مسجد آیا صوفیہ کی بحالی معاہدہ لوزان کے اختتام کی ایک جھلک

اپنی قابل ستائش خدمات سے پوری امت مسلمہ کے قلوب و اذہان کو  متاثر کرنے والے عظیم قائد و رہنما رجب طیب اردگان ایک بار پھر اپنی سعی جمیل سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دعائیں سمیٹ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ابھی حال ہی میں ترکی صدر رجب طیب اردگان نے مسجد آیا صوفیہ جو کہ 85 سالوں سے ایک عجائب گھر کے نام سے دنیا بھر میں مشہور تھی، اسے پھر سے مسجد بنانے کا اعلان کیا اور الحمد لله 24 جولائی 2020ء  کو اس عالیشان مسجد میں لاکھوں لوگوں نے نماز جمعہ ادا کی، ترکی صدر کے مذکورہ اعلان  سے جہاں ایک طرف دنیا بھر کے مسلمانوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ پڑی ہے تو وہیں دوسری طرف  تمان اسلام مخالف  ممالک  اس کو اپنے لیے باعث شرم سمجھ کر آگ بگولہ ہیں ۔

بتاتا چلوں کہ ترک صدر یکہ بعد دیگرے  ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں جو کہ تمام طاغوتی قوتوں کے گلے کی  ہڈی  بنتا ہوا نظر آرہا ہے اور اس قدر سرعت کے ساتھ آپ کی کارکردگی کو دیکھ کر تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص  بخوبی جانتا ہے  کہ بلاشبہ ترکی 2023ء میں معاہدہ لوزان کے اختتام کے بعد از سر نو سلطنت عثمانیہ کے قیام کی طرف کوشاں ہے  اور مسجد آیا صوفیہ کی بحالی اس کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔

 

مسجد آیا صوفیہ  کی تاریخ  اور معاہدہ لوزان ؟

 

تاریخ کے مطابق اسے چھٹی صدی عیسوی 537 ء میں بازنطینی سامراج میں بنوایا گیا تھا اور آیا صوفیہ اس وقت دنیاے عیسائیت کا سب سے بڑا گرجا گھر تھا، اور قسطنطنیہ (جہاں یہ گرجا گھر ہے،) عیسائیوں کا سب سے بڑا مرکز شمار کیا جاتا تھا ، حتی کہ حضور احمد مجتبٰی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فتح قسطنطنیہ کی بشارت دی تھی جس کے بعد متعدد اسلامی  خلفاء اور سلاطین نے  قسطنطنیہ کو فتح کرکے حضور کی حدیث کا مصداق بننے کی بھرپور کوشش کی، لیکن  قسطنطنیہ کی  فصیلوں کی بلندی اور مضبوطی کے باعث یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، پھر خلافت عباسیہ کے بعد سلطنت عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا اور  اسی خلافت کے ایک نویں عظیم حکمراں ، سلطان محمد ثاني  اپنی بے انتہا تگ و دو اور بے پناہ جدوجہد کے بعد 1453 ء میں قسطنطنیہ فتح کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم وسلم کی حدیث مبارکہ کے مصداق بن گئے ، پھر آپ نے دنیائے عیسائیت کے سب سے بڑے گرجاگھر  کو ایک عظیم الشان مسجد میں منتقل فرما دیا، تقریباً ساڑھے پانچ سو سالوں تک اس مسجد میں بدستور نماز ہوتی رہی ، پھر بیسویں صدی عیسوی  میں سلطنت عثمانیہ کے سیاہ ترین دور کا آغاز ہوا ، تمام اسلام مخالف طاقتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئیں جس کے نتیجے میں 1922ء میں سلطنت عثمانیہ  اپنے اختتام کو پہنچی ۔

1923 میں دشمن اتحادی ممالک نے  ترکی کے ساتھ جبراً 100 سالہ ایک معاہدہ کیا، جسے ہم معاہدہ لوزان کے نام سے جانتے ہیں، اس معاہدے میں سلطنت کو کالعدم قرار دے دیا گیا تاہم ترکی پر بہت ساری پابندیاں بھی عائد کی گئی، تین براعظموں پر پھیلی  سلطنت عثمانیہ کو پاش پاش کر دیا گیا، جس سے 40 نئے ملک معرض وجود میں آئے پھر اتحادی دشمن ممالک نے اپنا ایک چاپلوس نام و نہاد مسلم کمال اتاترک کو ترکی کی  کمان دی، اس نے ترکی کو دنیا بھر میں ایک جمہوری ملک کے نام سے متعارف کروایا اور اس نے یہودیوں اور عیسائیوں کے اشارے پر وہ تمام  افعال مذمومہ انجام دیے جن کے بارے میں ایک ایمان والا تصور بھی نہیں کر سکتا ، حتی کہ 1935  میں کمال اتاترک نے آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت کو ختم کرکے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا ۔

 

تقریبا 85 سالوں سے آیاصوفیہ ایک میوزیم کے نام سے مشہور تھا، دنیا بھر سے لوگ یہاں سیاحت  کی غرض سے آتے اور اس کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتے ، اس طویل عرصے میں متعدد مسلم لیڈران نے ترکی کی کمان سنبھالی لیکن ان کے افکار و خیالات پر مغربی تہذیب کے سیاہ پردے پڑے ہوئے تھے ، مغرب میں واقع ہونے کی وجہ سے ترکی بھی مغربی تہذیب و ثقافت سے بری طرح متاثر تھا ، جس کے نتیجے میں یہاں بے پردگی اور بے حیائی عام ہو چکی تھی اور دوسری جانب معاہدہ لوزان بھی اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے، ایسے نازک ترین وقت میں ترکی کو ایک ایسے عظیم،قائد اور رہنما کی ضرورت تھی جو مغربی تہذیب و ثقافت کو مسلمانوں کے لیے باعث شرم و عار گردانتا اور  اسلامی تہذیب کے نفاذ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتا،تاہم مسلمانوں کی خستہ حالی کے متعلق ہمیشہ متفکر  رہتا، اس کا ہر کام اس پوری امت کے فائدے کے لئے ہو  اور اس کا ہر قدم دوبارہ سلطنت عثمانیہ کے قیام کے لیے ہو ۔

ایسا ہی ہوا ،ابتدا میں تو بہت سے روشن خیال لیڈر قائد کی حیثیت سے ترکی میں آئے اور وزیراعظم اور صدر بن کر اپنا وقت پورا کر کے چلتے بنے ، لیکن معاہدہ لوزان کے اختتام پر ترکی کا قائد رجب طیب اردگان کی شکل میں دنیا کے سامنے آنا، یہ اللہ رب العزت کی  قدرت کے کسی کرشمے سے کم نہیں۔

اللہ عزوجل ترکی صدر کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور پوری دنیا میں امن و امان قائم کرنے اور دوبارہ خلافت قائم کرنے کے ان کے مبارک منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے، اور مسجد آیا صوفیہ کی بحالی کو ہمارے لیے مبارک بنائے۔

 

احمد حسن  امجدی

متعلم جامعة البركات علی گڑھ

مسکن لکھن پورواں، رودھولی بازار ضلع بستی، یو پی الہند

8840061391

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter