﷺ کا مدینہ بنائے، آمین! بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter