بیٹیوں کو اسلام میں رحمت کہا گیا ہے.
بیٹیاں گھر کی زینت ہوتی ہیں ۔ بیٹے نعمت ہیں تو بیٹیاں رحمت، الفت، ایثار، اور محبت ہیں ۔نعمت کا حساب لیا جائے گا رحمت کا نہیں ۔بیٹیوں سے گھر کی رونق دوبالا ہوجاتی ہے ۔بیٹیاں باپ کا غرور ہوتی ہیں ۔بھائی کا فخر ہوتی ہیں ۔ بیٹیوں کو گھر لکشمی کہا جاتا ہے ۔ ان کے وجود سے گھر آباد رہتاہے ۔ بیٹیاں نہ ہوں تو گھر ویران سا رہتا ہے ۔ بیٹیاں بڑی ہونے کے بعد ماں کے کام کاج میں مدد کرتی ہیں ۔ بھائی کا سہارا بنتی ہیں ۔ والد کی خدمت کرتی ہیں ۔ شادی ہونے کے بعد اپنے شوہر اور سسرالی رشتے بڑی خوش اسلوبی سے نبھاتی ہیں ۔ ماں بنتی ہیں تو اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں خود کو فراموش کر دیتی ہیں ۔ بڑی عظمت والی ہوتی ہیں بیٹیاں ۔
اسلام کی آمد سے قبل لفظ عورت کو سماج میں گالی سمجھا جاتا تھا ۔ بیٹی کی ولادت کو عار محسوس کیا جاتا ۔ عرب کے بعض قبائل میں نومولود بچیوں کو زندہ درگور کرنے جیسی سفاک ترین عادت پائی جاتی تھی ۔انہیں تعلیم سے روکا جاتا،مخصوص دنوں میں سب سے الگ کر دیا جاتا ۔ شوہر کا انتقال ہو جائے تو بیوی کو ذمہ دار سمجھا جاتا ۔اسے منحوس کہا جاتا ۔"اپنے شوہر کو کھا گئی " جیسے طعنے دیے جاتے۔بیوہ کو دوسرے شادی کی اجازت نہیں تھی ۔ مرد چاہے جتنی شادیاں کرے ۔ انہیں میراث سے محروم کیا جاتا ۔اسلام نے ان تمام فرسودہ روایات کا خاتمہ کیا ۔عورتوں کو قعر ذلت سے اٹھا کر اوج ثریا پر پہنچایا ۔ قرآن پاک میں ان کے نام کی ایک مکمل سورت نازل کی گئی۔ انہیں آبگینہ کہا گیا ہے ۔ بیٹیوں کو رحمت کہا گیا۔ ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ۔ ان کے حقوق بتائے، انہیں باپ کی ملکیت میں حصہ دار بنایا، بیوہ کو نکاح ثانی کی اجازت دی، تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا۔ انہیں معاشرہ کا ایک اہم رکن قرار دیا ۔اسلام نے ان کے مقام کو بلند وبالا کیا ۔صنفی امتیاز کو ختم کیا ۔ مرد و زن کو برابر قرار دیا ۔"صنف کی بنا پر کوئی کسی سے برتر نہیں " کا درس دیا ۔"لڑکا لڑکی ایک سمان" کا پیغام عام کیا ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم و تربیت دی ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ( بعد میں بھی) حسن سلوک کیا تو اس کے لئے جنت ہے ۔"
ایک اور روایت میں ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو جاتے اور ان کے لئے اپنی چادر مبارک بچھا دیتے ۔ مزید ایک روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے مدینہ شریف لوٹتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر قدم رنجہ فرماتے ۔
اسلام نے بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے مقام کو بلند کیا ہے ۔قرآن و حدیث میں جابجا ان کے ساتھ نیک برتاؤ کی تعلیم و تلقین کی گئی ہے ۔ افسوس صد افسوس کہ معاشرے میں آج بھی خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے ۔ انہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔ ان کی پیدائش پر خوشی نہیں ہوتی ۔دور جہالت میں لڑکی پیدا ہونے کے بعد دفن کیا جاتا تھا ۔اب جنس معلوم ہونے پر رحم مادر ہی میں انہیں مار دیا جاتا ہے ۔اتنی ترقی ہونے کے باوجود لڑکیوں کو چولھا چکی تک محدود کیا جاتا ہے ۔کئی ایسے علاقے ہیں جہاں صنفی امتیاز برتا جاتا ہے ۔اپنے گرد و نواح میں نظر دوڑائیں تو بے شمار ایسے گھر ملیں گے جہاں بیٹے بیٹیوں میں فرق کیا جاتا ہے ۔ لڑکوں کو شتر بے مہار کی مانند چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ لڑکیوں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے ۔بیٹے دن بھر آوارہ گردی کریں کوئی بات نہیں، ساری رات دوستوں کے ہمراہ دھینگا مشتی کریں کوئی روک ٹوک نہیں ۔"لڑکے ہیں " بول کر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔لڑکیوں کو اسکول اور کالج سے گھر آنے میں تاخیر ہوجائے تو ان سے کئی طرح کے سوالات پوچھے جاتے ہیں ۔ انہیں جلد آنے کی تاکید کی جاتی ہے ۔لڑکوں کو ہر طرح کی آزادی دی جاتی ہے ۔ کیا پابندی صرف لڑکیوں اور عورتوں کے لئے ہے؟ کیا خاندان کا نام صرف لڑکیوں سے خراب ہوتا ہے؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ لڑکیوں پر نظر رکھی جائے، انہیں بری بھلی باتوں پر روکا ٹوکا جائے، انہیں امور خانہ داری کے گر سکھائے جائیں لیکن انہیں کبھی یہ احساس نہ ہونے پائے کہ بیٹے اور بیٹی میں تمیز کی جارہی ہے۔ دونوں کی تربیت یکساں نہج پر ہو ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر جگہ عورتیں بے قصور ہوتی ہیں ۔ ان سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں ۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیوہ اور اپنی عمر سے بڑی عورت کے ساتھ نکاح کر کے امت مسلمہ کو یہ عملی نمونہ دیا کہ بیوہ خاتون سے شادی کرنے میں کوئی عیب کی بات نہیں ہے ۔طلاق یافتہ یا بیوہ عورتوں سے نکاح کو معیوب سمجھنا کج فہمی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہے ۔" انہیں چہرے پر مارنے سے منع کیا ۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق فرمائے آمین ۔