امام احمد رضا کا عشق اور کثرت علوم و فنون

 اس دنیا میں انسان کسی نہ کسی سے محبت کرتاہے اور جس سے محبت کرتاہے اس کی یاد میں بے چین رہتا ہے- ہر وقت ہر لمحہ اپنے اس محبوب کی مدح و ستائش میں مصروف رہتا ہے- دل میں محبوب کی عظمت اور زبان پر اس کے نام کا وظیفہ رہتا ہے- آنکھیں محبوب کے جمال جہاں آراء کا مشاہدہ کرتی ہیں- کان صرف محبوب کا ذکر سننا پسند کرتے ہیں- نظروں میں دیار محبوب کی ہر ایک شئی مکرم و معظم ہوتی ہے- عاشق کا سرمایہ حیات عشق ہے- عشق اس کی زندگی کا جزو لاینفک ہے- اب عاشق کا دل ودماغ اس کے اختیار میں ہے- وہ محبوب کی زلفوں کا اسیر ہو چکا ہے- اس کے دل ودماغ میں کوئے محبوب کا تصور ہوتا ہے- استاذ زمن حضرت علامہ حسن رضا خان بریلوی فرماتے ہیں-

       دل کو جاناں سے حسن سمجھا بجھاکر لائے تھے
        دل  ہمیں  سمجھا  بجھاکر  کوئے  جاناں لے چلا

      اس خاندان گیتی پر ایک ایسا عاشق پیدا ہوا تھا جس کی نگاہ جلوہ محبوب کے علاوہ کسی دوسری چیز کے دیکھنے کی قائل نہ تھی، وہ دیکھتا تھا تو اپنے محبوب کے رخ انور کو دیکھتا تھا، وہ بولتا تھا تو اپنے محبوب کے فرمان کو پیش کرتا تھا، وہ مسکراتا تو ادائے محبوب لے کر مسکراتا، اس کی فکر میں ادائے محبوب شامل تھی، وہ چلتا تو محبوب کی متعین کردہ حدود میں چلتا، بلکہ وہ ان حدود کا آخری وقت تک محافظ تھا، وہ سوتا تو نام محبوب بن جاتا، ایک طرف وہ دنیا کا سب سے بڑا عاشق رسول تھا تو دوسری طرف دنیائے اسلام کا سب سے بڑا عالم تھا، سب سے بڑا محدث تھا، سب سے بڑا مفسر تھا، جو علم معانی، علم بیان، علم بدیع، کا سب سے بڑا عالم تھا- جو علم تکسیر، علم ہئیات، علم حساب اور علم ہندسہ کا امام ہو، جو قرآت و تجوید کا بحر ذخار ہو، تصوف وسلوک میں یگانہ روزگار ہو، جس کے دیوان نعت میں حضرت حسان کی شاعری کی جھلک ہو، علم ریاضی میں جس کی مثال نہ ملتی ہو، علم فقہ میں جو امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کا مظہر اتم ہو، علم عقائد و کلام میں جس کی نظیر نہ ہو، جس کے منطقیانہ اور فلسفیانہ، اقوال و براہین کو دیکھ کر بوعلی سینا فارابی حیرت و استعجاب میں پڑ جائیں، جس کے علم نحو و صرف کو دیکھ کر بصرئین اور کوفئین حیران ہوں، جو علم ریاضی کا سب سے بڑا عالم ہو، ارشماطیقی حساب، توقیت، زیجات اور زائچہ جیسے دیگر بہت سے علوم محبوب کی بارگاہ سے تحفتاً ملے ہوں، جو عاشق اور عاشق گر تھا، جو دنیاکا سب سے بڑا پرہیزگار تھا، جو قطب الارشاد اور مجدد اعظم تھا، جس کی زیارت سے اس کے محبوب کی زیارت ہوتی، جو اس کے پاس بیٹھا اس کے محبوب کے پاس بیٹھا، جس نے اس کو دیکھا اس نے اس کے محبوب کو دیکھا، جسے پوری دنیائے عرب وعجم اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے- 
       حیرت سر پیٹ رہی ہے دنیا ششدر ہے کہ یہ کون ہے؟ جس کی ذات میں اتنے اوصاف جمع ہوگئے ہیں- جو ایک طرف سب سے بڑا عاشق مصطفیٰ تھا تو دوسری جانب علم کا موجیں مارتا ہوا سمندر- ایک طرف حدائقِ بخشش ہے تو دوسری طرف فتویٰ رضویہ کی بارہ جلدیں، جو تفقہ فی الدین میں امام اعظم ابوحنیفہ کا جانشین ہوا اور نعت گوئی میں حضرت حسان کا متبع، امام احمد رضا اپنے محبوب کی یادوں میں محو رہتے تھے اپنے محبوب کی یادوں میں مستغرق رہتے تھے- من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی کی کیفیت طاری رہتی تھی، جس کی یہ حالت ہو اس کو دیکھ کر پہلو پر طبع آزمائی کرنے کا موقع نہیں ملتا، ہاں وہ امام احمد رضا ہے جو تمام علوم وفنون کا جامع ہونے کے باوجود سب سے بڑا عاشق مصطفیٰ تھا، جو اپنے محبوب کے دشمن کو دشمن اور اپنے محبوب کے دوست کو دوست سمجھتا- جس نے ہر موڑ پر ناموسِ مصطفیٰ کی حفاظت کی، جس کی زندگی کا کوئی لمحہ عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم سے خالی نہیں تھا- جس کے دل پر ایک طرف لا الہ الااللہ اور دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لکھا تھا- جس کا دل عشق کی گرمی کی وجہ سے جل کباب ہوگیا- امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان فرماتے ہیں:

   جلی جلی بو سے اس کی پیدا، ہے سوزشِ عشق چشمِ بالا
   کباب آہو میں بھی نہ پایا، مزا جو  دل کے  کباب  میں  ہے

     امام احمد رضا کا دل عشقِ رسول میں جل کر کباب ہو گیا تھا- من تو شدم تو من شدی کی مکمل کیفیت طاری تھی- امام احمد رضا کو ہر ایک چیز میں عشقِ رسول کی جھلک نظر آرہی تھی- پھول ہو یا گلاب، بیلا چمبیلی ہو یا نسترن، رات ہو یا دن، صبح ہو یا شام، باد بہاری ہو یا نسیم سحری، باد صبا ہو یا دیگر ہوا، فقہ ہو یا اصول حدیث، علم معانی ہو یا بیان، نحو ہو یا صرف، منطق ہو یا فلسفہ، علم ریاضی ہو یا ہندسہ، درس گاہ ہو یا آرام گاہ، سفر ہو یا حضر، زمین ہند ہو یا عرب، مکہ ہو یا مدینہ، ہر جگہ ہر چیز میں محبوب کا جلوہ نظر آتا تھا آپ فرماتے ہیں:

     انہیں  کی بو   مایہ سمن ہے  انہیں کا  جلوہ  چمن  چمن ہے
     انہیں سے گلشن مہک رہےہیں انہیں کی رنگت گلاپ میں ہے

      امام احمد ایک طرف عشق میں فنا فی الرسول کے مقام پر فائز تھے تو دوسری طرف وقت کے امام اعظم- احمد رضا مجتہد فی المذہب اور مجتہد فی المسائل تھے- حیرت خود حیرت میں ہے کیوں؟ اس لیے کہ امام احمد رضا تعجب بالائے تعجب کا نام ہے- امام احمد رضا حیرت کا نام ہے- امام احمد رضا یونیورسٹی کا نام ہے- امام احمد رضا لائبریری کا نام ہے- امام احمد رضا تاریخ کا نام ہے- امام احمد رضا کمالات کا نام ہے- امام احمد رضا فکر کا نام ہے- امام احمد رضا علم کا نام ہے- امام احمد رضا فن کا نام ہے- امام احمد رضا ناموس رسالت و نبوت کا نام ہے- امام احمد رضا فقہ کا نام ہے- امام احمد رضا تحریک کا نام ہے- بلکہ امام احمد رضا سراپا عشق کا نام ہے- آپ کی تحریر ہو یا تقریر، ہر ایک سے عشقِ نبی صلی الله علیہ وسلم کا درس ملتا ہے- عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم امام احمد رضا کی زندگی کا نمایاں ترین وصف ہے- آپ اطاعت کے بغیر عشق کے قائل نہ تھے- امام احمد رضا سنت نبوی کا بہترین نمونہ تھے-
         امام احمد رضا نے اپنی پوری زندگی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گزاری- جس محفل میں بھی ہوتے ذکر نبی کرتے- آپ کی فکر و نظر میں بھی ذکر نبی کے حسین نغمات ہوتے ہند ہو یا دیار حرم بریلی ہو یا مدینہ منورہ کی پر کیف وادی، ہر جگہ ذکر نبی صلی الله علیہ وسلم کرتے- درسگاہ میں طالبان علوم نبوت کو عشقِ نبی کا جام پلاتے، خانقاہ میں مریدوں کو عشق بنی کی شراب پلا کر مست کر دیتے، وعظ و نصیحت کی محفل میں عوام الناس کے سینوں کو عشق و مستی کا گنجینہ بنا دیتے- امام احمد رضا نے اپنے خلفاء کو عشقِ نبی کی شراب پلا کر ایسا مست کر دیا کہ وہ دنیا کے ہر خطے میں عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم کا بھی درس دیتے اور ایمان و عمل کی بھی حفاظت فرماتے- امام احمد رضا کی آرزو تھی کہ دنیا کا ہر شخص عاشق رسول بن جائے- امام احمد رضا زائرین مدینہ منورہ کو دیکھ کر تڑپ جاتے تھے ان کا سکون ختم ہو جاتا- امام احمد رضا نبی صلی الله علیہ وسلم کی یاد میں بلک بلک کر روتے، ان کا جسم بریلی شریف کی دھرتی پر ہوتا مگر دل ودماغ خیالات و تصورات میں مدینہ منورہ کا طواف کرتے- امام احمد رضا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور مکرم حضور صلی الله علیہ وسلم کی ذات تھی- تمام شہروں میں محبوب ترین شہر مدینہ منورہ تھا- مدینہ کے درو دیوار سے بے پناہ محبت کرتے تھے امام احمد رضا بے پناہ عشق نبی کی بنیاد پر سراپا عشق بن گئے-

            کثرتِ علوم و فنون:

    امام احمد رضا جہان علوم و فنون کی اس عظیم شخصیت کا نام ہے جن کو حیرت انگیز اور کثیر علوم و فنون میں مہارت حاصل تھی-  پروفیسر مسعود احمد صاحب لکھتے ہیں:  
     کثرتِ علوم پر امام احمد رضا کو جو عبور اور مہارت حاصل تھی اس کی نظیر اس کے عہد میں کیا، ماضی میں بھی شاذ ہی نظر آتی ہے-  
                             (امام احمد رضا اور عالم اسلام)
بلا شبہ انہیں اپنے آقا و مولا صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ سے بہت سارے ایسے علوم و فنون بخشے گیے تھے کہ جن کی نظیر آج اور ماضی قریب میں ہمیں دور دور تک نظر نہیں آتی- رضویات پر کام کرنے والے محققین تحقیقی عمل میں مصروف ہیں اور اپنی اپنی تحقیق کے مطابق امام احمد رضا کے علوم وفنون کی تعداد بیان کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے- ہم تو صرف اتنا کہہ کر خاموشی اختیار کریں گے-


             ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
             جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں

      * امام احمد رضا اپنی تصانیف کے آئینے میں 

    امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے ابتدائی تعلیم مرزا غلام قادر بیگ سے حاصل کی اور دینیات کی مکمل تعلیم اپنے والدِ ماجد حضرتِ مولانا مفتی نقی علی خان قادری علیہ الرحمتہ والرضوان سے حاصل کی- سرکار اعلیٰ حضرت نے اپنی فطری ذکاوت کی بنا پر تیرہ سال دس مہینے اور پانچ دن میں علومِ درسیہ سے فراغت حاصل کی- قطب مارہرہ، نور العارفین، سرکارِ نور حضرتِ سیدنا ابو الحسین احمد نوری رضی الله تعالیٰ عنہ سے بھی آپ نے علمی استفادہ فرمایا- آپ کو الله تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے بہت سارے علوم و فنون میں مہارت تامہ عطا فرمائی- ان علوم و فنون میں اعلیٰ حضرت نے باقاعدہ تصنیفات بھی یادگار چھوڑی ہیں جن میں سے چند تصنیفات کا اجمالی خاکہ اپنی بساط کے مطابق پیش کر رہا ہوں-
       سرکارِ اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کے وسعتِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ آپ نے سماع موتیٰ کے جواز میں جو فتویٰ دیا ہے اس میں دو سو ستاون ( 257) کتب کا حوالہ پیش کیا- اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فتویٰ رضویہ کا جب خطبہ لکھا تو نوے (90) کتابوں کے ناموں کو اس صنعت کے ساتھ لکھا کہ وہی اسماء خطبہ بن گیے- دوسرا نقطہ یہ ہے کہ وہ نوے (90) کتابیں جو صرف فقہی احکام پر مشتمل ہیں نہ صرف یہ کہ وہ سب آپ کی نگاہوں سے گزر چکی تھیں بلکہ ان کے مضامین پر ذہن کی گرفت اتنی سخت تھی کہ کوئی بھی گوشہ آپ کے حاشیہ خیال سے اوجھل نہیں تھا- اس سے امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کے وسعتِ مطالعہ اور قوتِ حافظہ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے- فقہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کی مشہور ومعروف کتاب ،،فتویٰ رضویہ،، جو قدیم بارہ جلدوں پر اور جدید تیس جلدوں پر مشتمل ہے اس کی ہر ایک جلد اپنی مثال آپ ہے-
        مسائلِ حج پر امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے ایک رسالہ تحریر فرمایاجس کانام ،، انوار البشارت فی مسائلِ حج و زیارت،، ہے جو اس طرح ہے- فصل اول: آدابِ سفر، مقدمات حج میں فصل دوم: احرام اور اس کے احکام داخل حرم مکہ مکرمہ ومسجد حرام فصل سوم: طواف وسعی صفا و مروہ و بیان عمرہ فصل چہارم: روانگی منی و وقوف عرفات فصل پنجم: منی و مزدلفہ وباقی افعال حج فصل ششم: جرم اور اس کے کفارے وصل ہفتم: حاضری سرکارِ اعظم حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم-
        اس رسالہ میں حج کے مسائل کا بیان مکمل ہو جانے کے بعد جہاں زیارت روضہ رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا تذکرہ شروع ہوا ہے وہاں جذبہ عشق کا تلاطم دیکھنے کے قابل ہے- یہاں تک کہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کو یہ بھی گوارہ نہیں ہے کہ جس ساتویں فصل میں وہ دیار حبیب صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے آداب بیان کرنے جارہے ہیں اسے وہ فصل سے تعبیر کریں بلکہ اس کو سرکارِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے وصل سے تعبیر کیا ہے فصل ہفتم کے بجایے سرکارِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے وصل ہفتم کی سرخی قائم کی ہے-
        سرکارِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے 1296/ ہجری مطابق 1878/ عیسوی میں اپنے والدِ گرامی حضرتِ مولانا نقی علی خان علیہ الرحمتہ والرضوان کے ساتھ پہلا حج کیا- دوسرا حج 1323/ ہجری مطابق 1906/ عیسوی میں کیا اس سفر حج میں آپ نے شاہکار تصانیف ،،حسام الحرمین اور ،، الدولتہ المکیہ ،، اور ،، کفل الفقیہ،، تصنیف فرمائیں- سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے فتویٰ کو دیکھنے کے بعد مکہ مکرمہ کے ایک مشہور فاضل علامہ مفتی سید اسماعیل خلیل حافظ کتب الحرم نے لکھا ،، خدا کی قسم میں کہتا ہوں اگر ان کے فتویٰ کو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی الله تعالیٰ عنہ دیکھتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور اس کے لکھنے والے کو اپنے تلامذہ میں سے بناتے ،، 
       ( الاجازات المتینہ، صفحہ 09/ فقیہ اسلام پنجم صفحہ، 163)
         رویت ہلال کے متعلق امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے ،،ازکی الھلال فی امر الھلال،، کتاب تحریر فرمائی- ماء مستعمل کے متعلق آپ نے ،،الطراس المعدل،، کتاب تحریر فرمائی- عیسائیوں کے سوالات کے جواب میں آپ نے ایک مکمل کتاب ،،ندم النصرانی و تقسیم الایمانی،، تحریر فرمائی- آریہ کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ،،کیفر کفر آریہ،، کتاب تحریر فرمائی- آپ نے ہندوستان کے دارالسلام ہونے پر ،،اعلام الاعلام،، کتاب تحریر فرمائی- رسوم شادی کے متعلق آپ نے ،،ہادی الناس فی رسوم الاعراس،، کتاب تحریر فرمائی- آپ نے اسپرٹ کے متعلق ،،الاحلی من السکر کتاب،، تحریر فرمائی- بعد دفن میت اذان دینے کے جواز میں آپ نے ،،ایذان الاجر فی اذان القبر،، کتاب تحریر فرمائی- حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے نسب شریف کے متعلق ،،ارات الادب بفاضل النسب،، کتاب تحریر فرمائی- ماں باپ کے حقوق کے متعلق ،،حقوق الوالدین،، کتاب تحریر فرمائی- بندوں کے حقوق کے متعلق ،،حقوق العباد،، کتاب تحریر فرمائی- آپ نے چالیس احادیث سے عمامہ کی فضیلت پیش فرمائی ہے- آپ نے اخلاق پر ،،شرح الحقوق لطرح العقوق،، کتاب تحریر فرمائی- آپ نے زمین کی حرکت کے رد میں معرکتہ الآرا کتاب ،،الفوز المبین،، کتاب تحریر فرمائی- آپ نے کرنسی پر ،،کفل الفقیہ،، کتاب تحریر فرمائی- آپ نے حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے علم غیب پر ایک معرکتہ الآرا کتاب ،،الدولتہ المکیہ،، تحریر فرماکر علما حرمین الشریفین سے خراجِ تحسین حاصل کیا ہے- آپ نے شفاعت رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پر ،،اسماع الاربعین،، کتاب تحریر فرمائی- آپ نے امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ کے فضائل کے ثبوت میں ،،الزلال الانقی،، کتاب تصنیف فرمائی- آپ نے بسملہ کی تحقیق میں ایک تحقیقی کتاب ،،وصاف الرجیح،، تحریر فرمائی- آپ نے روحوں کے متعلق ضخیم کتاب ،،حیات الموت،، تحریر فرمائی- آپ نے صحیح بخاری شریف پر تحقیقی حاشیہ تحریر فرمایا ہے- آپ نے مسلم شریف اور ترمذی شریف پر بھی شرح تحریر فرمائی ہے- آپ نے حضرت علامہ شامی کی مشہور و معروف کتاب ،،ردالمحتار،، پر سب سے زیادہ حاشیہ تحریر فرمایا ہے اگر اس حاشیہ کو الگ کرلیا جائے تو اس حاشیہ کی کئی جلدیں تیار ہوسکتی ہیں- آپ کی تصنیفات کا اجمالی خاکہ اس طرح ہے: سرکار اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے تفسیر میں 16/ کتابیں. حدیث میں 34/ کتابیں. عقائد و کلام میں 112 کتابیں. رسم الخط قرآن میں ایک کتاب. اسانید احادیث میں چار کتابیں. اسماء الرجال میں سات کتابیں. جرح تعدیل میں دو کتابیں. تخریج احادیث میں چار کتابیں. لغت حدیث میں ایک کتاب. تجوید میں چار کتابیں. اصول فقہ میں چار کتابیں. رسم المفتی میں تین کتابیں. فرائض میں چار کتابیں. نحو میں ایک کتاب. صرف میں ایک کتاب. ادب میں 19 کتابیں. عروض میں ایک کتاب. لغت میں دو کتابیں. فلسفہ میں پانچ کتابیں. مناقب میں 16 کتابیں. سیر میں چار کتابیں. تصوف میں 13 کتابیں. سلوک میں چار کتابیں. اذکار میں آٹھ کتابیں. اخلاق میں تین کتابیں. نصائح میں تین کتابیں. ہیئت میں 16 کتابیں. حساب میں تین کتابیں. ریاضی میں چھ کتابیں. ہندسہ میں پانچ کتابیں. تکسیر میں پانچ کتابیں. وفاق میں ایک کتاب. جفر میں تین کتابیں. لوگارثم میں دو کتابیں. زیجات میں سات کتابیں. جبر و مقابلہ میں تین کتابیں. ارثماطیقی میں تین کتابیں. توقیت میں 16/کتابیں. نجوم میں پانچ کتابیں. مکتوبات میں دو کتابیں. خطبات میں ایک کتاب. مناظرہ میں پانچ کتابیں. تاریخ میں چھ کتابیں. فقہ میں 148 کتابیں تحریر فرمائیں- فقہ میں آپ کی معروف ومشہور کتاب فتویٰ رضویہ ہے جو قدیم بارہ جلدوں پر اور جدید تیس جلدوں پر مشتمل ہے جس کی ہر جلد ایک انسائکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے اس کے علاوہ اور بہت سی کتابیں ہیں جن کی تعداد تقریباً ایک ہزار بتائی جاتی ہے جن میں بہت سی کتابیں غیر مطبوعہ ہیں-

           اجمالی تفصیل:
     فن تفسیر میں آپ کی کتاب ،،الصمصام،، ہے- فن عقائد و کلام پر آپ کی کتاب ،،تمہید ایمان بآیات القرآن،، اور سیف الزمان لدفع حرب الشیطان ہے- فن تجوید وقرآت پر آپ کی کتاب ،،الجام الصاد،، ہے- فن فرائض پر آپ کی کتاب ،،المقصد النافع،،ہے- فن فوقیت پر آپ کی کتاب ،،جدول اوقات،، ہے- فن تصوف پر آپ کی کتاب ،،کشف حقائق واسرار دقائق،، ہے- فن فلسفہ پر آپ کی کتاب ،،الفوز المبین،، ہے- فن لغت پر آپ کی کتاب ،،فتح المعلیٰ،، ہے- آپ کے احیاء دین اور احیاء علوم کے کارناموں کو دیکھ کر علمائے حرمین شریفین نے آپ کو مجدد اور امام اہلسنت کے مبارک خطابوں سے مخاطب کیا غرض اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے 54/ علوم وفنون کے گوہر لٹائے آپ نے وصال سے چار ماہ بائیس روز قبل اپنی وفات شریف کی تاریخ اس آیتِ کریمہ سے استخراج فرمائی:
     ،،ويطاف عليهم بانية من فضة واكواب،، 
خدام چاندی کے کٹورے اور گلاس لیے ان کو گھیرے ہیں-  
       سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا وصال شریف 25/ صفر المظفر 1340/ ہجری کو جمعہ کے دن دو بجکر 38/منٹ پر عین اذان جمعہ میں ادھر حی علی الفلاح سنا ادھر روح پر فتوح نے داعی الی الله کو لبیک کہا اس طرح آپ کی عمر شریف 68/ سال کی ہوئی- آپ کے غسل شریف میں علمائے عظام اور سادات کرام وحفاظ کرام شریک تھے- جناب سید اطہر علی صاحب نے لحد تیار کی- حضرتِ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمتہ والرضوان مصنف بہار شریعت نے حسبِ وصیت آپ کو غسل دیا- جناب حافظ امیر حسن صاحب مرادآبادی نے مدد دی- حضرتِ علامہ سید سلیمان اشرف بہاری سابق صدر دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے و سید محمود جان اور سید ممتاز علی صاحب نے پانی ڈالا- سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے علاوہ دیگر خدمات غسل کے وصیت نامہ کی دعا بھی لوگوں کو یاد کرائی- حضرت حجتہ الاسلام علامہ حامد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے مواضع سجود پر کافور لگایا- صدر الافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ نے کفن شریف بچھایا اور نماز جنازہ حضرت حجتہ الاسلام علامہ حامد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے پڑھائی:


                 ابر رحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے
                 حشر  تک شان    کریمی ناز  برداری کرے

    بارگاہِ رسالت مآب میں آپ کی مقبولیت:
     ملک شام کے ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ بہت ہی عالیشان تخت پر حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم جلوہ افروز ہیں اور پورے اجتماع پر سکوت طاری ہے- محسوس ہو رہا ہے کہ کسی کے آنے کا انتظار کیا جارہا ہے- ان بزرگ نے سکوت توڑتے ہوئے عرض کیا یارسول الله صلی الله علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان کس کا انتظار کیا جارہاہے؟حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: احمد رضا ہندی کا انتظار ہے- سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کون احمد رضا؟ ارشاد فرمایا ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں پھر وہ شامی بزرگ بیدار ہوگیے اور امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی رضی الله عنہ کی غائبانہ محبت دل مں گھر کر گئی اور اس خوش نصیب کی زیارت کا شوق دل میں موجیں ماررہا تھا کی یقیناً احمد رضا ہندی کسی زبردست عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم کا نام ہے اس کی زیارت کرکے کچھ سیکھنا چاہیے- چناچہ وہ شامی بزرگ ملک شام سے بریلی شریف کی طرف روانہ ہوگیے اور بریلی پہنچ کر لوگوں سے اعلیٰ حضرت کی قیام گاہ کا پتہ معلوم کیا تو لوگوں نے بتایا کہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا 25/ صفر المظفر کو انتقال ہوگیا- شامی بزرگ نے انتقال کا وقت دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ ہندوستان کے وقت کے مطابق وصال کا وقت دوپہر کے دو بجکر اڑتیس منٹ تھا یہ سن کر وہ بزرگ آب دیدہ ہوگئے- کیونکہ جب انہوں نے خواب میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا دیدار کیا تھا اور سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم نے بھرے دربار میں فرمایا تھا ہمیں احمد رضا ہندی کا انتظار ہے وہ دن 25/ صفر المظفر ہی کا دن تھا اور وقت بھی تقریباً وہی تھا اس وقت تعبیر سمجھ نہ سکی اور اب سمجھ میں آچکی تھی- 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter