ماحولیاتی تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے
یہ سائنسی ترقیاتی دور ہونے کے ساتھ ساتھ صنعتی فروغ وارتقاء کا عہد رزیں ہے۔ جہاں دنیا کی دوری سمٹ کر انسان کی ہتھیلی میں آگئی وہیں انسانی زندگی آلودگی کی بحر بے کراں میں ہچکولے کھاتی نظر آرہی ہے۔نت نئے سائنسی ایجادات اور ٹکنالوجی کی ترقی نے انسان کو کافی ساری سہولیات اور آرائشیں فراہم کی ہیں۔ وہیں انسانی زندگی کے لیے کافی ساری لا ینحل مسائل کھڑا کردئیے ہیں۔ یہی ترقی کہیں نہ کہیں آلودگیاں پیدا کررہی ہیں۔ اگر آلودگیوں کی بات کریں تو دنیا میں اتنی آلودگیاں ان سائنسی ایجادات کی وجہ سے جنم لے چکی ہیں کہ گنتی وشمار سے باہر ہیں۔ اگر یقین نہیں ہوتا تو تھوڑا ہمہ تن گوش ہوکر سماعت کیجئے۔ اور سر پیٹ کر آنسو بہاتے رہئے۔ عموماً محققین علم ماحولیات آلودگیوں کو دو اہم حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
.مادی ماحولیاتی آلودگی ٢.معنوی ماحولیاتی آلودگی۔
اب ذرا مادی آلودگی کی چند اہم قسموں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اور یہاں صرف ہم ان آلودگیوں کا نام پر اکتفاء کریں گے کیونکہ اگر ان تمام آلودگیوں پر بحث کریں گے تو ایک طویل وضخیم تحقیقی مضمون تیار ہو جائے گا۔ جو آپ کے لیے اکتاہٹ کا سبب بھی بن جائے گا یہ بھی انہیں سائنسی ایجادات کی سلبی تاثیر ہے۔ کیونکہ عصر حاضر میں انسان اپنے آپ کو بڑا ہی مشغول سمجھتا ہے۔ اس کو علم وتحقیق کی اہمیت نہیں معلوم۔ انسان عہد حاضر میں ہر چیز اجمالی طور پر حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
چلئے بر سر مطلب آمدم ہم آلودگیوں کا ذکر کررہے تھے۔ تو سنئے۔ بری آلودگی، (soil pollution) ۔ حیاتیاتی آلودگی (Biological pollution) ، فضائی آلودگی (Air pollution) نیوکلیاتی آلودگی (Nuclear pollution), ریڈیائی آلودگی (Radioactive pollution)، برقی آلودگی (Electronic pollution) , پلاسٹکی آلودگی (plastic pollution) ، صوتی آلودگی (sound pollution) صنعتی آلودگی (Industrial pollution) اب ذرا معنوی آلودگیوں کے پہلوؤں کو بھی برداشت کرلیجئے۔ جنسی آلودگی (sexual pollution) ،لسانی آلودگی (lingual pollution) ،فکری آلودگی (theoretical pollution) اخلاقی آلودگی (moral pollution) , سیاسی آلودگی ( political pollution) , تعلیمی آلودگی (educational pollution) مسلکی آلودگی (sectarian pollution )
آخر الذکر آلودگی اس امت مسلمہ کی شامت ہے۔ جس پیغمبر نے بکھرے امت کے شیرازے کو یکجا کرنے تشریف لائے اور امت کو اپنی محبت کے محور میں متحد کیا آج وہی امت مسلک کے نام پر فرقہ بندی کے آلودگی میں مبتلا ہے۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں
چلئے ہم آلودگی کے تحفظ کی بات کرتے ہیں۔ دنیا ان آلودگیوں کی وجہ سے ہلاکت کی دہلیز پر ہے۔ انسانی زندگی پر پر مضرات اثر مرتب کررہی ہیں۔ نہ آسمانی فضاء میں اڑنے والے پرندے محفوظ ہیں۔ نہ کرۂ ارض پر زندگی گزارنے والے مخلوق مامون ہیں۔ یہاں تک کے سمندر کے تہہ میں زندگی گزارنے والے مچھلیاں بھی ان سے بچ نہیں پائے۔
اس وقت ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ دن بدن سنگین ہوتے جارہا ہے،انسانی زندگی کے بہت سارے شعبے اس آلودگی کی وجہ سے خسارے کے دہانے پر ہیں۔ انسان کو اس عالمی آلودگی کی فکر ذرا برابر نہیں ہے۔ نہ ملک کے انتظامیہ کو، نہ عدلیہ نظام کو نہ مرکزی حکومت کو عالمی حدت کی بھی فکر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگوں بیماریوں اور اسپتال میں دیکھ رہے ہیں۔ہمارے یہاں آبی وسائل سے لیکر قدرتی وسائل اور جنگلاتی وسائل پر خطرے کی گھنٹی گلی ہوئی ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہوگا کہ اس عالمی حدت سے نپٹنے کا کیا طریقہ ہے تو کان کھول کر سنئے اس عالمی حدت یعنی global warming سے بچنے کا ایک اسلامی تعلیمات کا نفاذ ہے۔ اگر قدرتی وسائل اور دیگر تمام وسائل کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان سلسلے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ان آلودگیوں سے عالم کو بچائیں۔ بطور مثال آپ کے سامنے ہم قدرتی وسائل کی حفاظت کے بارے اسلامی تعلیمات پیش کرتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق اعتدال وتوزان سے ہٹنے یا ہٹانے کو فساد کہا جاتا ہے۔ اسی فساد کا نتیجہ آلودگی ہے۔ جب قدرتی وسائل کو ختم کر دینگے تو پھر آلودگیاں جنم لیتی ہیں۔اب ذرا قرآن کی تعلیم بھی سنئے رب قدیر فرماتا ہے کہ جب پیٹھ پھیر کر جاتا ہے تو ملک میں فساد ڈالتا اور کھیتی اور مویشی کو برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔(سورۃ البقرہ :205)
آیت کریمہ میں کھیتی اور مویشی کو بگاڑنے کی بات کی جارہی ہے اور بگاڑنے والے کو فسادی قرار دیا جارہا ہے، دیکھا آپ نے دنیا میں قتل وغارت گری کرنے ہی کو فساد نہیں کہتے بلکہ زراعت وکھیتی اور ایسے ہی جانور ومویشیوں کو تکلیف پہچانے کو بھی فساد سے تعبیر کیا جارہا ہے، اور رب ان فسادات کو پسند بھی نہیں کرتا۔ کیا خوب تعلیم ہے۔ مزید ایک حدیث بھی سن لیجئے آقائے دوجہاں محسن انسانیت ﷺ قدرتی و جنگلاتی وسائل کی حفاظت کے خاطر شجر کاری کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ جومسلمان بھی پودا لگائے گا، اور اس سے کچھ کھالیاجائے گا، وہ اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا اور جو چوری کرلیاجائے، وہ قیامت تک کے لئے اس کے لئے صدقہ ہوجائے گا۔(صحیح مسلم ) مزید فرماتے ہیں کہ جو مسلمان پودا لگائے گا یا کھیتی کرے گا اور اس سے کوئی پرندہ، انسان یا چوپایہ کھالے گا، وہ اس کے لئے صدقہ بن جائے گا۔(بخاری شریف )
مذکورہ بالا اسلامی تعلیمات پر اگر انسان عمل پیرا ہوتو ماحولیات کے تحفظ اور آلودگی کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے ماحولیات کے تحفظ اور اسے آلودگی سے بچانے کی طرف اس وقت توجہ دلائی، جب کہ انسان کو ماحولیات کی اہمیت کا صحیح اندازہ بھی نہ تھا۔آج ان تعلیمات کو فراموش کردیا گیا اسی کا نتیجہ کہئے کہ دنیا اس گلوبلائزیشن کے دور میں آلودگی کی وجہ سے بربادی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پھر سے اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور دنیا کو عالمی حدت اور اس جان لیوا آلودگیوں سے بچایا جا ئیں۔ رب قدیر سے دعا ہے کہ ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ قدرت کے وسائل میں بگاڑ پیدا کرنے والے کاموں سے اجتناب کریں گے۔ زمین کی کیمیائی، اور قدرتی طاقت کو نقصان پہنچانے سے پرہیز کریں گے۔ رب قدیر سے دعا ہے کہ ہمیں ماحولیاتی تحفظ کا شعور وآگہی عطا فرمائے اور آلودگیوں سے مکت فضا عطا فرمائے آمین۔