مزارات اولیاء اور ولایتِ کیرلا
اللہ جل مجدہ نے اپنے پسندیدہ مذہب اسلام کی نشر واشاعت کے لئے جماعت انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کو بھیجتا رہا مگر جب تاجدارِ ختم نبوت کی جلوہ گری ہوئی تو آپ ﷺ نے 'لا نبي بعدى' كا اعلان عام فرما کے سلسلہ نبوت کو منقطع فرما دیا۔
بعد ازیں رب لم یزل بندوں کی ہدایت کے لئے گروہ اولیاء سے روے زمین کو شاد و آباد کر دیتا ہے۔ خدا کے مقربین بندے اپنی ظاہری حیات میں خداداد طاقت وقوت کی بنیاد پر مخلوق خدا کو راہ راست پر گامزن کرتے رہتے ہیں۔ بعد وفات زمین کے جس بھی حصے کو اپنا آرام گاہ کے لئے منتخب فرما لیتے ہیں تو وہ خطہ بقعۂ نور ہو جاتا ہے۔ مثلاً! ممبئی میں مزارِ 'حاجی علی' سمندر میں ہونے کے باوجود صبح وشام زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ حاجی ملنگ کا مزارِ مقدس ایسے جبل شامخ پر ہے کہ وہاں کی رسائی میں صحت وتوانا شخص بھی نڈھال ہو جائے۔ کوئی مضبوط جگر و گردہ والا شخص بھی اس پہاڑ کے بالائی حصے سے سطحِ زمین کی طرف جھانک لے تو اس کا وجود تھرّا جائے۔ پھر بھی محبین و معتقدین وہاں پر امنڈتے ہوئے سیلاب کی طرح پہونچتے ہیں۔ یوں ہی ہندوستان میں سیکڑوں مزارات ہیں کہ ان کے مدفن سے پہلے وہ جگہ ویران اور غیر معروف تھی مگر جب انھوں نے غیر آباد خطہ کو اپنا مسکن وٹھکانا بنا لیا تو وہی خطہ مرجع خلائق اور اکناف عالم میں مشہور ومعروف ہو جاتا ہے۔
جس کی پاداش میں خلقِ خدا جوق در جوق ہزارہاں ہزار کی تعداد میں مزارات اولیاء کا رخ کرنے لگتی ہے نیز محبین و معتقدین اپنے محبوبوں اور معتقَدوں کی بارگاہ میں پہنچ کر مع نذر ونیاز کچھ نہ کچھ سکہ رائج الوقت ضرور پیش کرتے ہیں۔ نتیجتاً مزار پر ہونے والی آمدنی وقت کی مایاناز کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ یہاں تک کہ آمدنی کی بہتات اس حد تک ہوتی ہے کہ اس سے اعلی پیمانے پر جامعات اور یونیورسٹیز وغیرہ قائم کرکے چلائی جا سکتی ہیں۔ انھیں مزارات کی بنیاد پر پوری مسلم امہ کو تعلیم یافتہ بنا کر راہ راست پر لایا جا سکتا ہے۔ غربت و افلاس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے۔ یتیموں، مسکینوں کو احساس یتیمی ومسکینی سے بچایا جا سکتا ہے۔ بلکہ منتظمین مزارات ہوش کے ناخن لیں اور رقوم صحیح مصرف میں صرف کریں تو ترقی کی راہیں آسان تر آسان ہو جائیں گی اور کوئی سنی غربت و افلاس کی زنجیر میں جکڑا ہوا نہیں ہوگا۔
اے قاری! ہو سکتا ہے مذکورہ بالا مشمولات سے آپ کے ذہن میں کوئی اشکال اور اعتراض پیدا ہو کہ " کہنا آسان ہے مگر کرنا مشکل ہے۔" اور " دور بیٹھ کے مشورہ دینا سب کو آتا ہے" خود کرنا ہو تو نانی یاد آجائیں گی" وغیرہ وغیرہ۔
مگر میں بطور نمونہ ہندوستان کی چھوٹی سی ریاست 'کیرالا' پیش کرنا چاہوں گا جو اس مجال میں تقلیدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ جہاں کے مزارات پر اختلاط مرد وزن ہے نہ ہی سجدہ ریزی کا ماحول اور نہ ہی غیر ضروری طور پر چوما چاٹی اور نا ہی مجاورں کی طرف سے زائرین کو چھیڑا جاتاہے حتی کہ تمام تر امور کو شرع کی روشنی میں بروے کار لایا جاتا ہے۔ کیرلا میں مزارات کی رقوم سے حافظ، قاری، عالم، ادیب، کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بنا کر قوم کے حوالے پیش کیا جاتا ہے۔ یتیموں ، مسکینوں کی پرورش کا بھی بندو بست کیا جاتا ہے۔
علی سبیل المثال فقیر بر وقت جس یونیورسٹی (دار الہدی اسلامک یونیورسٹی 'کیرالا') میں خدمات انجام دہی کا شرف حاصل کر رہا ہے اس میں اندرون اور بیرونِ ریاست کے ١٦٠٠ سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں جنہیں روزآنہ پانچ مرتبہ کھانہ، نیز بجلی، پانی، رہائش اور کتاب وکاپی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ سو سے زائد افراد پر مشتمل اساتذہ کا معقول مشاہرہ دینا بھی جامعہ ہذا کے کندھوں پر ہے۔ اس جامعہ کے تقریباً ٣٢ شاخیں ہیں جس میں آٹھ آف کیمپس ہیں ان کے اخراجات کی بھی ذمہ داری جامعہ کے ہاتھوں میں ہے۔
جامعہ تمام تر اخراجات اور ضروریات کو بحسن و خوبی انجام دے رہا ہے۔ ایسا ہو کیوں نا؟! جبکہ جامعہ کو عوام کے تعاون کے ساتھ 'قطب الزماں سید علوی بن محمد بن سهل مولى الدويله الحضرمي اليمني قدس الله سرہ' کے مزار پُر انوار سے محصول شدہ رقوم کا مکمل تعاون حاصل ہے۔
ایسے ہی کیرلا کے تقریباً تمام مقبروں سے اس کی آمدنی کے مطابق دینی وملی کام سرانجام دیا جا رہا ہے۔
فقیر بڑے ہی وثوق کے ساتھ آپ کی بارگاہ میں یہ مقدمہ پیش کرتا ہے کہ آپ ایک مرتبہ کیرلا کے مزارات اور تعلیمی آماجگاہوں کا دورہ فرمائیں، ان شاءاللہ عزوجل میری ناقص تحریر سے زیادہ خصائص ومحاسن پائیں گے مزید برآں مطمئن ومتأثر ہو کر واپسی کے لیے رخت سفر باندھیں گے۔ إن شاء الله عز وجل۔