اعلیٰ حضرت ایک ہمہ جہت شخصیت

 اعلیٰ  حضرت  مجدد دین وملت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ اپنے   علم و دانش ،فکرو فہم ،تبحر و تفقہ ،بصیرت و فراست اور کمال جامعیت ہر لحاظ سے چودہویں صدی ہجری کی ممتاز ترین شخصیت تھے ۔اللہ تعالی   نے آپ کو بے شمار صلاحیتیں عطاکیں ، جن سے آپ نے ہر وقت اور ہر لمحہ دین وسنیت پر آنے والی تمام تر یلغاروں سے مذہب اہل سنت وجماعت کا دفاع فرمایا ،آپ نے اپنی پوری زندگی  امت مسلمہ کی خدمت  کے لیے وقف فرمادی ،آپ کی ذات پورے عالم اسلام کے لیےخدائی  سوغات  تھی ،آپ کی دینی ،ملی ،سماجی اور اعتقادی کارگزاریوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ تن تنہا ایک انجمن اور انسائکلوپیڈیا کی حیثیت سے قدم قدم پر امت محمدیہ کی رہنمائی فرما رہے ہیں ،آپ کی تصنیفات و تالیفات کی  فصاحت و بلاغت میں ارباب فکر ونظر کا ایک عالم گم نظر آتا ہے،آپ  علم و قلم کے دھنی اور فکر ونظر کے شہنشاہ تھے ،آپ کا قلم جس موضوع پر اٹھا رشدو ہدایت کا ایک دفتر  وجود میں آیا: 


ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم             جس سمت آگئےہو سکے بٹھا دیے ہیں


آپ کی زندگی کے جس گوشے پر نظر دوڑائی جائے تو علم و حکمت کا سمندر موجیں مارتا نظر آتا ہے ، مختلف علوم و فنون میں آپ کی خدمات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے تمام اوصاف و کمالات اس شان کے حامل ہیں کہ ان پر الگ الگ مستقل ایک عنوان  کے طور پر کام ہوسکتا ہے اور کافی کام ہو چکا ہے ، ہم اس مضمون میں مختصر طور پر چند گوشوں کا تذکرہ کرتے ہیں اور علم و فضل کے اس عظیم شہسوار کی بارگاہ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
امام احمد رضا اور علوم و فنون :              اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ بکثرت علوم و فنون کے ماہر تھے ،ان کے آثار علمیہ میں غور و خوض کرنے والوں نے پہلے یہ تعداد پچپن شمار کی تھی  ،پھر مزید تحقیق کے بعد 75 بیان کی ،مگر ان کی شخصیت پر با ضابطہ تحقیق اور ریسرچ کرنے والے ارباب علم و دانش نے ان علوم و فنون کی تعداد ایک سو سے زائدشمار کی ہے،جن میں احمد رضا کو مہارت حاصل تھی۔(اہل سنت کی آواز ،امام احمد رضا :حیات وخدمات صفحہ33) 
  اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے علوم وفنو ن کے حوالے سے علامہ کوثر نیازی لکھتے ہیں: بر صغیر میں یوں تو کئی جامع الصفات شخصیات گزری ہیں مگر جب ایک غیر جانبدار مبصر ان کا جائزہ لیتاہے تو جیسی ہمہ صفت شخصیت موصوف امام رضا کی نظر آئی و یسی کوئی دوسری نظر نہیں آتی۔کون سا علم تھا جس پر ان کو دسترس نہیں تھی ،تفسیر ،حدیث،فقہ،ہندسہ ،ریاضی ،سائنس،فلسفہ ،علم ہیئت،جفر وغیرہ ان کے سوانح نگاروں نے ساٹھ کے قریب علوم گنوائے ہیں،جن میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی ،وہ بیک وقت ایک عظیم ادیب بھی تھے اور خطیب بھی ،مناظر بھی تھے اور متکلم بھی ،محدث بھی تھے اور مفسر بھی،فقیہ بھی تھے اور سیاست دان بھی ۔(امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت ۔مولاناکوثر نیازی ۔صفحہ 15 )  اعلیٰ حضرت کے علوم و فنون کے حوالے سے مولانا طارق انو ر مصباحی نے  نئی تحقیق کی ،جس میں آپ نے انھیں 59 علوم و فنون کو اصل اور فرع کے حساب سے تقسیم کرتے ہوئے  اعلیٰ حضرت کے 575 علوم و ثابت فرمائے( اعلیٰ حضرت کے 575علوم وفنون)
امام احمد رضا اور فقہ وافتا:   اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ اپنے دور کے بے مثال فقیہ اور بلند پائے کے مفتی تھے ،علم فقہ میں آپ کی تصانیف کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد ہے ،آپ کی   معروف کتاب العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ہے ۔ یہ فقہ حنفی کا ایک عظیم انسایکلو پیڈیا ہے  ،پہلے اسے 12 جلدوں میں شائع کیا گیا پھر مزید رسائل کے اضافے کے ساتھ ماہر رضویات مفتی حنیف خان رضوی نے امام احمد رضا اکیڈمی سے 34  جلدوں میں شائع کیا۔ آپ کی فقہی بصیرت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے  کہ مکہ مکرمہ کے عالم جلیل شیخ سیدمحمد اسماعیل بن سید خلیل رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے جب  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا ایک فتوی دیکھا تو بے ساختہ پکارا ٹھے : واللہ أقول والحق أقول إنه لوراها أبو حنيفة النعمان لأقرت عينه وجعل مؤلفهامن جملة الأصحاب.خدا کی قسم میں بالکل سچ کہتا ہوں کہ اگر یہ فتوی امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالی  عنہ دیکھتے تو بلاشبہ اس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور وہ فتوی لکھنے والے کو اپنے اصحاب کےزمرے میں شامل فرمالیتے (ماہ نامہ المیزان بمبئی کا امام احمد رضا نمبرص188)۔ آپ کی خدمت میں آنے والے استفتا کی کثرت بہت حیرت انگیز تھی اور ان سب کے جواب لکھنا اور لکھوانا اس سے بھی زیادہ محیر العقول تھا، استفتا کی کثرت کےبارے میں ایک جگہ خود فرماتے ہیں ،فقیر کے یہاں علاوہ رد وہابیہ خذلهم الله تعالی  و دیگر مشاغل کثیر ہ دینیہ کے کا رفتوی اس درجہ وافر ہے کہ دس مفتیوں کے کام سے زائد ہے ،شہر ودیگر بلادوامصار، جملہ اقطار ہندوستان و بنگال و پنجاب و مالیبار و بر هماوارکان و چین و غزنی وامریکہ افریقہ حتی که سرکارحرمین محترمین سے استفتا آتے ہیں اور ایک ایک وقت میں پانچ پانچ سو جمع ہو جاتے ہیں (فتاوی رضویہ جلد 4 صفحہ148،149 رضا اکیڈمی ممبئی)۔ ماہرِ رضویات پر وفیسر ڈاکٹرمحمد مسعود احمد صاحب رقم طراز ہیں:امام احمد رضا کے مطالعہ وتحقیق کا معیار بھی بہت بلند تھا ، انھوں نے لکھی لکھائی اور سنی سنائی  باتوں پر تکیہ نہ فرمایا ، بلکہ اصل متون کا خودمطالعہ فرمایا ۔امام احمد رضا نے اپنی تمام نگارشات میں اصول تحقیق کا پورا پورا خیال رکھا ہے ۔ وہ ایک محتاط  محقق ، عاقبت اندیش مد بر اور بلند پایہ فکر تھے ۔ اس حزم واحتیاط کے باوجودان کی تصانیف کی تعداد ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اعلیٰ  حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے علمی فضل و کمال اور مختلف زبان وادب پر قدرت کاملہ کا عالم یہ ہے کہ اردو، عربی فارسی منظوم منثور جس زبان اور جس انداز میں استفتا ہوا، اسی زبان اور اسی انداز میں اس کا جواب مرحمت فرمایا، جسے دیکھ کر ارباب علم ودانش بھی حیرت زدہ رہ گئے(اہل سنت کی آواز ،امام احمد رضا حیات و خدمات صفحہ 35)۔ 
امام احمد رضا اور تحقیقِ انیق : کن چیزوں سے تیمم کرنا جائز ہے اور کن سے نا جائز ہے ۔ یہ مسئلہ تقر یبا ًفقہ کی تمام کتابوں میں موجود ہے، مگر  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ سے پہلے فقہاے کرام نے اس سلسلے میں جو تحقیقات پیش کی ہیں، ان سب کا حاصل یہ ہے کہ جن چیزوں سے تیمم کرنا جائز ہے ان کی کل تعداد چوہتر (۷۴) ہے اور جن سے تیمم کرنا جائز نہیں ہے، ان کی کل تعدا دا ٹھاون (۵۸) ہے۔ جب  اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے اس مسئلہ کی تحقیق کی تو ایک سوا کیاسی (۱۸۱) چیز یں وہ بیان فرمائیں جن سے تیمم کر نا جائز ہے، گویا انھوں نے اپنی خدا داد فقہی بصیرت کی روشنی میں فقہائے کرام کی بیان کردہ چوہتر (۷۴) اشیا پر ایک سو سات (۱۰۷) اشیا کا اضافہ فرمایا۔اسی طرح ایک سوتیس (۱۳۰) چیز یں وہ بیان فرمائیں جن سے تیمم کرنا جائز نہیں ہے ، گویا پیش روفقہائے کرام کی ذکر کردہ اٹھاون (۵۸) اشیا پر مزید بہتر (۷۴) اشیا کا اضافہ فرمایا۔ چنانچہ آپ اس مسئلہ پر مفصل تحقیقی بحث فرمانے کے بعد یوں رقم طراز ہیں۔ یہ تین سو گیا رہ1 ۳۱ ( چیزوں کا بیان ہے ۔ ایک سوا کیاسی )۱۸۱( سے تیمم جائز ،جن میں چوہتر (۷۴) منصوص اور ایک سو سات (۱۰۷) زیاداتِ فقیر اور ایک سوتیس (۱۳۰) سے نا جائز جن میں اٹھاون (۵۸) منصوص اور بہتر (۷۴ ) زیاداتِ فقیر ۔( پھر آگے تحدیث نعمت کے طور پر فرماتے ہیں: ایسا جامع بیان اِس تحریر کے غیر میں نہ ملے گا، بلکہ زیادات در کنار ، اتنے منصوصات کا استخراج بھی سہل نہ ہو سکے گا۔یہ امام احمد رضا کے انداز تحقیق کی ہم نے محض ایک جھلک پیش کی ،ابھی اس جیسی سیکڑوں مثالیں ہیں ، جنھیں دیکھ کر عقل  وخردحیران ہوجاتے ہیں ۔(فتاوی رضویہ ،کتاب الطہارۃ ،باب التیمم ،جلد: 1، صفحہ نمبر:701 رضا اکیڈمی ممبئی)
 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی ایک ہمہ گیر شخصیت کا نام ہے ،جیسا کہ علامہ ریاست علی قادری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :ا مام احمد رضا  کی شخصیت میں بیک وقت کئی سائنس داں گم تھے ،ایک طرف ان میں ابن الہیثم جیسی فکر ی بصارت اور علمی روشنی تھی تو  دوسری طرف جابر بن حیان جیسی صلاحیت ،الخوارزمی اور یعقوب الکندی جیسی کہنہ مشقی تھی ،تو دوسری طرف الطبری ،رازی اور بو علی سینا جیسی دانشمندی ،فارابی اور البیرونی ،عمر بن خیام ،امام غزالی اور ابن ارشد جیسی خدا داد ذہانت تھی دوسری طرف امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے فیض سے فقیہانہ وسیع النظری اور غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ سے روحانی وابستگی اور لگاؤ کے تحت عالی ظرف ،امام احمد رضا کا ہر رخ ایک مستقل علم و فن کا منبع تھا اوران کی ذہانت میں کتنے ہی علم وعالم گم تھے ۔(معارف رضا جلد ششم صفحہ 124)
 امام احمد رضا  اور دنیوی علوم :  امام احمد رضا جس طرح تمام دینی علوم میں ید ِطولی رکھتے ہیں ویسے ہی دنیوی علوم میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہ تھا،آپ کو علم ریاضی ،جفر ،تکسیر،سائنس ، ہیئت اور توقیت وغیرہ میں  کافی عبور حاصل تھا،جن پر آپ نے بے شمار رسائل بھی تصنیف فرمائے،جن کو ملک العلما حضرت ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ    نے اپنی  مشہور کتاب حیات  اعلیٰ حضرت میں تفصیل سے بیان فرمایا،میں صرف علم ریاضی کے حوالے سے ایک واقعہ پیش کر تاہوں: ایک مرتبہ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے علم المربعات کا ایک سوال اخبار دبدبۂ سکندری رامپور میں شائع کرایا کہ کوئی ریاضی دان صاحب اس کا جواب دیں،  اعلیٰ  حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے جب ملاحظہ فرمایا تو اس کا جواب تحریر فرمایا اور ساتھ ساتھ اسی فن کا ایک سوال بھی جواب کے لئے تحریر فرمایا۔ وہ جواب اور پھر سوال چھپا تو ڈاکٹر صاحب کو حیرت ہوئی کہ ایک عالم دین بھی اس علم کو جانتا ہے چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اس کا جواب اخبار دبدبۂ سکندری میں چھپوایا، اتفاق سے وہ جواب غلط تھا،  اعلیٰ حضرت نے اس کی تغلیط کی، متحیر تو ڈاکٹر صاحب پہلے ہی تھے اب ان کو سخت تعجب ہوا کہ ایک عالم دین صرف جانتا ہی نہیں بلکہ اس میں کمال رکھتا ہے یہ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب کو  اعلیٰ  حضرت سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ چنانچہ خط کے ذریعہ  اعلیٰ حضرت سے اجازت طلب کرکے ڈاکٹر صاحب بریلی شریف حاضر ہوئے۔  اعلیٰ حضرت نے اپنا ایک قلمی رسالہ جس میں اکثر اشکال مثلث اور دوائر کے بنے تھے، ڈاکٹر صاحب کو دکھایا، ڈاکٹر صاحب نے نہایت حیرت اور استعجاب سے اسے دیکھا اور بالآخر فرمایا کہ میں نے اس علم کو حاصل کرنے کے لئے غیر ممالک کے اکثر سفر کئے، مگر یہ باتیں کہیں بھی حاصل نہ ہوئیں ۔میں تو اپنے آپ کو بالکل طفل مکتب سمجھ رہا ہوں، مولانا یہ تو فرمائیے آپ کا اس فن میں استاد کون ہے،  اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا، میرا کوئی استاد نہیں ہے، میں نے اپنے والد ماجد علیہ الرحمہ سے صرف چار قاعدے جمع، تفریق، ضرب، تقسیم محض اس لئے سیکھے تاکہ ترکہ کے مسائل میں ان کی ضرورت پڑتی ہے، شرح چغمینی شروع کی تھی کہ حضرت والد ماجد نے فرمایا، کیوں اپنا وقت اس میں صرف کرتے ہو، مصطفی ٰپیارے ﷺ کی سرکار سے یہ تم کو خود ہی سکھا دیئے جائیں گے۔ چنانچہ یہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں سرکار رسالت ﷺ کا کرم ہے۔(حیات  اعلیٰ حضرت  ملک العلما صفحہ نمبر 266)
  امام احمد رضا اور علوم قرآن :  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ علوم قرآن کے ماہر تھے،قرآن فہمی کے لیے جن علوم وفنون کی ضرورت ہوتی ہے، ان سب پر انھیں کامل عبور حاصل تھا، شان نزول اور تاریخ و منسوخ سے پوری طرح باخبر تھے ۔ ان کی تفسیر ی مہارت کا ایک شاہ کار اور قرآن فہمی کاِبین ثبوت ان کا ترجمہ قرآن کنز الایمان“ بھی ہے جس کے بارے میں محدث اعظم ہند حضرت مولا ناسید محمد اشرفی ، کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:علم قرآن کا اندازہ صرف  اعلیٰ  حضرت کے اس اردو تر جمہ سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی مثال سابق نہ عربی میں ہے، نہ فارسی میں ہے ، نہ اردو زبان میں ہے، اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسر الفظ اس جگہ لا یا نہیں جا سکتا جو بظاہر مختصر ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں ( روح ) قرآن ہے ، اس ترجمہ کی شرح حضرت صدرالافاضل استاذ العلماءمولا نا شاہ نعیم الدین علیہ الرحمہ کےحاشیہ پر بھی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ دوران شرح ایسا کئی بار ہوا کہ  اعلیٰ  حضرت کے استعمال کردہ لفظ کے مقام استنباط کی تلاش میں دن پر دن گزر گیا وررات پر رات کٹتی رہی اور بالآخر ماخذ ملا تو ترجمہ کا لفظ ائل ہی نکلا ۔  اعلیٰ  حضرت خود شیخ سعدی کے فارسی ترجمے کو سراہا کرتے تھے ،لیکن اگر حضرت سعدی اردوزبان کے اس ترجمہ کو پاتے تو فرماہی دیتے کہ ترجمہ قرآن شے دیگر است وعلم القرآن شے دیگر۔(احوال و آثار  اعلیٰ  حضرت مجدد اسلام بریلوی علامہ صابر القادری نسیم بستوی صفحہ 387)
امام احمد رضا اور رد بد مذہباں:اس وقت متحدہ ہندوستان میں طرح طرح کے باطل فرقے جنم لے رہے تھے ،جن کا مقصد مسلمانوں کے دلوں سے شمع ایمان کو گل کرکے انھیں جادہ مستقیم سے بھٹکانہ تھا ،ان میں قادیانی ، رافضی ،وہابی ،اور دیوبندی وغیرہ فرقہ باطلہ تھے ، اعلیٰ  حضرت نےان کے خرافات  کی سرکوبی  فرمائی اور ان کے باطل عقائد و نظریات  سے عوام النا س کو وقت رہتے آگاہ فرمایا،آپ نے قادیانیوں کے رد میں 6 کتابیں لکھیں،جن میں   قہر الدیان علی مرتد بقادیان،الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی،السوء والعقاب علی المسیح الکذاب وغیرہ ہیں۔آپ نے رافضیوں کے ردمیں              الرائحۃ العنبریۃ من المجمرۃالحیدریۃ          تصنیف فرمائی   ۔  آپ نے وہابیوں کے رد میں76 کتابیں تصنیف فرمائی   ،جن میں مشہور  تمہید ایمان بآیات قرآن،سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح،الامن والعلی لناعتی المصطفی بدافع البلاء ،فتاوی الحرمین برجف ندوۃ المین ،حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین ،الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃوغیرہ شامل ہیں۔آپ نے غیر مقلدین کے رد میں 26 کتابیں تصنیف فرمائیں،جن میں مشہور مبین الہدی فی نفی امکان مثل المصطفی،جمیل ثناء الائمۃ علی علم سراج الامۃ۔صمصام حدید بر کولی بے قیدعدوتقلید وغیرہ شامل ہیں۔اس طریقے سے آپ نے باطل قوتوں کے خلاف قلمی جہا دفرمایا۔(حیات  اعلیٰ  حضرت ملک العلماء ،جلد 1،صفحہ نمبر 621)
امام احمد رضا اور فن شاعری :  سرکار  اعلیٰ  حضرت کو حضورﷺ سے بے پناہ عشق تھا ،جس عشق کا اظہار آپ حضورﷺ کی بارگاہ ناز میں نعت لکھ کر کیا کرتے تھے ،آپ کی نعتوں کا یہ عالم ہے کہ انھیں سن کر طبیعت مچل جاتی ہے ،روح میں نئی تازگی اور ایمان میں بالیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ آپ کی نعتوں کا بہترین مجموعہ حدائق بخشش کی شکل میں موجود ہے۔
امام احمد رضااور امت کی قیادت:                  بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں مسلمانان متحدہ ہند بے شمار مسائل و معاملات سے دو چار تھے ،دینی ،ودنیوی،تعلیمی و سیاسی  اور معاشرتی سبھی طرح کے پیچیدہ مسائل سے پریشان تھے ،دوسری طرف انگریزوں کے ظلم و ستم کی انتہا نہ تھی ، متحدہ قوتیں  سلطنت عثمانیہ کو نیست و نابود کرنے کے درپے تھے ،پہلی جنگ عظیم کی تیاری چل رہی تھی، جس میں انگریزوں نے ہندوستان سے آزادی کا جھوٹا وعدہ کرکے مشترکہ فوج طلب کی ،انگریزوں پر یقین کرتے ہوئے  ان کی حمایت میں ہندوستان سے تقریبا دو لاکھ لوگ گئے،بد قسمتی سے 1919ءمیں سلطنت عثمانیہ کو شکست ہوئی اور انگریز اپنے کیے ہوئے وعدوں سے مکر گئے ،پھر گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد اور اس وقت کے دیگر قائدین نے انگریزوں کا جم کر رد کیا  اور اسے تحریک خلافت  کا نام دیا گیا  اور لوگوں کو  احادیث کا حوالہ دےکر  خلافت کی حمایت میں ابھارا گیا ، جب یہ خبر سرکار  اعلیٰ  حضرت تک پہنچی تو آپ نے اس سیاسی تحریک کو خلافت کے نام سے موسوم کرنے سے منع فرمایا اور دوام العیش فی  الائمۃ من قریش لکھ کر یہ ثابت فرمایا کہ خلیفہ ہونے کے لیے قرشی ہونا شرط ہے ،لہذا ایسے ناموں سے پرہیز کیا جائے ۔اسی کے فورا بعد1920ءمیں تحریک ترک موالات کا معاملہ سامنے آیا ،جس میں مسلم سیاسی لیڈر وں نے دین کا حوالہ دیتے ہوئے انگریزوں سے تمام معاملات کو ترک کرنے کا حکم دیا ،ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگائے گئے ،اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان اتحاد کے دعوے کو مضبوط کرنے کے لئے مندروں میں جاتے، ٹیکے لگاتے اور کافروں کی شبیہ اختیار کرنے لگے ،سرکار  اعلیٰ  حضرت نے جب یہ نازک صورتحال کا مشاہدہ فرمایا کہ اس سے ہمارے مسلمان کھلم کھلا کفر و شرک کی دلدل میں پھنس جائیں گے تو آپ نے اپنی علمی شان وشوکت کے ساتھ قائدانہ جوہر دکھاتے ہوئے اس فتنے پر بر وقت نکیل کَسی اور المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ الممتحنۃ کے نام سے کتاب تصنیف فرمائی اور اس میں بتایا کہ ترک موالات کا حکم تو تمام کفار ومشرکین کے لیے یکساں ہے،انگریزوں سے ترک معاملات اور کفار ہند سے مواخات اسلام اس کی قطعا اجازت نہیں دیتا۔اس کے علاوہ جب کسی نے  سوال کیا کہ ہندوستان  دارالحرب ہے یادارالسلام؟ تو آپ نے اعلام الاعلام بان ہندوستان دار السلام تصنیف فرمائی  اور آپ نے ثابت فرمایا کہ ہندوستان دارالسلام ہے۔
امام احمد رضا اور تصنیفات و تالیفات:                  اعلیٰ  حضرت علیہ الرحمہ کی کتابوں کے حوالے سے مشہور ہے کہ آپ نے اپنے قلم سیال سے ایک ہزار کتابیں تصنیف فرمائی ،اس حوالے سے بر صغیر ہندو پاک کے محققین کے قیمتی آراء پیش ہیں: ڈاکٹر مسعود احمد پاکستانی نے تحریر فرمایا "امام احمد رضا کے وصال کے بعد تحقیق سے معلوم ہواکہ تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے بھی متجاوز ہے"۔(امام احمد رضااور عالم اسلام صفحہ 73۔ادارہ مسعودیہ پاکستان) آپ مزید لکھتے ہیں کہ ایک ہزار میں سے دو سو کتابیں عربی میں،بقیہ فارسی اور اردو میں ہیں(ایضاص 79)           ماہر رضویات عبد الستار ہمدانی نے 869 تصانیف کے نام جمع کیے ہیں ۔اوراس سلسلے میں مفتی حنیف خان رضوی کی تحقیق بھی قابل ذکر ہے،آپ لکھتے ہیں : اعلیٰ  حضرت کے کتابوں کی فہرست جو دستیاب ہوئیں،ان میں تمام کتب و حواشی کی تعداد آٹھ سو یا اس سے زیادہ ہے لیکن میری پچیس سالہ تتبع اور تلاش کے نتیجے میں اب تک کتابوں کی تعداد ساڑھے تین سو سے آگے نہ بڑھ سکی)۔(امام احمد رضا کی تصنیفات کا اجمالی تعارف ص5) ان  تمام اقوال میں تطبیق کے  طور پر   علامہ عبد المبین نعمانی لکھتے ہیں: تقسیم ہند کی افراتفری میں آپ کی کتابوں کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو چکا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ حواشی اور تعلیقات کو لے کر کل کتابوں کی تعداد تقریبا ایک ہزار ہوگی (المصنفات الرضویہ ص11،12)۔
امام احمد رضا پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے تحقیقی مقالے!  امام احمد رضا کی عبقریت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اب تک آپ   کے علوم و فنون پر  پوری دنیا خاص طور پر بر صغیر ہندو پاک سے بے شمار  پی ایچ ڈی اور ایم فل کے  مقالے جا لکھےچکے ہیں ،جن میں  سب سے پہلی پی ایچ ڈی ڈاکٹر حسن رضا خان نے1979ءمیں  فقیہ اسلام کے عنوان پرپٹنہ یونیورسٹی سے کی،پھر ڈاکٹر اوشا سانیال نے 1990ءمیں کولمبیا  یونیورسٹی نیویارک سے ،ڈاکٹر طیب علی  رضا نے امام احمد رضا کی حیات و خدمات بنارس ہندو یونیورسٹی سے  ،اسی طرح سے  امام احمد رضا کے علوم و فنون پر تقریبا  تیس سے زائد پی ایچ ڈی اور ایم فل کے تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں۔(امام احمد رضا اور انٹرنیشنل جامعات،سید وجاہت رسول قادری، صفحہ 28)
ان تمام چیزوں کی روشنی میں  اعلیٰ  حضرت  کا علمی مقام ،آپ کی ہمہ جہتی اور ہمہ گیریت کا بخوبی  اندازہ ہوتا ہے ،ظاہر ہے  اس مختصر سے مضمون میں مجدد اعظم  اعلیٰ  حضرت علیہ الرحمہ کی تمام تر خدمات کو یکجا کرنا بہت مشکل ہے ،لیکن پھر بھی  ایک حد تک آپ کے علوم و فنون کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے لیے ہم نے حتی الامکان  اعلیٰ  حضرت پر کام کرنے والے علما  کا حوالہ دینے کی کوشش کی ہے ۔اللہ ہمیں امام اہل سنت  کے  علمی اور روحانی فیوض و برکات سے مالا مال فرمائے۔آمین 
مقالہ نگار   :محمد احمد حسن سعدی امجدی۔ البرکات علی گڑھ
جی میل آئی ڈی ۔ahmadhasansaadi@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter