مغربی تہذیب مسلمانوں کے لیے ایک زہر ہلاہل

آج سے سالوں پہلے جب بڑے بڑے گرجا گھروں میں بیٹھ کر پوری دنیا سے اسلام اور مسلمانوں کے خاتمے کی باتیں کی جارہی تھیں۔ ہر طرح کے ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے کے بارے میں غور وفکر کیا جا رہا تھا۔ تو سب سے پہلے اسلام دشمن عناصر نے ہمیں بنیادی طور پر کمزور کرنے کا حلف اٹھایا۔ انہوں نے سب سے پہلے ہماری اسلامی تہذیب و ثقافت اور  اسلامی کلچر کو ہمارے دلوں سے نکال پھینکنے کے لیے  ہمارے مابین عریانیت کو عام کرنے کا عزم کیا ۔مغربی تہذیب کو ہماری پاکیزہ تہذیب پر مسلط کرنے کےلیے بہت سی چالیں چلیں ۔بہت سے جال بنے۔ کیونکہ یہ بات ان کے علم میں بھی تھی کہ ہم مسلمانوں کے قلوب و اذہان کو  یکبارگی  نہیں بدل سکتے ۔ انہیں نماز سے یکبارگی  نہیں روکا جا سکتا ۔یکایک ان کے دلوں کو نبی کی محبت سے دور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لہذا انہوں نے بڑی سنجیدگی سے مسلمانوں میں  بے حیائی اور عریانیت کو فروغ دینے کے لیے ٹی وی کا سہارا لیا اور رفتہ رفتہ اپنے گھٹیا منصوبوں پر کامیابی کی مہر لگانے لگے ۔ ٹی وی کی چلن میں اضافہ ہونے لگا۔ بہت سے مسلم حضرات بھی بڑے شوق سے اپنے گھروں کو ٹی وی سے آراستہ کرنے لگے۔

افسوس کہ کل تک جن کے گھروں سے تلاوت کلام اللہ اور نعت رسول کے نغمات کانوں میں رس گھولتے تھے اس گھر سے اب چھوٹے کپڑوں میں ناچنے گانے والے کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔یقینا ان گانوں اور فلموں کو دیکھ کر تباہی تو آنی  تھی۔ ہمیں برباد تو ہونا ہی تھا۔ پردے کا تقدس پامال  ہونا ہی تھا ۔ کیونکہ اسلام میں عورتوں کے لیے پردہ ایک عظیم نعمت ہے۔پردہ ہماری ماؤں اور بہنوں کا تقدس ہے۔لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اور یقینا یہ کہتے وقت ہمارا کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ہماری آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں کہ بدقسمتی سے اہل مغرب اپنی تمام تر  حیلہ بازیوں اور ریشہ دوانیوں  میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے گھٹیا خواب رفتہ رفتہ شرمندہ تعبیر کی طرف گامزن ہیں۔ اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ہماری خواتین ماڈرن فیشن  کے نام پر سڑکوں اور بازاروں میں بے پردہ گھومتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ ہمارے گھروں کی بیٹیاں غیر محرم کے ساتھ بالمشافہ ہم کلام ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اسلامی تہذیب تو یہ تھی ایک جوان خاتون کے سیاہ بالوں کو بھی کوئی غیر مرد کبھی نہیں دیکھ پاتا تھا۔ ایک جوان بیٹی اپنے باپ کے سامنے آنے میں بھی ہچکچاہٹ   محسوس کرتی تھی لیکن آج  اغیار سے باتیں کرنے کو ترقی کا دور کہا جا رہا ہے۔بد قسمتی سے ہمارا اسلامی کلچر ویسٹرن کلچر کے سامنے گھٹنے ٹیکتا ہوا  نظر آ رہا ہے۔  ہمارا حریف ہم پر غالب اور ہم اس کے سامنے مغلوب ہوتے جا رہے ہیں  ۔ بے شرمی اور بے حیائی عام ہوتی جا رہی ہے ۔ ہمارے نونہال بچوں کی زبانوں سے کلمہ طیبہ کے بجائے گانوں کی صدائیں آرہی ہیں۔ ہمارے نوجوان لڑکے آوارہ پن میں ضرب المثل بنتے جا رہے ہیں۔ ہمارے دل میں خوف خدا ہے اور نہ ہی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ گردش زمانہ کے ساتھ ہم بدلتے جا رہے ہیں۔ نہ تو ہمارے کپڑوں سے ہماری شناخت ہو پا رہی ہے اور نہ ہی ہمارے چہروں پر داڑھی جیسی عظیم سنت  ہے ۔ مغربی تہذیب  ہمارے اندر گھر کر چکی ہے اور ہم اسلام سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں۔ ان حالات کے تناظر میں   شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر اقبال کا وہ شعر مغربی تہذیب کی کی بیخ کنی  کرتا ہوا امت محمدیہ کو  اس کی حقیقت سے روشناس کرانے میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ہمیں اہل مغرب کو دیکھ کر نہیں چلنا ہے ۔ہماری تہذیب تو اپنی مثال آپ ہے ۔ دنیا میں اس وقت جتنی بھی ثقافتیں ہیں، جتنی تہذیبیں ہیں،  وہ ان کی خود ساختہ ہیں۔ان  میں قدم قدم پر عیاشی اور عیاری کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔  ان میں فحاشیت اور عریانیت کو ہوا دی گئی ہے ۔ عدل و انصاف اور محبت و رواداری کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ لیکن الحمدللہ ہماری تہذیب و ثقافت کا دارومدار قرآن پر ہے جو کہ پوری نوع بنی آدم کے لیے ضابطہ حیات ہے۔ اس میں انسان کی زندگی کے ہر ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہر گوشہ گوشہ کو اجاگر کیا گیا ہے۔قدم قدم پر ہماری  رہنمائی کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔

لیکن بڑا افسوس ہوتا  ہے ان لوگوں پر جو جانے انجانے مغربی تہذیب و تمدن کے اس قدر اسیر اور دلدادہ  ہو چکے ہیں کہ وہ اس فحاشیت اور عریانیت کو ترقی یافتہ دور اور دور جدید کے نام سے موسوم  کرکے اس بے حیائی پر سیاہ چادر اوڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور پردے کو قدیم رسم و رواج سے تعبیر کرتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے غور کرنا چاہیے یہ مغربی تہذیب جسے وہ اپنے لیے نعمت اور سکون  سمجھنے میں سرگرداں ہیں یہ ان کے لیے اور پوری امت کے لئے ایک  زہر ہلاہل ہے ۔

اللہ کفار و مشرکین کے حربوں سے ہماری حفاظت فرمائے اور اسلامی تہذیب و تمدن کو ہمارے دلوں میں تادمِ حیات باقی رکھے۔

محمد احمد حسن  امجدی۔

اسلامک اسکالر، جامعة البركات علي گڑھ،

مسکن، لکھن پوروا، رودھولی بازار ضلع بستی ، ہوپی، الہند

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter