جمعہ کے منبر سے نعت خوانی یا اصلاحِ امت؟

 اسلام نے امت مسلمہ کی فکری و روحانی اور معاشرتی اصلاح کے لیے جو عظیم ادارہ عطا فرمایا ہے وہ منبر جمعہ ہے۔ یہ منبر صرف ذکر و نعت یا رسمی اجتماع کا ذریعہ نہیں بلکہ امت کے نبض شناس خطیبوں کے ذریعے قوم کی فکری رہنمائی، روحانی تربیت اور اجتماعی بیداری کا مرکز ہے۔ مگر افسوس! آج یہی منبر جو بیدارئی امت کا سر چشمہ تھا بیشتر مقامات پر محض نعت خوانی یا جزوی وعظ تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے ہفتہ وار اجتماعِ ایمان ہے۔ یہ وہ موقع ہے جب پورا محلہ، بستی، شہر یا گاؤں مسجد میں جمع ہوتا ہے۔ منبر پر بیٹھا امام وقت کا نمائندہ ہوتا ہے جو قرآن و سنت کے ذریعے امت کی رہنمائی کرتا ہے۔ مگر آج بہت سے آئمۂ کرام اصلاحی بیان، معاشرتی رہنمائی یا دینی بیداری کی بجائے صرف نعت شریف یا چند رسمی جملوں سے وقت پورا کر دیتے ہیں۔ نعت شریف اپنی جگہ باعثِ برکت اور عشقِ رسول ﷺ کا اظہار ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا منبر جمعہ کا مقصد صرف نعت خوانی ہے؟ کیا نبی کریم ﷺ نے جمعہ کے خطبات میں امت کی رہنمائی نہیں کی؟ کیا خلفائے راشدین نے خطبوں میں امت کو بیدار نہیں کیا؟ آج مسلمان جس زوال، اخلاقی انحطاط اور معاشرتی بگاڑ میں مبتلا ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہی غفلت ہے کہ منبر رسول ﷺ سے وہ آواز اب کم سنائی دیتی ہے جو دلوں کو جھنجھوڑ دے، آنکھوں میں اشک بھر دے اور اعمال میں انقلاب پیدا کر دے۔ امتِ مسلمہ آج بے حسی، فکری جمود اور عملی کمزوری کا شکار ہے۔ گھروں میں بے حیائی پھیل رہی ہے، نوجوان سوشل میڈیا کی اندھی تقلید میں ڈوبے ہیں، خواتین میں پردے کا تصور مدھم ہو رہا ہے، تعلیم سے غفلت عام ہے، دیانت ناپید، امانت نایاب اور عدل کمزور ہو چکا ہے مگر ان حالات پر جمعہ کے منبر سے صدائے احتجاج نہیں اٹھتی۔

  آئمۂ کرام کا فرض صرف نماز پڑھانا نہیں بلکہ امت کی اصلاح، دین کی تبلیغ اور دلوں کی تربیت ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

   ”تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا“۔ (بخاری شریف:893)

  آج ضرورت اس بات کی ہے کہ آئمہ و خطبا منبر کو اس کی اصلی حیثیت لوٹائیں۔ وہ نعت شریف کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ پر روشنی ڈالیں، امت کے زوال کی وجوہات بیان کریں، نوجوانوں کو دین کی طرف راغب کریں، عورتوں کی عفت و عصمت کا درس دیں، والدین کو تربیتِ اولاد کی ذمہ داری یاد دلائیں اور امت کے اندر بیداری کی لہر پیدا کریں۔ جب امامِ جمعہ قرآن کی آیتیں اور نبی کریم ﷺ کے ارشادات کے ساتھ امت کو آئینہ دکھائیں گے تو یقیناً دل نرم ہوں گے، کردار بدلے گا اور بستیوں میں خیر کی فضا قائم ہوگی۔ منبر پر اگر امت کے زخموں کا مرہم رکھا جائے تو شاید بہت سے فتنوں کے دروازے بند ہو جائیں۔ آج امت کو عشقِ رسول ﷺ کے ساتھ عملِ رسول ﷺ کی بھی ضرورت ہے۔ اگر نعت کے ساتھ اصلاحی پیغام شامل کر دیا جائے تو یہی نعت دلوں کو ایمان کی حرارت دے سکتی ہے۔ علمائے کرام جمعہ کے بیان کو ایک امانت سمجھیں۔ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ نوجوان آپ کے الفاظ سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اگر آپ خاموش رہے تو یہ خاموشی آنے والی نسلوں کی تباہی کا مقدمہ بن جائے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

  ”یاد دہانی کرو کیونکہ نصیحت ایمان والوں کو فائدہ دیتی ہے“۔ (الذاریات:55)

   آج جب مسلمان ہر طرف سے مایوسی، ظلم، بے عدالتی اور اخلاقی گراوٹ میں گھرے ہیں ایسے میں منبر جمعہ وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں سے امید، صبر، عمل اور ایمان کی مشعل جلائی جا سکتی ہے۔ اگر آئمہۂ کرام سنجیدگی سے اس ذمہ داری کو نبھائیں تو قوم کا حال بدل سکتا ہے۔ خدارا! منبر کو صرف نعت خوانی یا رسمی خطاب تک محدود نہ کریں بلکہ اسے بیدارئی  امت، اصلاحِ معاشرہ اور تربیتِ ایمان کا ذریعہ بنائیں۔ امت کو صرف نعت نہیں نصیحت بھی چاہیے۔ محبت کے ساتھ اصلاح اور عشق کے ساتھ عمل کی راہ دکھائیے۔ یہی منبر رسول ﷺ کی روح ہے، یہی دین کی امانت ہے۔

  یاد رکھیے! آپ صرف نماز کے امام نہیں بلکہ امت کے رہبر، منبر کے امین اور دین کے نمائندے ہیں۔ آپ کے الفاظ مسجد کی دیواروں سے ٹکرا کر ختم نہیں ہوتے بلکہ دلوں میں اُترتے ہیں، نسلوں کے ذہنوں میں گونجتے ہیں اور بستیوں کے کردار بن جاتے ہیں۔ اگر آپ کے الفاظ بیداری کے نہیں ہوں گے تو امت خوابِ غفلت میں ہی سوئی رہے گی۔ اگر آپ کے جملوں میں دردِ امت کی تپش نہیں ہوگی تو دل مردہ ہی رہیں گے۔ آج جب دین کے نام پر جذبات تو ہیں مگر عمل ناپید ہے، محبت تو ہے مگر اطاعت نہیں تو ایسے میں آپ کی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہے۔ منبر رسول ﷺ وہ مقدس مقام ہے جہاں سے نبی کریم ﷺ نے دنیا کے سب سے عظیم انقلاب کی بنیاد رکھی۔ آپ ﷺ نے منبر سے صرف نعت نہیں پڑھی بلکہ انسانیت کو اخلاق، عدل، تقویٰ، عفت، صداقت اور اخوت کا درس دیا۔ خلفائے راشدین نے بھی اسی منبر سے امت کو بیدار کیا، حکمرانوں کو جواب دہ بنایا، مظلوموں کے لیے آواز اٹھائی اور ظالموں کو للکارا۔ مگر آج وہ منبر جو کبھی انقلاب کا سر چشمہ تھا افسوس کہ کئی جگہ صرف رسومات کا مظہر بن کر رہ گیا ہے۔ اے اہلِ منبر! آپ کے قدم جہاں پڑتے ہیں وہاں زمین گواہی دیتی ہے۔ آپ کا منبر امت کے زخموں کا مرہم ہے۔ اگر آپ خاموش رہ گئے تو یہ زخم ناسور بن جائیں گے۔ آج امت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے، نوجوان مغربی تہذیب کے جال میں گرفتار ہیں، خاندانوں میں بے حیائی در آئی ہے، تعلیم دین سے خالی ہوچکی ہے، مسجدوں میں صفیں تو بھری ہیں مگر دل ویران ہیں۔ ایسے میں اگر منبر خاموش ہے تو یہ امت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ آپ وہ چراغ ہیں جن کی روشنی سے گلیاں روشن ہونی چاہییں، آپ وہ ندا ہیں جس سے ایمان جاگنا چاہیے۔

جمعہ کا منبر امت کے لیے ہفتہ وار تجدیدِ ایمان کا ذریعہ ہے۔ اگر آپ ہر جمعہ دلوں میں خوفِ خدا اور محبتِ رسول ﷺ کا بیج بو دیں تو معاشرہ خود بخود درست ہو جائے گا۔ مگر افسوس! اب جمعہ کا بیان اکثر رسمی جملوں، چند اشعار اور سطحی نصیحت تک محدود ہوگیا ہے۔ نہ اصلاحِ معاشرہ کا درد، نہ دین کے عملی تقاضوں کا ذکر، نہ امت کے زوال پر تڑپ۔ ایسے میں ضروری ہے کہ آئمۂ  مساجد اپنے کلمات کو محض حُسنِ بیان کا زیور نہ بنائیں بلکہ دلوں کو بدلنے کا ذریعہ بنائیں۔ آپ کے لہجے میں سوز ہو، زبان پر صداقت ہو، نگاہ میں غیرتِ ایمانی ہو۔ امت کے نوجوانوں سے کہیے کہ وہ اپنا مقصد پہچانیں، عورتوں کو عفت کا پیغام دیں، تاجروں کو دیانت سکھائیں، والدین کو اولاد کی تربیت یاد دلائیں اور امت کو اتحاد کا سبق دیں۔ منبر پر کھڑے ہوکر معاشرے کے زخموں کی تشخیص کیجیے، اس کے امراض کا علاج بتائیے اور اس امت کو پھر سے اپنے اصل کی طرف لوٹنے کا راستہ دکھائیے۔ یاد رکھیے! آپ کے ایک جملے سے کسی گناہگار کا دل بدل سکتا ہے، آپ کے ایک جملے سے کسی گمراہ کی زندگی سنور سکتی ہے اور آپ کے ایک سچے پیغام سے پوری بستی ایمان و عمل کی خوشبو سے مہک سکتی ہے۔ اگر آپ نے اپنے فرض کو بیدارئی امت کا ذریعہ بنا لیا تو یہی منبرِ جمعہ امت کے عروج کا زینہ بن جائے گا۔ امت کو آج علم کے ساتھ عمل، عشق کے ساتھ اطاعت، نعت کے ساتھ نصیحت اور ذکر کے ساتھ فکر کی ضرورت ہے۔ اگر منبر پر یہ توازن قائم ہوگیا تو زوال کی رات ختم ہوگی اور ایمان کی صبح طلوع ہوگی۔ آئمۂ مساجد ! قوم آپ کو دیکھ رہی ہے، نئی نسل آپ کے لہجے سے سمت پاتی ہے۔ اگر آپ نے دردِ امت کے ساتھ منبر کو زندہ کیا تو یہ امت پھر سے بیدار ہوگی۔ اگر آپ نے غفلت کی چادر اوڑھ لی تو فتنوں کی آندھیاں سب کچھ بہالے جائیں گی۔ اس لیے اُٹھو، حق بولو، اصلاح کرو، نصیحت کرو اور امت کو جوڑ دو۔ منبر کو محض نعت خوانی کا اسٹیج نہیں بلکہ بیدارئی  امت کا منارہ بناؤ۔ قوم کو صرف نعت نہیں نصیحت بھی دو۔ صرف محبت نہیں عمل کا پیغام دو۔ صرف جذبات نہیں کردار کا نور دو۔ یہی تمہارا فرض ہے ، یہی دین کی خدمت اور یہی منبر رسول ﷺ کی روح ہے کہ محبت کے ساتھ اصلاح اور عشق کے ساتھ عمل۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter