غوث الثقلین رحمہ اللہ علیہ سے سچی عقیدت ، شریعت مطہرہ کی کامل اتباع میں پنہاں
ورثائے انبیاء یعنی اولیاء اللہ کی زندگیاں ایمان ، محبت رسول، تقوی اور معرفت الٰہی سے عبارت ہوتی ہیں۔ یہ نفوس قدسیہ اللہ اور اس کے حبیبﷺ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے افکار و خیالات، عادات و اطوار، رفتار و گفتار، اعمال و کردار اور الٰہی توفیق سے دین اسلام کی حفاظت و اشاعت ، اسے مضبوط و مستحکم بنانے اور اپنے پیروکاروں کی علمی، اخلاقی اور روحانی رہبری و رہنمائی کا کام انجام دیتے ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق مرسلین کی حیثیت صرف پیغام رساں ہی کی نہیں ہوتی بلکہ وہ قوم کے امام، ہادی، قاضی، شارع، اور مطاع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے رسول کی متابعت کو واجب قرار دیا ہے تاکہ انسان باہمی ظلم و جور سے بچنے کے لیے فکر و عمل میں شارع کی پیروی کرے اور مذہبی، اخلاقی، روحانی، سیاسی، معاشرتی الغرض ہر نظام میں رسول کی اطاعت کرے۔ قرآن مجید نے رسول رحمت ﷺ کی بعثت کو کل کائنات کے حق میں انعامِ عظیم قرار دینے کے بعد مرقع ہرخوبی و زیبائی ﷺ کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایاہے کہ آپ ﷺ کی تعظیم، تکریم اور توقیر کی جائے جس کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ بندۂ مومن تمام افکار وخیالات میں آپ کی پیروی کرے۔ بعثت مصطفی ﷺ کے ساتھ ہی رسالت و نبوت ہر طرح سے اور ہمیشہ کے لیے منقطع ہوچکی ہے۔ اب یہ ناممکن ہے کہ کوئی فرستادہ الٰہی از سر نو کسی پیام نبوت کو لے کر آئے۔
خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کے صدقہ و طفیل ہی تبلیغ اسلام کی ذمہ داری امت مصطفی کو سونئی گئی ہے جن میں سرفہرست اولیاء اللہ ہیں۔ حاملین علوم نبوت یعنی اولیائے کرام کی زندگی کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہوتا ہے جس کے لیے وہ اپنی زندگی وقف کردیتے ہیں۔ یہ وہ نفسوس قدسیہ ہیں جو دین اسلام کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور اس کی ترویج و اشاعت اور حفاظت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ایسے درویشان و خرقہ پوشان اور گڈری و کمبل پوشوں کی مجالست اختیار کرنے کا حکم فرماتا ہے جو ہمیشہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی نظر محبت کے بھوکے اور نگاہ کرم کے پیاسے ہوتے ہیں اور زہد و قناعت اور صبرو استقامت کے مینارۂ نور ہوتے ہیں۔
چونکہ ان محبین، مخلصین اور درویشان اسلام کے قلوب و اذہان ہمیشہ فکر و ذکر الٰہی سے مملو ہوتے ہیں جس کے باعث اللہ تعالی انہیں ایمان و رتقوی کے اعلی درجے پر فائز فرماکر ہر طرح کے خوف و غم سے نجات عطا فرماتا ہے اور انہیں دنیا و آخرت کی بشارتیں سناتا ہے، ان بزرگان دین اور برگزیدہ ہستیوں کی دعاؤں میں وہ تاثیر پیدا فرمادیتا ہے کہ وہ دعا کرتے ہیں تو فوراً بارگاہ رب العزت میں شرف قبولیت کا درجہ پالیتے ہیں۔ بارگاہ الٰہی میں مقبول ان اولیائے کرام کا وجود پوری کائنات کے لیے خیر و برکت کا سبب ہوتا ہے۔ رحمت ﷺ عالم نے حضرات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ارشاد فرمایا تمہارے پاس اویس قرنی رضی اللہ عنہ آئیں گے، جو یمن کے قبیلہ مراد سے ہوں گے، ان کے جسم پر برص کا نشان ہوگا، وہ اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، اگر وہ اللہ کے نام پر کوئی دعا کریں تو اللہ اسے ضرور قبول فرمائے گا، تم ان سے اپنے لیے دعا کروانا۔ یہ اللہ تعالی کے وہ خاص بندے ہوتے ہیں جن کے بارے میں تاجدار ختم نبوت ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تعالی کے کچھ خاص بندے ہوتے ہیں ۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! وہ کون ہیں؟ فرمایا: وہ اہل قرآن ہیں، جو اللہ کے اہل اور اس کے خاص بندے ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے حبیب ﷺ کی وساطت سے اپنے بندوں کو ایسی ہی مبارک ہستیوں کی صحبت اختیار کرنے کا حکم فرماتا ہے جن کے قلوب اللہ اور اس کے حبیبؐ کی محبت سے لبریز ہوتے ہیں اور ان کے شب و روز تسبیح و تہلیل اور اپنے رب کریم کی رضاجوئی میں گزارتے ہیں۔
بندگان خدا کو دنیا کی رنگینیوں اور مفادات سے نجات دلاکر ان کے قلوب و اذہان کو محبتِ الٰہی سے لبریز کرنے والے حضراتِ مقدسہ میں ایک کامل و نمایاں نام قطب الاقطاب ، غوث الثقلین سیدنا شیخ میراں محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ کاہے جنہیں اللہ تعالی نے کمال کی قوت ،جرأت و ہمت عطا فرمائی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ رحمہ اللہ علیہ کی حق گوئی، بے باکی اور سچائی پوری دنیا کے لیے ضرب المثل بن گئی۔ آپ رحمہ اللہ علیہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے اپنے امر کی بنیاد کس کر پر رکھی ہے ۔ آپ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا سچ پر۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور نہ جب میں مکتب میں تھا۔ سیرت غوث الثقلین رحمہ اللہ علیہ کی اس تابناک پہلو پر عمل آوری دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے۔ صداقت کے فوائد و برکات کا ایک فیض یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں نیکی اور بھلائی کا تیزی سے فروغ ہونے لگتا ہے۔
حضرت پیران پیررضی اللہ عنہ کے کردار کی اسی سچائی کا فیضان تھا کہ آپ رحمہ اللہ علیہ کی ہر مجلس میں یہود و نصرانی اسلام قبول کرتے، فاسق و فاجراپنے گناہوں سے تائب ہوکر صراط مستقیم پر گامزن ہوجاتے، گمراہ فرقوں کے شکار لوگ اپنے عقائد باطلہ سے رجوع کرتے ۔ یہی وہ سچائی کا وصف ہے جس سے بہادری، دلیری، جرات اور شجاعت جیسے اوصاف جلیلہ جنم لیتے ہیں جو انسانی کردار کو سنوارنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت ان اوصاف مرضیہ سے محروم ہے جس کی اہم وجہ سچائی سے دوری اور جھوٹ کو اپنانا ہے۔
آج کے دور میں شریعت، طریقت، حقیقت ، معرفت پر نا جانے کتنے جلوس، کانفرنس وغیرہ منعقد ہورہے ہیں لیکن نتیجہ تقریباً نہ کے برابر برآمد ہورہا ہے جس کی اصل وجہ ہمارا صداقت کے دامن کو چھوڑنا اور جھوٹ بول کر مختصر فوائد حاصل کرنے کی غلط روش اختیار کرنا ہے۔ اسی جھوٹ کا وبال ہے کہ آج مسلمانوں کا کروڑہا روپیہ عدالتوں میں مقدمہ بازی پر صرف ہورہا ہے۔ کوئی مقدمہ ایسا ہوتا ہی نہیں جس میں دونوں فریق حق پر ہوں یقینا دونوں میں سے ایک فریق جھوٹا دعوی کررہا ہوتا ہے۔ اگر ہم پیران پیر رضی اللہ عنہ سے سچی عقیدت رکھتے ہیں تو ہمیں جھوٹ کو ترکر ک کرنا پڑے گا تاکہ ہمارا کروڑہا روپیہ جو عدالتوں کی نذر ہورہا ہے ہم اس کا صحیح استعمال امت مرحومہ کی تعلیمی و صحتی اداروں کے قیام، اور اس کی معاشی خوشحالی و فلاح و بہبود کے امور میں کرسکیں جو وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اسلام اور مسلمان مخالف طاقتوں کے منصوبوں کو ناکام بنایا جاسکے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے اندر حضرت غوث الثقلین رحمہ اللہ علیہ سے سچی عقیدت پیدا ہوجائے جس کی نشانی یہ ہے کہ ہم سے کوئی ایسا عمل سرزد ہی نہ جو امرِ خداوندی کے خلاف ہو۔
سلطان الاولیاء سیدنا شیخ میراں محی الدین عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ طالب علمی کے زمانے میں لوگوں کے بے حد اصرار پر میں اناج مانگنے کی غرض سے خراساں کے راستے پر واقع ایک بڑا گاؤں یعقوبا گیا ۔ وہاں میری ملاقات حضرت شریف یعقوبی رحمہ اللہ علیہ سے ہوئی۔ آپ رحمہ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ حق کے مرید اور نیک بندے لو گوں سے کچھ نہیں مانگا کرتے اور مجھے سوال کرنے سے منع کیا۔ اس اہل دل بزرگ کی تلقین اور دست سوال دراز کرنے کی مذمت آپ کے ایسے ذہن نشین ہوئی کہ پوری زندگی آپ رحمہ اللہ علیہ خود اس پر سختی سے عمل پیرا رہے اور خلق خدا کو بھی نصیحت فرمائی کہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے ۔ حضرت غوث الثقلینؒ کی سیرت طیبہ کا یہ ورق لائق تقلید اور اصلاح معاشرہ کا باعث اور دنیاو آخرت میں کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے۔ پیرانِ پیر رضی اللہ عنہ سے وابستگی کا دم بھرنے والے بعض نام نہاد جعلی پیر وں کا آج یہ عالم ہے کہ گیارہویں شریف کی محافل کا انعقاد کرنے کے لیے مریدین سے مالی امداد طلب کرتے ہیں ، بعض نام نہاد عقیدت مند عوام الناس سے زبردستی چندہ جمع کرتے ہیں۔ ہماری یہ غلط روش سیرت و تعلیمات غوث الثقلین رحمہ اللہ علیہ کے بالکل خلاف ہے۔ غوث الثقلین رحمہ اللہ علیہ سے سچی عقیدت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم آپ کی تلقین و تاکید کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ظاہرو باطن کی اصلاح کریں ۔
علاوہ ازیں کتابوں میں یہ بھی درج ہے کہ راتوں میں نوافل ادا کرنا، تلاوت قرآن مجید کرنا حضرت غوث الثقلین رحمہ اللہ علیہ کے معمولات میں شامل تھا۔ دوسری طرف ہم ہیں جو پیرانِ پیر سے عقیدت و محبت کا دعوی تو ضرور کرتے ہیں لیکن ہم ارکان اسلام بالخصوص فرض نماز کی ادائیگی میں بھی کوتاہی و غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، تفہیم قرآن تو درکنار ہمارے پاس تو تلاو ت قرآن مجید کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ گھر بھرانی، نیا کاروبار شروع کرتے وقت ہم تلاوت قرآن مجید کے لیے مدرسے سے بچوں کو بلاتے ہیں۔ ہماری دین سے دوری کا تو یہ عالم ہوگیا کہ مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کے لیے بھی ہم مدرسے سے بچوں کو بلاتے ہیں۔اگر ہمیں حضرت غو ث الثقلین رحمہ اللہ علیہ سے سچی عقیدت و محبت ہے تو اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم بھی اپنا تعلق اللہ ، اس کے حبیب ﷺ اور قرآن سے جوڑلیں اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی پنہاں ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں زندگی کا ہر لمحہ تصورِ بندگی کے ساتھ گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔آمین، ثم آمین، بجاہ سید المرسلین، طہ و یسین ﷺ ۔