برصغیر میں اسلامی علوم کی اشاعت اور امام احمد رضا

[دارالعلوم منظر اسلام کے حوالے سے]

 

{پونہ کی تعلیمی سرزمین پر یہ مقالہ ’’نیشنل سیمینار آن امام احمد رضا منعقدہ ١٦؍ جون ۲۰۱۹ء کو پیش کیا گیا۔ مقالہ چوں کہ قوم کے تعلیمی تناظر میں افکارِ رضا پر مشتمل تھا اس لیے شرکاے نشست، علما، دانش ورانِ قوم نے بہت پسند کیا۔اور اس میں مندرج نکات کو قدر و تحسین کی نگاہوں سے دیکھا}

    ہندُستان میں انگریز کی آمد سے قبل ہزاروں مدارس و جامعات موجود تھے، جن کے انتظام و اِنصرام کے لیے مسلم سلاطین نے بڑی بڑی جاگیریں وقف کر رکھی تھیں۔ یہ مدارس علم دین کے ساتھ ساتھ فلسفہ و طب، ریاضی و جغرافیہ اور حکمت کی بھی تعلیم دیتے تھے۔ دینی و دُنیوی اور مذہبی اور سیاسی قیادت اِنہیں مدارس کے فارغین کی ذِمّہ تھی۔

    انگریز نے اقتدار پر قبضہ جمانے کے فوراً بعد مدارسِ اِسلامیہ کے لیے مختص جائیدادوں کو ضبط کر لیا؛ تاکہ مدارس مفلوک الحال ہوکر زَوال پذیر ہو جائیں اور حصولِ علم دین کے جذبات سرد پڑ جائیں۔ اُنہیں اندیشہ تھا کہ اگر مدارسِ اسلامیہ کو بند نہیں کروایا گیا تو جذبۂ حریت بیدار ہو جائے گا اور ہندوستان میں برطانوی اقتدار خطرے میں آجائے گا۔

    جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد برطانوی سامراج کے حامی علما کا ایک طبقہ پیدا ہوا، بعض کو برٹش وظیفے بھی ملا کرتے تھے اور مدارس بھی قائم ہوئے جن کے مہتمم میں بعض افراد؛ انگریز افسران سے راہ و رسم بھی رکھتے اور مسلمانوں میں انتشار و افتراق کے بیج بوتے تھے۔ تعجب کی بات تو یہ کہ؛ بعض علما نے اپنی تحریروں میں ایسے رُجحانات تشکیل دے ڈالے جن سے عظمت و ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر حرف آتا تھا، ایسے وقت میں جب کہ علم کے راستے سے مسلمانوں میں اختلاف و انتشار پروان چڑھ رہا تھا، اور نظریاتی و اعتقادی تخریب کاری کا سامان مہیا ہو رہا تھا؛ مفکرِ اسلام امام احمد رضا قادری (ولادت: ۱۲۷۲ھ؍۱۸۵۶ء -وصال: ۱۳۴۰ھ؍۱۹۲۱ء) نے شہر بریلی میں ۱۳۲۲ھ؍۱۹۰۴ء میں دارالعلوم منظر اسلام کی بنیاد رکھی، جس کے فضلا نے برِ صغیر میں عظمت و ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے جد و جہد کی، اور اسلامیانِ ہند میں محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رُوح پھونک دی۔

    امام احمد رضا بریلوی ۵۰؍سے زیادہ علوم و فنون میں مہارتِ تامّہ رکھتے تھے، مترجم و مفسر، محدث و فقیہ اور ماہرِ تعلیم تھے۔ وہ سائنس داں بھی تھے اور فلسفی بھی، لیکن ایک سچے مسلمان اور فکرِ صحیح کے مالک تھے۔

    امام احمد رضا- مولوی حاکم علی بی۔اے نقشبندی مجددی، پروفیسر سائنس اسلامیہ کالج لاہور کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی دل پذیر تعلیم تلقین فرماتے ہیں:

    ’’محبِ فقیر! سائنس یوں مسلمان نہ ہوگی کہ اسلامی مسائل کو آیات و نصوص میں تاویلات دور اَز کار کر کے سائنس کے مطابق کر لیا جائے۔ یوں تو معاذ اللہ اسلام نے سائنس قبول کی، نہ کہ سائنس نے اسلام۔ وہ مسلمان ہوتی تو یوں کہ جتنے اسلامی مسائل سے اُسے خلاف ہے؛ سب میں مسئلۂ اسلامی کو روشن کیا جائے، دلائلِ سائنس کو مَردود  و پامال کر دیا جائے۔ جابجا سائنس ہی کے اَقوال سے اسلامی مسئلہ کا اِثبات ہو، سائنس کا ابطال و اسکات ہو‘‘ (۱)

    بیسویں صدی عیسوی کا ابتدائی دور مسلمانوں کے لیے بڑا ہی اِبتلا و آزمائش کا دور تھا، بہت سے مسلم لیڈران ہندو مسلم اتحاد کی آڑ میں مذہبی حمیت و غیرت کا سودا کر کے شعارِ شرکیہ کو رواج دے رہے تھے، ایسے حالات میں امام احمد رضا بریلوی نے تحریر و تصنیف کے ساتھ ہی مسلمانوں میں احیائے علم دین کے لیے دارالعلوم منظر اسلام قائم کیا اور اعتقادی و عملی برائیوں کے سدِ باب کے لیے اپنے شاگردوں اور تلامذہ کی ایک ٹیم تیار کی۔ ہندوئوں سے اتحاد و وِداد کے نقصانات سے مسلمانوں کو باخبر کیا۔اِس موضوع پر آپ کی تصنیف ’’المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ الممتحنۃ‘‘( ۱۳۳۹ھ) بڑی فکر انگیز ہے اور مسلم مفادات کے لیے دعوتِ فکر ہے۔ اِس کتاب میں غیر اخلاقی انگریزی تعلیم کے بارے میں لکھتے ہیں:

    ’’انگریزی اور وہ بے سود و تضییعِِ اوقات تعلیمیں جن سے کچھ کام دین تو دین دُنیا میں بھی نہیں پڑتا، جو صرف اس لیے رکھی گئی ہیں کہ، لڑکے ایں و آں و مہملات میں مشغول رَہ کر دین سے غافل رہیں، کہ اُن میں حمیتِ دینی کا مادّہ ہی پیدا نہ ہو، وہ یہ جانیں ہی نہیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمارا دین کیا ہے۔‘‘ (۲)

    کسی بھی تعلیمی مرکز کے بانی کے اَفکار و خیالات اُس ادارے کے مقاصد کا تعین کرتے ہیں، امام احمد رضا خاں بریلوی ایمان و عقیدے کی سلامتی کے ساتھ، مسلمانوں کی ترقی کے خواہش مند تھے اور ہر شعبۂ علم میں مسلمانوں کی سربلندی چاہتے تھے۔ آپ کے تعلیمی و تعمیری اَفکار و نظریات آپ کی تصانیف کے مطالعہ سے واضح ہوتے ہیں۔

    آج کل علم کا بڑا چرچا ہے، لیکن فیضِ علم نظر نہیں آتا۔ حصولِ علم کا مقصد حصولِ معاش بن کر رہ گیا ہے۔ اخلاق سے عاری تعلیم اور نصاب کی کمزوری، جس میں دینِ فطرت کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ امام احمد رضا تعلیم و تعلّم کے نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف تھے اور ایک ماہرِ نصاب بھی تھے۔ بانیِ دارالعلوم منظر اسلام کے تعلیمی نظریات کے ضمن میں پروفیسر ڈاکٹرمحمد مسعود احمد نقشبندی لکھتے ہیں:

    ’’کسی بھی دینی مدرسے کے بانی کے لیے ضروری ہے کہ اخلاص و فکرِ صحیح کے ساتھ ساتھ تعلیم کے بارے میں اُس کے نظریات واضح اور مفید ہوں۔ اِس پہلو سے جب ہم امام احمد رضا کے تعلیمی نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ ایک بے مثال ماہرِ تعلیم نظر آتے ہیں۔ یہاں چند نکات پیش کیے جاتے ہیں:

  • تعلیم کا محور دینِ اسلام ہونا چاہیے۔
  • بنیادی مقصد خدا رَسی اور رسول شناسی ہونا چاہیے۔
  • سائنس اور مفید علومِ عقلیہ کی تحصیل میں مضائقہ نہیں، مگر ہیئتِ اشیا سے زیادہ خالقِ اشیا کی معرفت ضروری ہے۔
  • ابتدائی سطح پر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نقش دل پر بٹھا دیا جائے، اسی کے ساتھ ساتھ آل و اَصحاب اور اولیا و صلحا کے نقوش بھی قائم کر دیے جائیں۔
  • جو کچھ پڑھا جائے وہ حقائق پر مبنی ہو، جھوٹی باتیں انسانی فطرت پر برا اثر ڈالتی ہیں۔
  • اُنھیں علوم کی تعلیم دی جائے جو دین و دُنیا میں کام آئیں، غیر مفید اور غیر ضروری علوم کو نصاب سے خارج کر دیا جائے۔
  • اساتذہ کے دل میں اخلاص و محبت اور قومی تعمیر کی لگن ہو۔
  • طلبہ میں خود شناسی اور خوٗد داری کا جوہر پیدا کیا جائے کہ دِست سوال دراز نہ کریں۔
  • طلبہ میں تعلیم اور متعلقاتِ تعلیم کا احترام پیدا کیا جائے۔
  • بُری صحبت سے طلبہ کو بچایا جائے، مفید کھیل اور سیر و تفریح اِس حد تک ضروری ہے کہ، طالبِ علم میں نشاط و انبساط پیدا ہو۔
  • تعلیمی ادارے کا ماحول پُر سکون اور پُر وَقار ہو، تاکہ طالبِ علم کے دل میں وَحشت اور انتشارِ فکر نہ ہو۔ (۳)

    اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی نصاب سازی اورعلومِ نقلیہ و عقلیہ میں مہارت پر، بہت سے تحقیقی مقالات و مضامین قلم بند کیے جا چکے ہیں، علاوہ ازیں ایم۔ایڈ سطح پر دس سے زائد مقالے لکھے گئے اور ہنوز قلم کا سفرِ شوق جاری ہے۔

    جیسا کہ عرض کیا گیا کہ دارالعلوم منظر اسلام ۱۳۲۲ھ؍ ۱۹۰۴ء میں قائم ہوا، پہلے سال کے تمام اخراجات امام احمد رضا بریلوی نے اپنی جیبِ خاص سے عنایت فرمائے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد لکھتے ہیں:

    ’’امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے ۱۲۸۶ھ؍۱۸۷۰ء میں فارغ ہونے کے بعد گھر ہی پر چند سال طلبہ کو پڑھایا، کیوں کہ منظر اسلام تو بہت بعد میں ۱۹۰۴ء میں قائم ہوا، پھر کچھ عرصہ منظر اسلام میں بھی پڑھایا ہو، بعد میں گوناگوں علمی مصروفیات کی وجہ سے گھر پر صرف مخصوص طلبہ کو مخصوص علوم و فنون کا درس دیتے رہے۔ منظر اسلام کے بانی امام احمد رضا تھے، مہتمم مولانا حامد رضا خاں اور منتظم امام احمد رضا کے چھوٹے بھائی مولانا حسن رضا خاں تھے۔ مولانا حامد رضا خاں مہتمم بھی تھے اور شیخ الحدیث بھی، آپ نے منظر اسلام کو خوٗب ترقی دی، چنانچہ مولانا سلامت اللہ نقشبندی مجددی (م۱۳۳۸ھ؍۱۹۱۹ء) نے مدرسہ منظرِ اسلام کا معائنہ فرمایا تو اپنی رپورٹ میں لکھا: جس کی نظیر اقلیمِ ہند میں نہیں۔

    امام احمد رضا کے وصال کے ایک عرصہ بعد ۱۳۵۲ھ؍۱۹۳۴ء میں جلسۂ تقسیم اسناد ہوا تو اس میں عمائدین ہند کے علاوہ درگاہِ اجمیر کے دیوان سید آل رسول علی خاں اور علی پور سیداں کے مشہور و معروف شیخِ وقت سید جماعت علی شاہ نقشبندی مجددی محدث علی پوری خصوصی مہمان کی حیثیت سے شریک ہوئے‘‘ (۴)

    دارالعلوم منظرِ اسلام کے نصابِ تعلیم میں تفسیر، حدیث، اُصولِ حدیث، فقہ، اُصولِ فقہ، صَرف، نحو، بلاغت، اَدب، منطق، حکمت، کلام، ریاضی، فرائض، مناظرہ وغیرہ شامل تھے۔ مجموعی طور پر پڑھائے جانے والے علوم و فنون کی تعداد ۳۰ ؍تھی، جن کی موجودہ علوم کے لحاظ سے مزید تقسیم کی جا سکتی ہے۔

    منظرِ اسلام سے اَوّلین فراغت پانے والے طلبہ ملک العلما ءمولانا ظفر الدین قادری رضوی بہاری (مصنف :حیاتِ اعلیٰ حضرت) اور مولانا رشید الدین عظیم آبادی تھے۔ اوّل الذکر منظرِ اسلام کے مدرّس بھی ہوئے، آپ اپنے وقت میں علم فلکیات اور ہیئت و فلسفہ میں استاذ الاساتذہ تھے۔ منظرِ اسلام کے فضلا نے برِ صغیر میں اسلام کی ترویج و اشاعت خلوص و للہیت کی بنیاد پر کی اور ہر نازُک موڑ پر ملتِ اسلامیہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ جگہ جگہ دینی مدارس قائم کیے، جہاں عظمتِ الٰہی و محبتِ رسالت پناہی کی تعلیم کو بنیادی حیثیت دی گئی۔ اِس طرح بر صغیر میں گستاخ جماعتوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔

    منظرِ اسلام کے فضلا کی فہرست بڑی طویل ہے، تاہم بعض مشاہیرِ علم و فن کے نام تحریر کیے جاتے ہیں:

    مولانا حشمت علی خاں لکھنوی، محدث اعظم مولانا سردار احمد فیصل آبادی، مولانا عبدالغفور ہزاروی، حافظ ملت علامہ عبدالعزیز (بانی الجامعۃ الاشرفیہ، مبارکپور)، مولانا مفتی رفاقت حسین، مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمٰن، محدث اعظم ہند مولانا سید محمد کچھوچھوی، مفتی اعظم مولانا محمد مصطفیٰ رضا خان، مفسر اعظم مولانا محمد ابراہیم رضا خان۔

    اِس دارالعلوم کا نصاب امام احمد رضا نے خود ترتیب دیا، تعلیمی معیار کا اندازہ ان کتبِ تفسیر، احادیث و فقہ سے لگایا جا سکتا ہے جو منظرِ اسلام کی اُس سندِ حدیث میں مذکور ہیں، جو امام احمد رضا خان کی حیات میں جاری ہوئی تھیں۔ ۲؍ذی الحجہ ۱۳۳۸ھ؍۱۹۲۰ء کو مولانا عبدالواحد رضوی ابن مولانا غازی الدین ساکن گڑھی کپورہ (پشاور، پاکستان) کے نام جو سندِ فراغت جاری ہوئی، اُس پر مولانا حامد رضا خان نے بحیثیت مدیر اور مولانا رحم الٰہی اور مولانا ظہور الحسین فاروقی نقش بندی مجددی نے بطورِ مدرس دستخط فرمائے۔ اُس کی خاص بات یہ ہے کہ اُس میں صحاحِ ستہ کے علاوہ دیگر تمام مشہور کتبِ حدیث، مسانید، معاجم اور شروح کا ذکر ہے، جو دارالعلوم میں پڑھائی جاتی تھیں، فقہِ حنفی کے علاوہ دیگر ائمہ ثلاثہ کے مذاہب سے متعلق بھی کتب پڑھائی جاتی تھیں، مجموعی طور پر ۳۰؍علوم کا ذکر ہے جو اُس دارالعلوم میں پڑھائے جاتے تھے-(۵)

    اعلیٰ حضرت کے تعلیمی افکار کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت بڑھتی جاتی ہے، اربابِ علم کو آپ کے نوادراتِ علمیہ کی سمت متوجہ ہونا چاہئے، آپ کے تعلیمی افکار و نظریات کی بہت سی جہتیں ہیں، ہر جہت میں آپ ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔ آپ نے تعلیم کے ہر ہر شعبے میں رہنمائی فرمائی، علم اور اس کے متعلقات کے آداب بتائے، استاذ کا احترام سکھایا، تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی زور دیا ۔ علم کے ساتھ عمل کی بھی تلقین کی۔ علم و علما کے فضائل بتائے، علم دین کے فروغ کو مقدم رکھا، تصورِ نصاب ایسا کہ شخصیت کی تعمیر ہو سکے اور متعلم نیک و صالح طبیعت کا مالک بنے۔ عظیم اللہ جندران ایم۔اے اردو جامعہ پنجاب (لاہور) ایم۔ایڈ اسلامیہ یونیورسٹی (بہاولپور) نے امام احمد رضا خان کے تصورِ نصاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

  1. نصاب کی سب سے اہم خوبی یہ ہونی چاہیے کہ وہ نظریۂ حیات کے مطابق تیار کیا گیا ہو، اُس میں کوئی بھی ایسی چیز شامل نہ ہو جو نظریۂ حیات سے متصادم ہو۔
  2. نصاب جامع ہو اور طلبہ کی نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کرے۔
  3. بے سود وقت کو ضائع کرنے والی تعلیم کسی کام کی نہیں، نصاب؛ معاشرتی ضرورتوں کا آئینہ دار ہو۔
  4. نصاب میں تربیتی عنصر بھی شامل ہو۔
  5. نصاب عصری تقاضوں کے مطابق ہو، لیکن دین متین کی بنیادوں پر استوار ہو۔
  6. آپ کے مطابق مروجہ سائنسی نظریات کو اسلامی نظریات کی روشنی میں پرکھ کر ہی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔
  7. نصاب اطاعت وحُبِّ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سرشار ہو۔
  8. نصاب عملاً قابلِ قبول ہو، کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مفید تعلیم دی جائے۔
  9. نصاب کی تیاری کے دوران مقصدیت بھی پیشِ نظر ہو اور وہ دین فہمی ہو۔
  10. ہر وہ علم و فن جو دین سے برگشتہ و غافل کرے، اس سے دین و ایمان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، اُسے شاملِ نصاب نہیں ہونا چاہیے۔ (۶)

    امام احمد رضا نے پاکیزہ تصور ِعلم دیا، استاذ کے لیے درس کے شرائط کا اطلاق کیا، وہ ماہرِ علم و فن تھے، علومِ عقلیہ میں یگانۂ روزگار اور یکتائے زمانہ تھے، انہوں نے دانشورانِ مغرب پر تنقید کی، نقلی دلائل کے ساتھ عقلی استدلال سے بھی کام لیا اور اسلامی فکر کو اُجاگر کیا اور کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔ چند کتابوں کے نام ملاحظہ کریں:

  1. نزولِ آیاتِ قرآن بسکونِ زمین و آسمان ۱۳۳۹ھ
  2. فوزِ مبین در ردِ حرکتِ زمین ۱۳۳۸ھ
  3. الکلمۃ الملہمۃ فی الحکمۃ و المحکمۃ ۱۳۳۸ھ
  4. مقامع الحدید علیٰ خد المنطق الجدید ۱۳۰۴ھ
  5. معینِ مبین بہر دور شمس و سکون زمین ۱۳۳۸ھ

    آپ نے ضابطۂ اخلاق اور تصورِ سزا پر بھی بحث فرمائی ہے، تعلیمی ادارے کے ماحول اور طلبہ کی اخلاقی تربیت کے ضمن میں بھی ضوابط دئے ہیں، آپ یوں ہی تعلیم و تعلم کے نشیب و فراز سے بھی خوب آگاہ تھے۔ الغرض کسی بھی دینی تعلیمی ادارے کے بانی کے لیے درکار جو خوبیاں اور خصائل و اوصاف ہونے چاہئیں ؛وہ امام احمد رضا بریلوی میں بروجہِ کمال موجود تھے۔

حوالہ جات:

  1. احمد رضا خاں بریلوی، امام، نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان، مطبوعہ ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا، کراچی، ص۵۶
  2. احمد رضا خاں بریلوی، امام، ترک موالات (المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ الممتحنۃ) مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی، ص۲۳
  3. محمد مسعود احمد، ڈاکٹر، دارالعلوم منظر اسلام، مطبوعہ ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا، کراچی، ص۱۰۔۱۱
  4. مرجع سابق، ص۱۳۔۱۴ (ملخصاً)
  5. عظیم اللہ جندران، امام احمد رضا کا تصور نصاب، مشمولہ یادگار رضا ۲۰۰۴ء، مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی، ص۱۰۶ تا ۱۲۸

 نوٹ: مزید تفصیل کے لیے مطالعہ فرمائیں:

  • ‌أ- سالنامہ معارف رضا کراچی ۲۰۰۱ء، صد سالہ جشن دارالعلوم منظر اسلام بریلی نمبر
  • ‌ب- فتاویٰ رضویہ (جدید) ج۲۳، مطبوعہ پور بندر گجرات، از امام احمد رضا خان
  • ‌ج- Imam Ahmad Raza Khan Barailvy's Theories on Education از ترک ولی محمد قادری،مطبوعہ کراچی*

ترسیل بموقع عرسِ اعلیٰ حضرت

غلام مصطفیٰ رضوی

[نوری مشن مالیگاؤں]

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter