منگنی کے بعد منگیتر سے بات چیت کا کیا حکم ہے : کیا منگیتر محرم ہو جاتی ہے؟ ہرگز نہیں

آج کل معاشرے میں پھیلی ہوئی قباحتوں میں میں ایک نئی رسم یہ چل پڑی ہے کہ منگنی سگائی کے بعد لڑکا لڑکی آپس میں بات چیت، ہنسی مذاق اور دل لگی کرنے لگتے ہیں، موبائل فون اور اس میں فوٹو کی جدید سہولت نے تو اور ستم ڈھا دیا ہے، غلطی سے لڑکا اور لڑکی یہ سمجھ بیٹھے ہیں نسبت طے ہوگئی ہے تو اب ہم آپس میں بات چیت کرنے میں آزاد ہیں، یہ آزادی شریعت نے نہیں دی ہے عریانیت، فحاشی اور رنگین ٹی وی، ویڈیو کی دین ہے، رنگین موبائل فون نے اس میں اور رنگ بھر دیا ہے، جب کی یہ شریعت کا مسلمہ مسئلہ ہے کہ جب تک نکاح نہیں ہوجاتا لڑکا لڑکے دونوں اجنبی کے حکم میں ہیں، ساری چھوٹ شادی اور نکاح کے بعد ہی ملے گی، پہلے زمانے میں بلکہ ماضی قریب میں تو نکاح کے بعد بھی علی العموم(سب کے سامنے) کھلم کھلا مردوعورت یعنی میاں بیوی بات نہیں کرتے تھے، ملنے بات کرنے کا سلسلہ صرف رات ہی کو ہوتا تھا یہ محض شرم و حیا کی بڑھی ہوئی حس کی وجہ سے ہے شریعت نے اس سلسلے میں کوئی پابندی عائد نہیں کی تھی اور یہ حدیث سے ثابت ہے کہ حیا میں اگر مبالغہ کرتا ہے تو اچھی بات ہے البتہ اس قسم کی حیا اور شرم کی روش شرعاً لازم و ضروری نہیں ہوتی ہے، 

 حدیث گزری کہ"حیا میں بھلائی ہی بھلائی ہے" لیکن نئی دنیا میں تو اب شادی سے پہلے ہی بات چیت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو ناجائز و حرام ہے، حدیث شریف سے اس کی تو اجازت ہے کہ لڑکا (ہونے والا دولہا) لڑکی (ہونے والی دلہن) کو ایک نظر دیکھ سکتا ہے، اقل قلیل بات صرف ایک بار کر سکتا ہے تاکہ شکل و صورت اور زبان کی حد تک لڑکے کو اطمینان ہو جائے، نکاح کے بعد شکل و صورت اور آواز کو لے کر آپس میں کسی قسم کا اختلاف نہ ہو جائے، لیکن ایک بار ہی دیکھنا اور بولنا جائز تھا نکاح سے قبل ہونے والی لڑکی سے مسلسل اور دل چسپی کی بات کرنا بہر حال ناجائزوگناہ ہے،

کبھی یہ گفتگو دونوں تنہائی میں کرتے ہیں اور کبھی گھر والوں خویش و اقارب اور ساتھیوں کے ساتھ بھی، دونوں صورتوں میں یہ فعل ناجائز و حرام ہے کہ دونوں آپس میں اجنبی ہی ہیں، نسبت طے ہو جانے کے بعد محرم ہرگز نہیں ہوگئے، اگر گھر والوں یا احباب کے ساتھ یہ گفتگو ہوتی ہے تو سننے والے بھی گنہ گار ہیں، چاہے دوست احباب ہوں یا گھر کے بڑے بوڑھے سب برابر کے گناہ میں شریک ہیں، گفتگو بھی منع ہے اجنبی عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے، دیکھنا چاہے موبائل سے ہو یا بالمشافہہ (آمنے سامنے) دونوں طرح منع ہے،

اور کبھی دور سے موبائل کے ذریعے جو سلسلہ گفت و شنید چلتا ہے تو وہ پھر براہ راست ملاقاتوں پر منتج ہوتا ہے، تفریح گاہوں میں میلوں ٹھیلوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے بعضوں کے بارے میں یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ عمل زوجیت کی مشق بھی ہونے لگتی ہے کہ ہر طرح سے اطمینان کلی ہو جائے، حدیث میں آیا کہ حدود کے قریب بھی مت جاؤ ورنہ مرتکب حرام ہونے کا خطرہ ہے، زنا،بدکاری اسلام میں بہت مذموم ہیں اس سے بچنے کی سخت وشدید تاکیدیں آئی ہیں، قرآن کا ارشاد ہیں:
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(الإسراء :17/ 32)
ترجمہ : اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ او بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ (کنزالایمان)

تو بدکاری سے منع کیا ہی گیا ہے یہاں اس کے قریب جانے سے بھی روکا گیا ہے، بے پردگی کو حرام اسی لیے قرار دیا گیا ہے عام طور سے بد کاری کا سبب بےپردگی ہوا کرتی ہے، 

غیر محرم اجنبی عورت سے بات کرنا اور اس کے لیے کوئی وجہ شرعی بھی نہیں ہے یقیناً ناجائز و گناہ ہے اور جب منگیتر  آپس میں باتیں کریں گے تو ان کی گفتگو رومانیت سے بھری اور لچک دار ہوگی، ہنسی مذاق تک کی نوبت آئے گی، ملاقاتوں میں کھانے پینے کا داعیہ بھی پیش آئے گا اور اس پر لطف و لذت کا غلبہ یقینی ہے اور تلذُّذْ (لذت اندوزی) کے ساتھ کسی غیرمرد کا جوٹھا بھی کھانا پینا جائز نہیں، تو یہ ملاقاتیں، یہ کھان پان، یا محض لطف انگیز گفتگو بھلا کیسے جائز ہوگی،

غیر محرم سے باتیں کرنا وہ بھی کسی شرعی عذر کے بغیر جائز نہیں کہ عورت کی آواز بھی پردہ ہے اگر ضرورت سے بات کرنا بھی ہو تو قرآن نے فرمایا:
اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا (احزاب33/ 32)
 ترجمہ : اگر اللہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی (لوچ) نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے ہاں اچھی بات کہو۔

حضرت صدرالافاضل علیہ الرحمۃ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں
اس میں تعلیمِ آداب(ادب سکھانا) ہے کہ اگر بضرورت غیر مرد سے پس پردہ گفتگو کرنی پڑے تو قصد کرو کہ لہجے میں نزاکت نہ آنے پائے، اور بات میں لوچ نہ ہو، بات نہایت سادگی سے کی جائے، عفت مآب (پارسا،نیک) خواتین کے لیے یہی (انداز) شایاں ہے، (خزائن العرفان)

ظاہر ہے ہونے والے میاں بیوی جب گفتگو کریں گے تو ان کے اندر لوچ، نرمی اور نزاکت کا آنا لازمی ہے اگر دل میں عزم گناہ نہ ہوا تو تصور گناہ سے بچنا بھی عادۃً محال ہے اور کوئی گناہ نہ بھی تصور و خیال میں جمے تو بھی اجنبی نامحرم سے گفتگو بلاوجہ شرعی ضرور گناہ ہے، اس سے بچنا ضروری ہے


از: مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری
بانی رکن: المجمع الاسلامی، مبارک پور اعظم گڑھ، رابطہ : 9838189592

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter