مؤرخین ادب نے امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کو دانستہ نظر انداز کر دیا

جب کبھی جدید اُردو نثر کی ابتداء اس کو علمی موضوعات کے اظہار کی زبان بنانے اور اس کو فروغ دینے کی بات آتی ہے تب اردو نثر کے قارئین، اردو کتابوں کے مرتبین ومصنفین، اردو کے طلبہ سب یہی کہتے ہیں کہ جدید اردو نثر کو سر سید احمد خان نے جنم دیا ہے، اُنہوں نے ہی ،، تہذیب الاخلاق،، کے ذریعے اس کو پروان چڑھایا اور اُنہوں نے ہی اس زبان کو اس قابل بنایا کہ ہر قسم کے مطالب ادا کرسکے اور اُنہوں نے اور ان کے رفقاء نے ہی اس کو فروغ دیا- سر سید احمد خان کے گرد اہل قلم کا ایک حلقہ تھا، جس میں مورخ بھی تھے، محقق بھی، نقاد بھی تھے، انشا پرداز بھی، ماہرین نفسیات بھی تھے، تذکرہ نگار بھی، ناول نگار تھے، مترجم بھی، سوانح نگار بھی تھے، اور مولوی بھی، غرض سر سید احمد خان اور ان کے رفقاء نے ہر موضوع پر لکھا اور اردو کو فروغ حاصل ہوتا رہا، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اردو نثر اپنے فروغ کے لیے انہی کے قلم کی مرہونِ منت ہے- امام احمد رضا خان قادری اور سر سید احمد خان کے قلم کی جولانیوں کا عہد تقریباً ایک ہی ہے، لیکن مؤرخین ادب نے امام احمد رضا خان کو یکسر نظر انداز کر دیا- وجہ کچھ بھی ہو اب اس کے تدارک کی ضرورت ہے- 
کہا جاتا ہے کہ سر سید احمد خان سے قبل اردو نثر عربی وفارسی زبانوں کی گرفت میں تھی اور اس نثر کے لکھنے کا مقصد ادائے مطلب سے زیادہ اپنی قابلیت کا لوہا منوانا ہوتا تھا،جس سے ابہام کا عیب بھی پیدا ہوجاتا تھا، اس لئے یہ نثر صرف قصہ کہانیوں کے کام کی تھی، علمی مطالب ان میں بیان نہیں کئے جاسکتے تھے، سادہ اور عاری نثر لکھنا کم علمی کی بات سمجھی جاتی تھی، جبکہ یہی نثر بعد کو علمی کاموں کے لئے نہایت موزوں اور مناسب ثابت ہوئی-
موجودہ علمی نثر سر سید احمد خان کی ایجاد نہیں اگر ہم اردو نثر کے ارتقاء پر غور کریں تو سادہ نویسوں میں سب سے پہلے بادشاہ شاہ عالم ثانی کا نام آتا ہے، جن کی تصنیف،، عجائب القصص،، اردو میں سادہ نویسی کی پہلی مثال ہے بادشاہ شاہ عالم ثانی نابینا تھے وہ صرف املا کرا سکتے تھے، بہرحال اس نثر میں اسلوب کسی کا بھی ہو، سادہ نگاری کی ابتداء یہیں سے ہوتی ہے، لیکن اس کا دائرہ کار قصہ کہانیوں تک ہی محدود رہا، پھر میرامن کی،، باغ بہار،، کا نمبر آتا ہے یہ کتاب بڑی جاندار اور دلکش نثر میں لکھی گئی ہے مگر یہ بھی داستان ہی ہے-
علمی موضوعات کو جس شخص نے سب سے پہلے زبان دی وہ غالب تھا، اس نے بعض علمی باتوں کو اپنے خطوط میں بیان کیا- گویا جدید علم نثر کے موجد یا بانی سر سید احمد خان نہیں بلکہ مزا غالب تھے- البتہ فروغ دینے والوں میں سر سید احمد خان اور ان کے رفقا کے نام قابل ذکر ہیں- سر سید احمد خان کی ولادت 1817 عیسوی میں ہوئی پچاس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اُنہوں نے،، جام جم،، ،، اسباب بغاوت ہند،، تاریخ سرکشی بجنور تصنیف کیں، اور علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ بھی جاری کیا، لیکن یہاں تک ان کی نثر میں کوئی ایسی بات نہیں ملتی جس سے ان کی شناخت بنتی ہو- 1870عیسوی کے بلکل آخر میں جب انہوں نے رسالہ،، تہذیب الاخلاق،، جاری کیا تو جدید نثر کے فروغ کی راہ بھی ہموار ہوئی، اس رسالے کے لئے انہوں نے بہت سے مضامین لکھے اس وقت تقریباً سبھی کی زبان عربی وفارسی کے اثر سے آزاد تھی اس سے دوسروں کو بھی تحریک ہوئی اور سادہ نگاری کو بھی تقویت حاصل ہوئی-
امام احمد رضا خان کی ولادت 1856عیسوی میں ہوئی اور انہوں نے چودہ پندرہ سال کی عمر میں قلم سنبھال لیا، ان کی نثر قطعی علمی تھی اس لئے وہ عربی فارسی الفاظ سے تو آزاد نہیں ہو سکتی تھی، لیکن ابہام کے عیب سے قطعی خالی تھی، اس لئے یہ بلاشبہ جدید نثر ہے-  ان کی اردو کی ایک تصنیف،، معیبر الطالب فی شیون ابی طالب،، تھی جو 1294ھ مطابق 1877ء میں لکھی گئی اور دوسری ،، مرتجی الاجابات لدعاءالاموات،،  تھی یہ بھی تقریباً اسی زمانے میں لکھی گئی، لیکن شائد دونوں میں سے کوئی بھی شائع نہیں ہوسکی، اس طرح ان دونوں کی جدید نثر نگاری کا زمانہ تقریباً ایک ہی ہے،  فرق یہ رہا کہ سر سید احمد خان کی تصانیف منظر عام پر آتی رہیں اور امام احمد رضا خان کی ساری تصانیف اب تک بھی شائع نہیں ہوئی ہیں، امام احمد رضا خان سے پہلے بھی تقدیسی نثر لکھی گئی،  دکن کی کاوشیں تو کسی طرح جدید نثر نہیں کہی جاسکتیں اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اُردو کی جدید علمی نثر کے فروغ کا کام سر سید احمد خان اور امام احمد رضا خان نے ہی کیا، لیکن اس بارے میں ایک کا نام مشہور ہوگیا دوسرے کا مستور رہا ذرا ان دونوں کی نثر کی کمیت پر بھی نگاہ ڈالیے امام احمد رضا خان قادری کی اردو تصانیف ابھی تک شمار کے دائرے میں نہیں آسکی ہیں، یہ بلاشبہ سیکڑوں ہیں اور ہزارہا صفحات پر محیط ہیں- سر سید احمد خان نے بھی بہت لکھا حالی، شبلی، نذیراحمد، اور سر سید احمد خان کے دوسرے رفقاء نے بھی بہت لکھا ان کے ہم عصروں میں منشی محمد حسین آزاد بھی ان سے پیچھے نہ رہے، بلکہ ان چند مصنفین کی تصانیف بھی امام احمد رضا کی تصانیف کے برابر نہیں ہوتیں، اس لیے اگر صفحات کی تعداد کو بھی دیکھا جائے تب بھی امام احمد رضا خان قادری کا نمبر سر سید احمد خان سے اوپر رہتا ہے- کیفیت پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ جتنے علوم میں تنہا امام احمد رضا نے تصانیف کیں اتنے علوم میں سر سید احمد خان اور ان کے تمام رفقاء نے بھی نہیں کیں، بلکہ اس سے آدھے علوم میں بھی نہیں کیں پھر یہ بھی دیکھیے کہ سر سید احمد خان اور ان کے ہم عصروں کی نثر جاندار سہی لیکن سر سید کا ہر نقاد کہتا ہے کہ ادائے مطلب کے لئے سر سید احمد خان قواعد زبان پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے تھے، یا ادائے مطلب پر صحت زبان کو قربان کر دیتے تھے، شبلی کے موازنہ انیس و دبیر میں زبان کی غلطیوں کی نشان دہی میر افضل علی ضو صاحب ردالموانہ نے کی مولوی نذیر احمد کی تصنیف،، امہات الامہ،، میں محاوروں کے غلط استعمال کی وجہ سے تعریف تنقیص میں بدل گئی اور کتاب کی جلدوں کو چوراہے پر رکھ کر جلایا گیا- امام احمد رضا خان قادری کی کمییاں تلاش کرنا اگرچہ کچھ لوگوں کی زندگی کا نصب العین ہے، انہیں اگر کوئی غلطی یا کمی نہیں ملتی تو صحیح بات کو غلط کہ کر تشہیر کرتے ہیں لیکن ان کی نثر میں کوئی غلطی، محاوراتی، قواعد یا اسلوب کی غلطی کی نشان دہی ابھی تک نہیں کی جاسکی ہے-
اب ایک اور پہلو پر غور فرمائیے! حالی کی نثر بلاشبہ بہت جاندار ہے، شبلی کی نثر کی رنگینی دل کو کھینچتی ہے، حسن اور کشش کو دیکھئے تو منشی محمد حسین آزاد کی نثر کا جواب ملنا مشکل ہے، مہدی افادی کا کام اگرچہ تھوڑا ہی ہے لیکن انہوں نے جو کچھ لکھا ادب العالیہ کا درجہ رکھتا ہے، اب یہ بھی دیکھیے کہ یہ لوگ کس طرح لکھتے تھے، رکھتے تھے، اور بار بار درست کرتے تھے، بعض جملوں کو اور پیراگرافوں کو کئ بار کاٹ کاٹ کر لکھتے تھے، منشی محمد حسین آزاد کی نثر کے بارے میں تو اس طرح کے شواہد موجود ہیں، جو لوگ نثر نویسی کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک بار کی لکھی ہوئی عبارت حسن اور دلکشی لانے کی غرض سے اور ادائے مطلب کی خاطر بار بار لکھی جاتی ہے حتیٰ کہ چھپتے وقت تک صحت کا عمل جاری رہتا ہے، یورپین ادیبوں کے بارے میں بھی اس طرح کے شواہد ملے ہیں، تو کیا امام احمد رضا خان قادری بھی ایسا ہی کرتے تھے، سوچیے اور غور کیجیے کہ ان کے پاس اتنا وقت کہاں تھا، جس شخص نے اتنا زیادہ لکھا ہو اس کو اتنا وقت مل بھی کہاں سکتا تھا وہ تو ایک وقت میں دو دو تین تین آدمیوں کو مضوعات پر املا کراتے تھے، اور قرآن کریم کا ترجمہ تو گویا چلتے پھرتے بھی کیا ہے، لیکن کیا مجال کہ جملوں میں کہیں کوئی بے ربطی ہو یا عبارت میں کہیں کوئی جھول، طویل طویل رسائل تصنیف کیے نا پہلے سے کوئی خاکا بنایا، نہ پلان لکھنا شروع کر دیا تو لکھتے چلے گئے اور جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کر دیا، کوئی معمولی بات بھی باقی نہیں رہ گئی جو لکھ نہ دی ہو، پھر پڑھیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایک رسالہ لکھنے سے پہلے ہفتوں بلکہ مہینوں کتابوں کو الٹا پلٹا ہوگا، پہلے مبیضہ کیا ہوگا پھر اس کو ٹھیک ٹھاک کرکے مسودہ تیار کیا ہوگا اس طرح ایک ایک رسالے کی تصنیف میں مہینوں لگے ہوں گے لیکن ایسا سوچنے والا سوچتا رہے یہاں تو ایک رسالے کی تصنیف کا اوسط چند روز ہی آتا ہے، اگر وہ اس طرح لکھتے جس طرح عام مصنفین لکھتے ہیں، تو کیا اتنا کام ممکن تھا جتنا اُنہوں نے کیا ہے؟  ہرگز نہیں-
 تلاش کریں تو اردو ادب کی تاریخ میں اس طرح قلم برداشتہ لکھنے والا صرف ایک ہی شخص اور ہوا ہے، اور وہ تھا پنڈت رتن ناتھ سرسار صاحب فسانہ آزاد لیکن وہ فکشن کا ہی مرد میدان تھا اور اس کے یہاں بے ربطی بھی بہت پائ جاتی تھی اس ایک کے علاوہ دوسری مثال محال ہے، اب ذرا اس خوبی پر غور کیجیے اور کمیت اور کیفیت پر نظر رکھتے ہوئے بتائیے کہ اردو میں ایسا نثر نگار کون ہے جس کو ان کے مقابلے میں رکھا جاسکے؟  امام احمد رضا خان عربی وفارسی زبانوں کے جید عالم تھے، پھر مسائل شرعیہ میں فارسی و عربی الفاظ کے بغیر کام چل بھی نہیں سکتا اس لئے شاید کسی کو شبہ ہو کہ ان کی نثر عربی و فارسی کے چنگل سے آزاد نہیں ہوئی تو عرض ہے کہ مسائل دینیہ خالص اردو میں لکھے ہی نہیں جاسکتے پھر امام احمد عربی و فارسی اور اردو کے بڑے عالم تھے اس لئے وہ جانتے تھے کہ کہاں عربی کا لفظ زیادہ مناسب ہے اور کہاں اردو یا فارسی کا، اس لئے انہوں نے جہاں جس لفظ کو مناسب سمجھا ہے اس کو استعمال کیا ہے اور فصاحت کا اقتضا بھی یہی ہے-

کریم گنج،پورن پور،ضلع پیلی بھیت،یوپی
iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter