ایک رمضان ایسا بھی۔۔۔‎آہ!

ہمارے ہاں ماہ رمضان کی آمد کی خوشیاں تو ماہ رجب اور بالخصوص شب معراج کے گزرتے ہی شروع ہوجاتی ہیں جگہ جگہ کانوں میں آوازیں گونجنے لگتی ہیں کہ ماہ رمضان کی آمد ہے، ماہ رمضان آرہا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جب شب برأت آتی ہے تو گویا یہ رات ماہ رمضان کے استقبال کا دروازہ کھول دیتی ہے کیونکہ اب پلک جھپکتے ہی ماہ رمضان کے چاند کو نیلے آسمان پر افق کی سرخ وسیاہ چادر میں دیکھنے کے سب منتظر ہوتے ہیں۔

 رمضان میں عبادات کے اہتمام کی وجہ سے پہلے ہی سے گھروں میں خوردونوش کے سامان آنے لگتے ہیں گھروں کو دھو دھلا کر صاف ستھرا کرلیا جاتا ہے پردوں کو بدل دیا جاتا ہے زیب وزینت سے دیوان خانوں کو آراستہ کرلیا جاتا ہے کھجور وخوشبو کا بھی اہتمام کرلیا جاتا ہے مساجد کو بھی رنگ وروغن سے زینت دی جاتی ہے فرشوں کو غسل دے کر صفوں میں صاف ستھری اور سفید نئ چادریں بچھادی جاتی ہیں جو کہ نہ صرف نگاہوں کو خوش کرتی ہیں بلکہ سر بسجود ہونے والے دلوں کو بھی پاک وصاف کردیتی ہیں اب صرف مساجد سے سائرن کا انتظار ہوتا ہے کہ ادھر سائرن ہوا اور ادھر ساری دنیا میں اک روحانی اور وجدانی ہنگامہ برپا ہوگیا اور اب ہر کوئی اس فکر میں ہے کہ تراویح کونسی مسجد میں پڑھی جاۓ کتنے پارے پڑھے جائیں کون کون سی مسجدوں میں نماز عشاء کب کب ہے اور تراویح کا وقت کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ 

شعبان کی ٢٩ تاریخ تھی اور ہم اپنے مکان کی چھت پر نماز عصر پڑھ کر رب کائنات کی خوبصورت دنیا کا جائزہ لے رہے تھے آسمان کے کنارے پر دن بھر کا تھکا سورج اپنی آنکھیں موندنے کو تیار تھا یہ منظر ہمارے لئے انتہائی روح افزا تھا ویسے بھی قدرتی نظاروں کے متوالوں کے لئے ہر صبح وشام طلوع وغروب کے مناظر دعوت نظارہ اور دعوت عبادت دیتے ہیں لیکن آج سورج کے چہرے پر تھکن کے باوجود خوشی کے آثار تھے اور اس کو فخر تھا کہ آج میرے جانے کے بعد بطن افق سے اک نئ شام طلوع ہوگی جسے لوگ رمضان مبارک کی پہلی رات کے طور پر استقبال کریں گے دیکھتے ہی دیکھتے مغرب ہوگئ اور ہم نے چھت ہی پر نماز باجماعت ادا کرلی اور ہماری نگاہیں بے قراری کے ساتھ افق پر جم گئیں کہ چاند ماموں کدھر سے نظر آئیں گے۔

ساری کائنات میں اتنی جستجو اور خوشیاں شاید ہی منائی جاتی ہوں جتنی کہ رمضان کے چاند کو دیکھنے کی خوشی وجستجو ہوتی ہے، چاند کے منتظر بچے، کہنے لگے، بابا وہ دیکھئیے جاند نظر آگیا لیکن نہیں وہ تو صرف سفید دھاری تھی جو غروب شمس کے نتیجے میں افق پر پیدا ہوئی تھی۔ ہم پھر ادھر ادھر دیکھنے لگے اور سرمئ چادر پر پھیلے سفید دھبوں کے درمیان چاند کو تلاش کرنے لگے دفعتاً ہماری رفیق سفر نے ہلکی سی اک چیخ ماری اور آکر مضبوطی سے ہمارے بازو پکڑلئے اور کہنے لگیں چاند دکھ گیا چاند دکھ گیا، بہت بہت مبارک ہو! ہم نے کہا مبارک ہو ضرور! مگر جب چاند ہمیں نظر نہیں آیا تو تمہیں کیسے نظر آگیا؟ تب انہوں نے انگلی سے بہت دور آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگیں دیکھئے دیکھئے وہ ہے چاند! جب ہم نے بھی خوب غور سے دیکھا تو چاند ماموں اپنا نورانی اور رمضانی لباس پہنے مسکرارہے تھے۔ بچوں کا بھی شور وغل بلند ہوگیا بابا چاند دکھ گیا چاند دکھ گیا مساجد کے سائرنوں نے بھی اک سماں باندھ دیا بلندی پر تھے تو گلی کوچوں میں معصوم بچوں کے چاند مبارک، رمضان مبارک کے زمزموں نے پوری فضاء کو پرنور اور روح پرور بنا دیا۔ ہزاروں خوشیاں اپنے دامن میں سمیٹے ہم اللہ کا شکر ادا کرنے لگے کہ آج کا مبارک دن دیکھنا نصیب ہوا اور ہم دعا کرنے لگے کہ اے اللہ! اس ماہ مبارک کو ہمارے لئے رحمت، مغفرت، جہنم سے خلاصی اور اپنی رضا کا ذریعہ بنادے اور پورے اہتمام کے ساتھ عبادات کی توفیق عطا فرما اور قبول فرما! آمین!

اپنی دعاؤں سے فارغ ہو کر ہم جب نیچے آۓ تو گویا ہماری زبان گنگ ہوگئ اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے کیونکہ جب کبھی ہم رمضان کا چاند دیکھ کر ان پرنور، بابرکت اور دنیا بھر کی شفقت سمیٹے چہروں کا دیدار کرتے اور سلام کرتے تھے آج وہ چہرے ہمارے سامنے نہیں تھے ان کی وہ جگہیں خالی تھیں آہ! آج نہ ہمارے سر پر ہاتھ رکھنے والے وہ بے غرض ہاتھ تھے اور نہ وہ بے غرض دعائیں تھیں جن کی برکت سے ہماری زندگیاں بہاروں سے بھر بھر جاتی تھیں۔ دل ہی دل میں ہم نے امی جان اور ابا جان کو یاد کرکے اپنے بے وقعت آنسوؤں سے سلامی دی اور ان کے لئے دعاء مغفرت کی۔ کچھ دیر کے لئے ہماری اس حالت سے سارا گھر متاثر ہوگیا تھا ہم نے کن انکھیوں سے اطراف کا جائزہ لیا اور اپنے آنسو پونچھے، بیوی بچوں کی توجہ کو منتشر کیا اور ان گھروں کو سلامی دینے لگے جن کے گھر ماں باپ کی خوشبوؤں سے معطر اور ان کے وجود سے منور ہیں۔ 

وقت گزرتا جارہا تھا اور ہم رمضان کی پہلی رات میں جو کہ ساری دنیا میں دلہن کی طرح سجی نظر آتی ہے، نماز وتراویح کی تیاری کرنے جاہی رہے تھے کہ ایک کسک نے ہمیں جکڑ لیا اور ہمارا وجود ساکت وجامد ہوگیا گرچہ کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم اپنے گھر میں آزاد مگر قید ہیں اور مسجد جا نہیں سکتے لیکن رمضان مبارک کی آمد کی خوشی،‌ جوش وجذبے، بے چینی اور تڑپ، جذبات واحساسات نے ہمارے اندر مسجد جانے کی ضد پیدا کردی ہم نے جلدی جلدی غسل کیا اور سفید کپڑے پہنے، اپنے آپ کو خوشبو سے مہکایا اور چل دئیے اس خالق کائنات کی بارگاہ کی طرف جہاں آج سے اس کی اپنے بندوں پر رحمتوں اور برکتوں کی گویا بارش ہونے والی ہے۔ مسجد تو روزآنہ بھی جاتے ہیں لیکن آج کا اپنا انداز ہی کچھ اور تھا اور خوشی ہی کچھ اور تھی، دل اللہ کی کبریائی اور بڑائی سے لبریز تھا، زبان پر درود وسلام کے میٹھے میٹھے بول خود بہ خود نکل رہے تھے، مسجد تو پاس ہی تھی چند قدم چلے کہ باب رحمت پر پہنچ گئے اور وہی ہوا جس کا ہمیں ڈڑ تھا کیونکہ مسجد کا دروازہ بند تھا، ہم نے بہت آوازیں دیں مؤذن صاحب، مؤذن صاحب، دروازہ کھولئیے! مگر یہاں تو ماحول انتہائی سنسان تھا اس مسجد کی اذان تو ہوچکی تھی مگر یہاں مسجد کے اندر کوئی نظر آتا اور نہ ہی باہر کوئی چہل پہل تھی ہم یہاں بے چین ہوئے جارہے تھے کہ دور ایک اور مسجد سے اذان کی سہانی آواز سنائی دینے لگی اور یہ نورانی مسجد کی آواز تھی جو ہمارے گھر سے قدرے فاصلے پر تھی ہم نے امید کے چراغ جلائے اور وہاں کا رخ کیا اور چند ہی لمحوں میں نورانی مسجد پہنچ گئے ہمارے پہنچنے تک مؤذن صاحب اذان کے آخری الفاظ ادا کر رہے تھے الله اکبر الله اکبر، لا إله إلا الله، مگر ہماری بدنصیبی ہی کہئے کہ یہاں بھی مسجد کا دروازہ بند تھا اور ہمیں معلوم تھا کہ مؤذن صاحب یہاں بھی دروازہ نہیں کھولیں گے مگر ہماری ضد تھی کہ ہم دروازہ کھلواکر رہیں گے اور ان خوش نصیبوں میں جگہ پائیں گے جو یہاں عبادت کریں گے یہ سوچ کر ہم نے دو چار آوازیں لگائیں اور دروازے کے سوراخوں سے اندر جھانکنے لگے دفعتاً ہم کو مؤذن صاحب اپنی طرف آتے ہوئے نظر آئے اور کہنے لگے کون ہے؟ ہم نے پھر ان کو ہلکی سی آواز دی مؤذن صاحب مؤذن صاحب۔ مؤذن صاحب نے بالآخر مسجد کے صدر دروازے میں بنا چھوٹا سا دروازہ کھولا اور باہر آئے ہم نے ان کو سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور آنے کی غرض وغایت پوچھی تو ہم نے بڑی لجاجت سے اپنی غرض بتائی۔

 مؤذن صاحب بچپن ہی سے ہم سے واقف تھے ہم انہیں کے سامنے بچے سے بڑے ہوئے تھے اور ہمارے جذبات واحساسات کا ان کو بخوبی اندازہ تھا، ہماری بات سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ ہم سے کہنے لگے کہ مجاہد میاں! میں پچاس سال سے اللہ کے اس گھر کی خدمت کر رہا ہوں اور پچاس سال میں یہ پہلا رمضان ہے کہ اذان دینے کے باوجود میں مسجد کا دروازہ بند رکھنے پر مجبور ہوں کیونکہ کورونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لئے حکومت نے احتیاطی طور پر مساجد کو نماز وتراویح کے لئے بند کردیا ہے اور صرف عملہ مسجد کو ہی نمازوں کی اجازت ہے اسی لئے میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ آپ اپنے گھر ہی جاکر نماز وتراویح ادا کر لیجئیے یہ جملہ کہتے ہوئے انہوں نے پھر ایک مرتبہ ہم پر شفقت کی نظر ڈالی، وداعی سلام کیا اور آہستہ سے مسجد کا دروازہ بند کردیا۔

 بند ہوتے دروازے کی چرنے کی آواز نے ہمارے دل کو چیر کر رکھ دیا۔ نگاہیں بار بار مسجد کے روشن میناروں اور اس کے خوبصورت گنبد کو تک رہی تھیں جو چشمہ تصور میں ہمیں مصلیوں کے انتظار میں کھڑے نظر آرہے تھے۔ ہماری آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ہم اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہی نہ تھے کہ ہمارا رب ہم سے روٹھ گیا ہے مگر مسجد کے بند دروازے نے ہمیں اس کڑوی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر ہی دیا کہ یقیناً ہمارا رب ہم سے روٹھ گیا ہے کیونکہ جب وہ روٹھ جاتا ہے تو سب سے پہلے اپنی رحمت کے دروازے بند کردیتا ہے۔ ہم بہت دیر تک وہیں کھڑے رہے اور دروازے کو تکتے رہے، گلیاں سنسان تھیں اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، دور کہیں پولس کے گشتی پہرے کے سائرن سنائی دے رہے تھے کیونکہ شہر میں رات کا کرفیو نافذ تھا ہم نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور بار بار اٹھائی دل ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ مسجد کے متبرک درودیوار سے جدا ہوجائیں مگر بہرحال ہمیں واپس اپنے گھر لوٹنا تھا، اک اک قدم پہاڑ معلوم ہورہا تھا اور واپس ہوتے ہوئے یہ خیالات ہمارے ذہن کے کرب واذیت کو اور بڑھارہے تھے، یہ ہمارے خیالات بھی تھے اور سوالات بھی جو ہمارے ذہن پر اس طرح ابھر رہے تھے۔

کیا اب ہماری آنکھیں مساجد میں نماز وتراویح کے وہ روح پرور مناظر نہیں دیکھ سکیں گی؟ سحر وافطار کی وہ رونقیں، گھر گھر سے آنے والی وہ نعمتیں، روزہ داروں کی دعاؤں کا وہ اہتمام، مصلیوں کی نماز وتراویح کی وہ خوشیاں، اپنی سواریوں کو بے ترتیب رکھ کر تکبیر اولی اور صف اول میں شامل ہونے کی وہ بے چینیاں، وضوخانے میں وضو کے پانی کے جھرنے اور ان کا وہ جل ترنگ، نماز تراویح کے لئے دلہے کی طرح سج دھج کر حافظ صاحب کے آنے کا وہ انتظار، مسجدوں میں بچوں کا وہ کھیل کود اور ادھم مچانا اور بڑوں کا بچوں کو وہ ڈڑانا، نمازیوں کا مختلف رنگوں کے علاوہ اکثر سفید کپڑوں میں ملبوس نظر آنا، صبح وشام مساجد میں ہر ایک کا کلام اللہ کی تلاوت کرنا، تراویح کے دوران قرآن مجید کے ترجمہ اور خلاصوں کا سننا سنانا، علماء کرام کا انتہائی منور ومعطر ماحول میں وعظ ونصیحت کے پھول جھڑانا اور لوگوں کا جوق درجوق ایسی محفلوں میں بیٹھنا، زندگی کے کاروبار کو چھوڑ چھاڑ کر روزہ داروں کا وہ اعتکاف کا اہتمام کرنا اور نوجوانوں کا وہ شوق عبادت، وہ معصوموں کا سجدوں میں سوجانا، آخری عشرہ کی راتوں میں شب قدر کو پانے کا وہ اہتمام، رات کے آخری پہر روزہ داروں کا تہجد کی نمازوں کا اہتمام اور بارگاہ خداوندی میں ان کا وہ رونا اور گڑگڑانا، ستائیسویں شب میں تراویح میں قرآن مکمل ہونے کی وہ خوشیاں، شیرینی اور کھجوروں کا وہ تقسیم ہونا، جمعۃ الوداع کے دن مسجدوں سے باہر سڑکوں تک صفوں کا بننا، غرباء، فقراء اور محتاجوں میں زکوٰۃ، صدقہ وخیرات اور فطرہ کا تقسیم ہونا، عید کا چاند نظر آتے ہی بچوں کا چاند مبارک عید مبارک کا وہ غلغلہ، رمضان کے صدقہ میں شہروں میں عید کی تیاریوں کی وہ چمک دھمک، عید کی صبح لوگوں کا خوش لباس ہوکر تکبیرات کی گونج میں عیدگاہ جانا اور ان کا وہ احترام کے ساتھ خطبہ سننا، نماز عید کے بعد بغلگیر ہو کر ایک دوسرے کا وہ شاداں ہونا، گھر والوں کا مسرت بھرے چہروں سے وہ استقبال کرنا، مہمانوں کا آنا جانا اور بچوں کا خوشی خوشی وہ عیدی وصول کرنا۔

 یہ اور اس قسم کے بے شمار خیالات کے سمندر میں ڈوبا جب میں گھر پہنچا اور دستک دی تو میری بیٹی نے دروازہ کھولا اور پیار بھرے انداز میں ہم سے کہنے لگی ابو! آپ آگئے! اتنی جلدی؟ ہم نے اس کے گال چومے اور گود میں اٹھالیا اسے کیا پتا تھا کہ ہم سے ہمارا رب روٹھا ہوا ہے اور اس نے ہمارے لئے اپنے رحمت کے دروازے بند کردئیے ہیں اور اب ہم اس فراق میں ہیں کہ کس طرح اپنے روٹھے رب کو منائیں۔ رات کی زلفیں سیاہ ہوتی جارہی تھیں اور ہم اسی حالت میں دالان میں داخل ہوئے، سب نماز وتراویح، تسبیح وتھلیل میں مشغول تھے۔ ہم نے بھی ایک جائے نماز اٹھائی اور بارگاہ ایزدی میں سر بسجود ہوگئے اور ہماری زبان پر بار بار یہی جملے تھے کہ اے بار الٰہا تو ہمیں معاف فرما، ہم سے درگزر فرما اور پھر سے ہمارے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے کیونکہ تیری چوکھٹ کے سوا نہ ہمارے لئے کوئی جائے پناہ ہے اور نہ ہی جائے عافیت۔

حافظ قاری ڈاکٹر محمد نصیرالدین منشاوی  

صدر شعبہ اردو، انوارالعلوم ڈگری کالج ، ملے پلی، حیدرآباد

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter