ایسے تھے حضور حافظِ دین و ملت
ابوالفیض، حافظِ دین و ملّت حضرت علامہ عبدالعزیز محدّث مرادآبادی ثم مبارکپوری کا شمار برصغیر کے جلیل القدر علما و مشائخ میں ہوتا ہے۔ آپ کا نام عبدالعزیز اور لقب حافظِ ملّت تھا۔ سلسلۂ نسب عبدالعزیز بن حافظ غلام نور بن مولانا عبدالرحیم ہے۔
آپ 1312 ھ بمطابق 1894ء بروز پیر، قصبہ بھوجپور (ضلع مرادآباد، یوپی، ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا مولانا عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی کے مشہور محدّث شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ کی نسبت سے آپ کا نام عبدالعزیز رکھا اور دعا فرمائی کہ یہ بچہ عالمِ دین بنے۔ والدِ ماجد حافظ غلام نور رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی تمنا تھی کہ آپ دینِ متین کی خدمت انجام دیں۔ وہ علما و مشائخ سے آپ کے لیے دعا کرواتے اور آپ کی دینی تربیت پر خاص توجہ دیتے۔
آپ کے والد احکامِ شرع کے پابند، عاشقِ قرآن اور حافظِ قرآن تھے، جنہیں "بڑے حافظ جی" کہا جاتا تھا۔ والدہ ماجدہ نماز و روزے کی سخت پابند، ایثار و سخاوت میں معروف تھیں۔ وہ پڑوسیوں کا خاص خیال رکھتیں اور اکثر اپنا کھانا دوسروں کو دے دیتی تھیں۔
آپ نے ابتدائی ناظرہ اور حفظِ قرآن اپنے والد سے مکمل کیا۔ فارسی اور اردو کی ابتدائی تعلیم بھوجپور اور پیپل سانہ (مرادآباد) میں حاصل کی۔ تاہم گھریلو مسائل کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے تعلیم موقوف ہوگئی۔ اس دوران آپ نے تدریس اور امامت جاری رکھی۔ بعد میں حکیم محمد شریف حیدرآبادی کی رہنمائی میں تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔
والد کے مشورے پر مرادآباد میں قیام کیا اور حکیم صاحب سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں داخلہ لیا اور تین سال تک وہاں تعلیم حاصل کی۔ 1342 ھ میں آل انڈیا سنی کانفرنس مرادآباد کے موقع پر حضور صدرُالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے ملاقات ہوئی، جن کے حکم پر اجمیر شریف مدرسہ معینیہ میں داخلہ لیا اور ان کی نگرانی میں علومِ دینیہ مکمل کیے۔
آپ نے 1351ھ میں دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے دورۂ حدیث مکمل کیا۔ آپ کے اساتذہ میں صدرُالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی، مولانا اجمل شاہ سنبھلی اور مولانا وصی احمد سہسرامی شامل تھے۔
حافظِ ملت نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ بریلی شریف میں صدرُ الشریعہ علیہ الرحمہ کی خدمت کی۔ شوال 1352ھ میں صدرُ الشریعہ نے انہیں مبارک پور میں درس و تدریس کا حکم دیا۔ آپ نے ملازمت سے انکار کیا، تو صدرُ الشریعہ نے وضاحت کی کہ یہ خدمتِ دین کے لیے ہے، ملازمت نہیں۔
حضور حافظِ ملت نے شوال 1362 ھ میں دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور سے استعفیٰ دے کر جامعہ عربیہ ناگپور میں خدمات انجام دیں۔ تاہم دارالعلوم اشرفیہ کی تعلیمی و مالی حالت بگڑنے پر صدرُ الشریعہ رحمۃُ اللہ علیہ کے حکم پر 1362ھ میں دوبارہ مبارک پور لوٹ آئے اور تاحیات تدریسی و دینی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ کی کاوشوں سے مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دستِ مبارک سے 1392 ھ/1972ء میں مبارک پور میں "جامعہ اشرفیہ" کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔
حافظِ ملت کا روزمرہ معمول بہت منظم تھا۔ مدرسہ ہوتا تو وہاں تشریف لے جاتے، ورنہ کتابوں کا مطالعہ، درس، یا حاجت مندوں کو تعویذ دیتے۔ عصر کے بعد طلبہ کے ہمراہ سیر کو جاتے، علمی سوالات کے جوابات دیتے، بیماروں کی عیادت کرتے اور قبرستان کے قریب فاتحہ خوانی کرتے۔ مغرب کے بعد کھانے اور چہل قدمی کے بعد عشاء کے بعد مطالعہ کرتے اور طلبہ کی نگرانی کرتے۔ گیارہ بجے تک سوتے، تہجد کے لیے اٹھتے، اور فجر کی نماز ہمیشہ وقت پر ادا کرتے۔
حافظِ ملت طلبہ سے بے پناہ محبت رکھتے تھے اور کسی طالبِ علم کو مدرسے سے نکالنا سخت ناپسند کرتے تھے۔ آپ اس عمل کو ایسا ہی سمجھتے جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کو عاق کر دے یا جسم کے کسی بیمار حصے کو کاٹ دے۔ انتظامی ضرورت کے تحت اگرچہ یہ شرعاً جائز تھا، لیکن آپ اسے انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دیتے تھے۔
حافظِ ملت ہمیشہ حضور صدرُ الشریعہ کے سامنے ادب و احترام کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ جب صدرُ الشریعہ کمرے سے باہر تشریف لے جاتے، تو طلبہ کھڑے ہو جاتے، اور ان کے واپس آنے پر دوبارہ کھڑے ہو جاتے۔ لیکن حافظِ ملت پورے وقفے میں کھڑے رہتے، اور صرف حضرت صدرُ الشریعہ کے مسندِ تدریس پر تشریف فرما ہونے کے بعد بیٹھتے۔
حافظِ ملت علمِ دین اور کتابوں کے ادب کے معاملے میں نہایت حساس تھے۔ آپ کبھی لیٹ کر یا ٹیک لگا کر کتاب نہیں پڑھتے یا پڑھاتے، بلکہ ہمیشہ تکیے یا تپائی پر رکھ کر مطالعہ فرماتے۔ اگر قیام گاہ سے مدرسہ یا مدرسہ سے قیام گاہ کتاب لے جانی ہوتی، تو اسے سینے سے لگا لیتے۔ کسی طالب علم کو کتاب ہاتھ میں لٹکا کر چلتے دیکھتے تو نصیحت کرتے: "کتاب جب سینے سے لگائی جائے گی تو سینے میں اترے گی، اور جب کتاب کو سینے سے دور رکھا جائے گا تو کتاب بھی سینے سے دور ہو گی۔"
اسی طرح، قرآنِ پاک کا ادب ان کے کردار کا نمایاں حصہ تھا۔ ایک مرتبہ، جب دارُالعلوم اہلِ سنت اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور کی سیڑھیوں کے قریب طلبہ آپ کی زیارت کے لیے جمع تھے، تو آپ تشریف لائے اور سب طلبہ آپ کے پیچھے چلنے لگے۔ اچانک آپ نے ایک طالب علم سے فرمایا کہ وہ آگے چلیں۔ طالب علم کے جھجکنے پر وضاحت فرمائی: "آپ کے پاس قرآن شریف ہے، اس لیے آگے چلنے کو کہہ رہا ہوں۔"
حافظِ دین و ملت کی زندگی علم، عمل، سادگی، اور سخاوت کا حسین امتزاج تھی, آپ کی زندگی سادگی، حیا، اور نیک اعمال کی عملی تصویر تھی۔
آپ کی عمر ستر سال سے تجاوز کر چکی تھی، لیکن بینائی جوانوں جیسی تیز تھی۔ ایک سفر کے دوران، ٹرین میں ایک ڈاکٹر نے آپ سے گفتگو کے دوران حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"مولانا صاحب! آپ کی عمر کے باوجود آپ کی آنکھوں کی چمک بچوں جیسی ہے، آپ اس کے لیے کیا خاص چیز استعمال کرتے ہیں؟"
آپ نے فرمایا:
"ڈاکٹر صاحب! میں کوئی خاص دوا استعمال نہیں کرتا، لیکن ایک عمل ہے جو میں بلا ناغہ کرتا ہوں۔ رات کو سونے سے پہلے سنت کے مطابق سرمہ لگاتا ہوں، اور میرا یقین ہے کہ اس عمل سے بہتر آنکھوں کے لیے دنیا کی کوئی دوا نہیں ہو سکتی۔"
آپ کی زندگی سادگی اور حیا کا حسین نمونہ تھی۔ ہمیشہ سادہ اور موٹے سوتی کپڑے زیبِ تن فرماتے۔
آپ کا کرتا کلی دار اور لمبا، پاجامہ ٹخنوں سے اوپر، سر پر ہمیشہ ٹوپی اور عمامہ، اور چلتے وقت ہاتھ میں عصا ہوتا۔نگاہیں جھکائے رکھتے اور فرماتے: "میں لوگوں کے عیوب نہیں دیکھنا چاہتا۔"
گھر میں داخل ہونے سے قبل چھڑی زمین پر مار کر آواز پیدا کرتے تاکہ اہلِ خانہ خبردار ہو جائیں۔
غیرمحرم خواتین کو کبھی سامنے نہ آنے دیتے۔
آپ کی زندگی سنتِ نبوی ﷺ کی عملی تصویر تھی۔ حدیث مبارکہ:"اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل وہ ہے جو پابندی سے کیا جائے، اگرچہ وہ کم ہو"، آپ کے روزمرہ اعمال میں نمایاں نظر آتی تھی۔
آپ نے بالغ ہونے کے بعد نمازِ تہجد کو ہمیشہ کے لیے اپنا معمول بنا لیا۔صلوۃُ الاوّابین اور دلائلُ الخیرات کی تلاوت بلا ناغہ کرتے۔ صبح کے وقت سورہ یٰسین اور سورہ یوسف کی تلاوت، اور جمعہ کو سورہ کہف کی تلاوت کرتے۔فرماتے: "عمل اتنا ہی کرو جتنا بلا ناغہ کر سکو۔"آپ کی اندرونِ خانہ سادگی بے مثال تھی۔ ایک مرتبہ بڑی صاحبزادی نے کھانے میں روٹی اور دال پیش کی، لیکن روشنی کم ہونے کی وجہ سے آپ دال کو نہ دیکھ سکے اور صرف سوکھی روٹی کھا کر پانی پی لیا۔کھانے کے بعد دعا پڑھتے وقت صاحبزادی نے عرض کی: "ابا جان! آپ نے دال نہیں کھائی؟"آپ نے تعجب سے فرمایا: "اچھا! دال بھی تھی؟ میں نے سمجھا آج صرف روٹی ہی ہے۔"
آپ کی سخاوت بے مثال تھی۔ اپنی ذات پر کم سے کم خرچ کرتے اور دوسروں کی مدد میں خوشی محسوس کرتے۔ آپ کے تعاون سے مستفید ہونے والوں میں بے شمار علما، طلبہ، اور دینی خدام شامل تھے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے ڈاک کی ایک پرانی گٹھڑی ملی، جس میں مختلف علاقوں سے آئے ہوئے خطوط تھے۔ ان خطوط میں سفید پوش علما اور دین کے خدام نے آپ کی مالی مدد پر اظہارِ تشکر کیا تھا۔ آپ کی زندگی حدیثِ نبوی:
"تم میں سے کوئی کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے"کا عملی نمونہ تھی۔ آپ نے سادگی، کفایت شعاری، حیا، اور دین کے لیے ایثار کی ایک ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک دلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔
حضور حافظِ ملت کی خصوصی ادائے محبت یہ تھی کہ جب بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ اور صدرُ الشریعہ حضرت مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کا نام سنتے، تو آپ اپنی گردن جھکا لیتے۔ آپ مفتیِ اعظم ہند اور دیگر اکابرِ اہل سنت کے تذکرے پر اپنی والہانہ مسرت کا اظہار کرتے تھے، جس سے ان شخصیات کے ساتھ آپ کی محبت و عقیدت کا بخوبی اندازہ ہوتا تھا۔ یہ عمل آپ کے دل کی گہرائیوں میں ان بزرگانِ دین کی عظمت اور عزت کی محبت کا مظہر تھا۔
آپ اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے، اور یقیناً اولیاء اللہ سے وقتاً فوقتاً کرامات کا صدور ہوتا رہتا ہے۔ ان کرامات میں سے ایک نمایاں واقعہ یہ ہے:
ایک مرتبہ سفر سے واپسی پر آپ کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا۔ ڈرائیور نے عرض کیا کہ اب گاڑی آگے نہیں جا سکتی۔ یہ سن کر دیگر رفقاء پریشان ہوگئے، لیکن حافظِ ملت نے پُر اعتماد انداز میں فرمایا: "لے چلو! گاڑی چلے گی ان شاء اللہ عز و جل۔" یہ فرمان سنتے ہی ڈرائیور نے چابی گھمائی اور گاڑی چل پڑی، اور ایسی چلی کہ راستے بھر کہیں نہ رکی۔ یہ ایک عظیم کرامت تھی جو آپ کی اعلیٰ روحانیت اور اللہ عز و جل کے قرب کا مظہر تھی۔ ایک اور اہم واقعہ جامع مسجد مبارک شاہ کی چھت سے متعلق ہے۔ جب مسجد کی چھت نیچے آ رہی تھی اور تعمیر کے دوران یہ مسئلہ پیش آیا، تو حاجی محمد عمر پریشانی کے عالم میں حافظِ ملت رحمۃُ اللہ علیہ کے پاس گئے اور اس صورتحال کا حل طلب کیا۔ حضرت نے فوراً وضو فرمایا اور حاجی صاحب کے ساتھ جامع مسجد تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے "بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم" پڑھتے ہوئے لکڑی کی بلّیاں (بانس) لگا دیں۔ اللہ عز و جل کے کرم سے یہ چھت نہ صرف درست ہوئی بلکہ آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ چھت کا کون سا حصہ پہلے نیچے آ رہا تھا۔
یہ واقعات حضرت حافظِ ملت کی روحانیت، اللہ سے تعلق، اور لوگوں کی خدمت کے جذبے کو واضح کرتے ہیں۔ آپ کی دعا اور عمل میں ایسی تاثیر تھی کہ اللہ کی مدد سے لوگوں کی مشکلات حل ہو جاتی تھیں۔
حضور حافظِ ملت نہ صرف ایک بہترین مدرس، مصنف، مناظر اور منتظمِ اعلیٰ تھے بلکہ ان کی زندگی کا سب سے عظیم کارنامہ "الجامعۃُ الاشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا" کا قیام ہے۔ یہ عظیم درسگاہ آج بھی دینِ اسلام کی ترویج اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کی اشاعت کا ایک نمایاں مرکز ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل علماء نہ صرف ہند بلکہ ایشیا، یورپ، امریکہ اور افریقہ کے مختلف ممالک میں اسلام کی سربلندی اور دین کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔
آپ طلبہ کے لیے ایک شفیق اور مہربان باپ کی مانند تھے۔ ان کی ضروریات، تعلیم و تربیت، اور شخصیت سازی میں آپ گہری دلچسپی لیتے تھے۔ رئیسُ القلم حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ حافظِ ملت کے طلبہ سے بے مثال تعلقات کو یوں بیان فرماتے ہیں:
"استاد شاگرد کا تعلق عام طور پر حلقۂ درس تک محدود ہوتا ہے، لیکن اپنے تلامذہ کے ساتھ حافظِ ملت کے تعلقات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ پوری درسگاہ اس کے ایک گوشے میں سما جائے۔ یہ انہی کے قلب و نظر کی بے انتہا وسعت اور انہی کے جگر کا بے پایا حوصلہ تھا کہ اپنے حلقۂ درس میں داخل ہونے والے طالب علم کی بے شمار ذمہ داریاں وہ اپنے سر لیتے تھے۔"
آپ طلبہ کو محض کتابی علم نہیں دیتے تھے بلکہ ان کے اخلاق و کردار کی تربیت بھی کرتے تھے۔ آپ کی شفقت اور توجہ کا دائرہ وسیع تھا:
درسگاہ میں طلبہ کو علم و حکمت سکھاتے۔
اخلاقی و دینی اقدار کی نگرانی فرماتے۔
بیمار طلبہ کے علاج معالجے کا انتظام کرتے۔
ضرورت مند طلبہ کی مالی کفالت کرتے۔
فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ملازمتوں کا بندوبست کرتے اور ان کے پیش آمدہ مسائل حل کرتے۔
ان کے نجی اور خاندانی معاملات میں بھی سرپرستی فرماتے۔
علامہ ارشد القادری مزید فرماتے ہیں:
"طالب علم زیرِ درس رہے یا فارغ ہو کر چلا جائے، حافظِ ملت ایک باپ کی طرح ہر حال میں سرپرست اور کفیل رہتے۔ یہی وہ انفرادیت ہے جس نے حافظِ ملت کو ان کے اقربا و معاصرین کے درمیان ایک معمارِ زندگی کی حیثیت سے ممتاز اور نمایاں کر دیا۔"آپ کی یہ خصوصیات آپ کی عظمتِ کردار اور اخلاصِ نیت کی روشن دلیل ہیں، جنہوں نے جامعہ اشرفیہ کو ایک عالمی معیار کا ادارہ اور آپ کو ایک عظیم مربی و معمارِ قوم بنا دیا۔
حضور حافظِ ملت نہ صرف ایک عظیم مدرس اور منتظم تھے بلکہ تحریر و تصنیف میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے۔ آپ نے مختلف موضوعات پر گراں قدر علمی خدمات انجام دیں اور متعدد کتب و رسائل تحریر فرمائے، جو آپ کے علمی مقام و مرتبے کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ کی تصانیف میں سے چند درج ذیل ہیں:
1. معارفِ حدیث
احادیثِ کریمہ کا ترجمہ اور ان کی عالمانہ تشریحات پر مشتمل ایک جامع کتاب۔
2. ارشادُ القرآن
قرآن کریم کی رہنمائیوں پر مبنی ایک علمی اور تحقیقی تصنیف۔
3. الارشاد
ہند کی سیاست پر ایک مستقل اور بصیرت افروز رسالہ۔
4. المصباحُ الجدید
بد مذہبوں کے عقائد پر تنقید اور ان کے 30 سوالوں کے جوابات حوالہ جات کے ساتھ۔ یہ رسالہ مکتبۃ المدینہ سے "حق و باطل میں فرق" کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
5. العذابُ الشدید
ایک اہم موضوع پر تحریر کردہ کتاب۔
6. انباءُ الغیب
علمِ غیب کے عنوان پر ایک منفرد اور تحقیقی رسالہ۔
7. فرقۂ ناجیہ
ایک استفتاء کا علمی و مدلل جواب، جو اہلِ حق کے عقائد کی وضاحت کرتا ہے۔
8. فتاویٰ عزیزیہ
دارُ العلوم اشرفیہ کے دارُ الافتاء سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کا مجموعہ (یہ مجموعہ غیر مطبوعہ ہے)۔
9. حاشیہ شرحِ مرقات
ایک مشہور حدیثی کتاب پر تفصیلی اور علمی حاشیہ۔آپ کی یہ تصانیف علمی دنیا میں ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی رہیں گی اور اہلِ علم کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنی رہیں گی۔
حضور حافظِ ملت کے تلامذہ کی تعداد ملک اور بیرونِ ملک پانچ ہزار سے زائد ہے۔ ان میں سے کئی ایسے نابغۂ روزگار علما اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل افراد شامل ہیں جنہوں نے مذہبی، علمی، روحانی، تبلیغی، اصلاحی، سماجی، اور سیاسی میدانوں میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ آپ کے ان تلامذہ نے دنیا بھر میں دینِ اسلام اور مسلکِ اہلِ سنت کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ حافظِ ملت کے تربیت یافتہ ان ممتاز علما میں سے چند کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
1. عزیز ملت حضرت علامہ شاہ عبدالحفیظ مدظلہ العالی (خلفِ اکبر حافظِ ملت اور موجودہ سربراہِ اعلیٰ، الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور)
2. قائدِ اہلِ سنت رئیسُ القلم حضرت علامہ ارشد القادری رحمۃُ اللہ علیہ(بلند پایہ ادیب اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کے ترجمان)
3. بحرالعلوم حضرت مفتی عبدالمنان اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ (عظیم علمی شخصیت اور متبحر عالمِ دین۔)
4. خطیبُ البراہین حضرت علامہ صوفی محمد نظام الدین بستوی رحمۃُ اللہ علیہ (صوفی با صفا اور ممتاز عالمِ دین)
5. مصلحِ اہلِ سنت حضرت علامہ قاری مصلح الدین صدیقی قادری رحمۃُ اللہ علیہ (معروف عالم اور اصلاحی رہنما)
6. بانیِ دارُ العلوم امجدیہ حضرت علامہ مفتی ظفر علی نعمانی رحمۃُ اللہ علیہ(علمی دنیا میں ایک بلند مقام رکھنے والی شخصیت)
7. فقیہِ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃُ اللہ علیہ( عظیم فقیہ و محقق)
8. بدر اہلِ سنت حضرت علامہ مفتی بدر الدین احمد گورکھپوری رحمۃُ اللہ علیہ )معروف عالم دین اور مصنف)
9. شیخ القرآن حضرت علامہ عبد اللہ خان عزیزی رحمۃُ اللہ علیہ(قرآنی علوم کے ماہر اور عظیم مفسر)
10. اشرف العلماء سید حامد اشرف اشرفی مصباحی رحمۃُ اللہ علیہ (سلسلہ اشرفیہ کے عظیم عالم اور روحانی رہنما)
11. ادیب اہلِ سنت مفتی مجیب الاسلام نسیم عظمی رحمۃُ اللہ علیہ (بلند پایہ ادیب اور محقق)
12. شیخ اعظم سید محمد اظہار اشرف اشرفی کچھوچھوی رحمۃُ اللہ علیہ(شریعت و طریقت کی دنیا کی ایک نمایاں شخصیت)
13. نائبِ حافظِ ملت علامہ عبدالروف بلیاوی رحمۃُ اللہ علیہ(حافظِ ملت کے قریبی شاگرد اور علم و عمل کے پیکر)
یہ تمام تلامذہ حضور حافظِ ملت رحمۃُ کے علم و کردار، تربیت اور روحانیت کے آئینہ دار تھے۔ ان کی خدمات اسلامی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
حضور حافظِ ملّت نے دو نکاح فرمائے۔ پہلی زوجہ سے کوئی اولاد زندہ نہ رہی۔ دوسری زوجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین لڑکے اور تین لڑکیوں کی نعمت سے نوازا، جن میں سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی بچپن ہی میں انتقال کر گئے۔ یوں آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں پروان چڑھیں۔ یہ اولاد آپ کی زندگی میں آپ کے عظیم اخلاق و تربیت کا مظہر رہی اور آپ کی یادگار کے طور پر ہمیشہ باقی رہے گی۔
حافظِ ملت شیخُ المشائخ حضرت مولانا شاہ سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی رحمہ اللہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔ اسی طرح، آپ نے اپنے استادِ محترم، صدرُ الشریعہ حضرت علامہ مولانا امجد علی اعظمی رحمہ اللہ سے بھی خلافت و اجازت حاصل کی۔ ان بزرگ ہستیوں سے خلافت اور روحانی سلسلے کی برکتوں نے آپ کی روحانیت اور علم میں بے پناہ اضافہ کیا، جس کا اثر آپ کی زندگی اور کاموں میں صاف نظر آتا تھا۔
حافظِ ملت کا وصال 31 مئی 1976ء کو ہوا۔ آپ کی طبیعت میں اچانک خرابی آئی، اور دن کے آغاز میں لوگوں کو امید تھی کہ آپ جلد صحت یاب ہو جائیں گے، لیکن رات گیارہ بج کر پچپن منٹ پر آپ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا انتقال ایک عظیم سانحہ تھا، جس پر دلوں میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ آپ کی آخری آرام گاہ "الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور" کے صحن میں "قدیم دارُ الاِقامہ" کے مغربی جانب اور "عزیزُ المساجد" کے شمال میں واقع ہے، جہاں آپ کا مدفن ( مزارِ حافظ ملت) ایک زیارت گاہِ خاص و عام بن چکا ہے۔
حافظِ ملت کے "جلسۂ تعزیت" کے اختتام پر مشائخِ کرام اور علمائے عظام نے آپ کے شہزادۂ اکبر، عزیزِ ملت حضرت مولانا" عبد الحفیظ "مدظلہ العالی کو حضرت صدرُ الشریعہ کا خرقہ اور حضور حافظِ ملت کا جبہ و دستار پہنایا۔ اس موقع پر آپ کو حافظِ ملت کی مسند پر بٹھا کر ان کی جانشینی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا، جس سے آپ کی علمی اور روحانی خلافت کا واضح اظہار ہوا۔ یہ ایک عظیم مقام تھا، جس میں آپ کی شخصیت اور کام کو تسلیم کیا گیا اور آپ کو اس اہم ذمہ داری کے لیے منتخب کیا گیا۔
حافظِ ملت کا مقام علمائے کرام کی نظر میں بے حد بلند تھا۔ صدرُ الشریعہ، بدرُ الطریقہ مُفْتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا: "میری زندگی میں دو ہی باذوق پڑھنے والے ملے، ایک مولوی سردار احمد (محدثِ اعظم پاکستان) اور دوسرے حافظ عبد العزیز (حافظِ ملت مولانا شاہ عبد العزیز)"۔
شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتیٔ اعظم ہند علامہ مولانا مصطفےٰ رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا: "اس دُنیاسے جو لوگ چلے جاتے ہیں، ان کی جگہ خالی رہتی ہے، خصوصاً مولانا عبد العزیز جیسے جلیل القدر عالم، مردِ مومن، مجاہد، عظیم المرتبت شخصیت اور ولی کی جگہ پُر ہونا بہت مشکل ہے۔"
امینِ شریعت مفتی اعظم کانپور حضرت علامہ مفتی رفاقت حسین رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا: "حافظ ملت نے اپنی زندگی کو مجاہد و متحرک اَسلافِ کرام کے نقش قدم پر چلا کر اور نمایاں خدمات انجام دے کر مسلمانوں کو موجودہ دور میں دینی خدمت کا جو اسلوب عطا کیا ہے وہ قابلِ تحسین اور قابلِ تقلید ہے۔"یہ اقوال حافظِ ملت کی علمی، روحانی، اور دینی خدمات کی عظمت کو بخوبی ظاہر کرتے ہیں۔
حافظِ ملت کی خصوصیات بے شمار تھیں، اور آپ کی زندگی دینِ متین کی خدمت اور سنّیت کی آبیاری کا ایک عظیم نمونہ تھی۔ آپ کا جذبہ بے مثال تھا، اور آپ نے مسلسل محنت و کم آرام کی حالت میں بھی اپنے کاموں کو جاری رکھا۔ بیماری کے باوجود آپ نے کبھی اپنی ذمہ داریوں میں کمی نہیں آنے دی۔ ڈاکٹروں نے آپ کو آرام کی سخت تاکید کی، لیکن آپ نے کبھی بھی درس و تدریس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہا۔ رمضان کے مقدس مہینے میں بھی، جب آپ کی طبیعت خراب تھی، آپ اپنے مکان پر تشریف لائے اور باوجود بیماری کے، ایک بھی روزہ ترک نہیں کیا۔
آپ نے تراویح میں ختمِ قرآن فرمایا اور ہر کام کو اپنے مقررہ وقت پر انجام دیا، جو آپ کی بے لوث خدمتِ دین اور بے پناہ عزم کا واضح مظہر تھا۔ یہ خصوصیات نہ صرف آپ کی شخصی زندگی کا حصہ تھیں، بلکہ آپ نے اپنے عمل سے اپنے تلامذہ، ساتھیوں، اور پوری امت کو دین کی خدمت کا جو اصول سکھایا، وہ آج بھی رہنمائی کا باعث ہے۔
حافظِ ملت کے ملفوظات آپ کی حکمت اور زندگی کے اصولوں کی عکاسی کرتے ہیں، جو آج بھی مسلمانوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ آپ کی یہ باتیں نہ صرف دینی تعلیمات کا عکس ہیں بلکہ عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بھی رہنمائی دیتی ہیں:
1. تعلیم اور تربیت کا امتزاج
"بلاشبہ ایسی تعلیم جس میں تربیت نہ ہو، آزادی و خود سری کی فضا ہو، بے سود ہی نہیں بلکہ نتیجہ بھی نقصان دہ ہے۔"
آپ نے تعلیم کو محض معلومات تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اس میں اخلاقی تربیت اور روحانی رہنمائی کو ضروری سمجھا، تاکہ انسان کامیاب اور مفید زندگی گزار سکے۔
2. مخالفین کا جواب اپنے عمل سے دینا
"میں نے کبھی مخالف کو اس کی مخالفت کا جواب نہیں دیا، بلکہ اپنے کام کی رفتار اور تیز کر دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کام مکمل ہوا اور میرے مخالفین کام کی وجہ سے میرے موافق بن گئے۔"
آپ نے ہمیشہ اپنی توانائیوں کو مثبت کاموں میں صرف کیا اور مخالفین کو ان کے طرزِ عمل کا جواب اپنے عمل کے ذریعے دیا۔
3. مصیبت کا مقابلہ اور کامیابی
"انسان کو مصیبت سے گھبرانا نہیں چاہیے، کامیاب وہ ہے جو مصیبتیں جھِل کر کامیابی حاصل کرے، مصیبتوں سے گھبرا کر مقصد کو چھوڑ دینا بزدلی ہے۔"
آپ کے مطابق، مشکلات کا سامنا کر کے انسان اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔ جو شخص مصیبتوں سے لڑتا ہے، وہ کامیاب ہوتا ہے۔
4. اللہ کا خوف
"جب سے لوگوں نے خدا سے ڈرنا چھوڑ دیا ہے، ساری دنیا سے ڈرنے لگے ہیں۔"
آپ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کا خوف چھوڑ دیتا ہے، وہ دنیا کے ہر خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اللہ سے تعلق ہی انسان کو دنیا و آخرت میں سکون دیتا ہے۔
5. مقصد اور کامیابی
"کامیاب انسان کی زندگی اپنانا چاہیے، میں نے حضرت صدرُ الشریعت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو ان کے تمام معاصرین میں کامیاب پایا، اس لیے خود کو انہیں کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی۔"
آپ نے اپنی کامیابی کے لیے حضرت صدرُ الشریعت کی زندگی سے سبق لیا اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی۔
6. بزرگوں کی مجلس سے استفادہ
"بزرگوں کی مجلس سے بلاوجہ اٹھنا خلافِ ادب ہے۔"
آپ نے بزرگوں کی مجلس میں بیٹھنے کو بے حد اہمیت دی اور بغیر کسی وجہ کے اس سے اٹھنے کو بے ادبی قرار دیا۔
7. مقصد پر ثابت قدمی
"جس کی نظر مقصد پر ہوگی اس کے عمل میں اخلاص ہوگا اور کامیابی اس کے قدم چومے گی۔"
آپ کے مطابق، جو شخص اپنے مقصد پر ثابت قدم رہے گا اور اخلاص کے ساتھ محنت کرے گا، وہ کامیاب ہوگا۔
8. جسم اور روح کی طاقت
"جسم کی قوت کے لیے ورزش اور روح کی قوت کے لیے تہجد ضروری ہے۔"
آپ نے جسم کی قوت کے لیے ورزش اور روح کی قوت کے لیے تہجد کو ضروری سمجھا، کیونکہ جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی طاقت کی ضرورت ہے۔
9. کام اور محنت
"کام کے آدمی بنو، کام ہی آدمی کو معزز بناتا ہے۔"
آپ نے کہا کہ محنت اور لگن سے کام کرنے والا شخص ہی عزت و مقام حاصل کرتا ہے۔
10. کام کی ٹھوس بنیاد
"ہر ذمہ دار کو اپنا کام ٹھوس کرنا چاہیے، ٹھوس کام ہی پائیداری کی ضمانت ہوتے ہیں۔"
آپ نے اس بات پر زور دیا کہ جو شخص اپنے کام کو مضبوط اور پائیدار انداز میں کرتا ہے، وہ کامیاب رہتا ہے۔
11. اپنی ذمہ داریوں پر توجہ
"انسان کو دوسروں کی ذمہ داریوں کے بجائے اپنے کام کی فکر کرنی چاہیے۔"
آپ نے کہا کہ ہر شخص کو اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے اور دوسروں کی ذمہ داریوں میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیے۔
12. احساسِ ذمہ داری
"احساسِ ذمہ داری سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔"
آپ نے فرمایا کہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس انسان کی کامیابی کا راز ہے اور یہ ایک قیمتی سرمایہ ہے۔
13. وقت کی اہمیت
"ضیاعِ اوقات سب سے بڑی محرومی ہے۔"
آپ نے وقت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ وقت کا ضیاع سب سے بڑی محرومی ہے کیونکہ یہ ایک قیمتی چیز ہے جو واپس نہیں آتی۔
14. آرام کی حقیقت
"زمین کے اوپر کام اور زمین کے نیچے آرام۔"
آپ نے انسان کو اس بات کا شعور دیا کہ راحت و سکون کی حقیقت صرف دنیا کی زندگی تک محدود نہیں ہے، بلکہ آخرت میں بھی اس کا حقیقت سے تعلق ہے۔
15. مخالفت کا جواب صرف عمل سے دینا
"ہر مخالفت کا جواب صرف کام ہے۔"
آپ نے فرمایا کہ مخالفین کا جواب دینے کے لیے بہترین طریقہ عمل کی شدت ہے۔
یہ ملفوظات نہ صرف آپ کی ذاتی زندگی کے اصول ہیں بلکہ آج بھی لوگوں کی زندگیوں میں اثر انداز ہو رہے ہیں۔ آپ کا پیغام آج بھی لوگوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے، خصوصاً آپ کی تعلیمات کے ذریعے، جو آپ کے تلامذہ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں۔
حافظِ ملت کی وفات کے بعد ہر سال ان کے عرس کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ان کی بے مثال خدمات، علم، اور دینی کارناموں کو یاد کیا جا سکے اور ان کی عظمت کو اجاگر کیا جا سکے۔ اس سال "عرس عزیزی" یا "عرس حافظ ملت" کا جشن "جشن پچاس" کے طور پر بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منایا جائے گا۔ اس موقع پر محسنِ اہلِ سنت، حافظِ دین و ملت، حضرت مولانا عبد العزیز رحمہ اللہ کی بارگاہ میں عقیدت و احترام کے طور پر متعدد محافل، تقریبات اور دینی پروگرامز منعقد کیے جائیں گے تاکہ آپ کی دینی خدمات اور علم کا بیش قیمت خزانہ نئی نسل تک منتقل ہو سکے۔
یہ جشن نہ صرف آپ کی زندگی اور خدمات کا اعزاز ہے، بلکہ یہ ہمارے لیے ایک عظیم موقع ہے کہ ہم آپ کے نقشِ قدم پر چل کر اپنے دین و ملت کی خدمت کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ حافظِ ملت پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے صدقے ہمیں ہدایت، مغفرت، اور اپنی رضا کی توفیق دے۔ آمین۔
جس نے پیدا کیے کتنے لعل وگہر
حافظ دین وملت پہ لاکھوں سلام