اعلیٰ حضرت کے تعلیمی افکار کی عصری معنویت و افادیت

(بموقع عرس اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ)

علم اور تعلیم کی اِشاعت و فروغ میں مسلمانوں نے جو کردار انجام دیا؛ اُس کے معترف اَغیار بھی ہیں،مسلمانوں نے قرآنی اَحکام کی بنیاد پر خدمتِ علم کی، چناں چہ جانسن (Johnson)لکھتا ہے: ’’یہی (قرآنی) پیغام ایک تعمیری قوت کے طور پر وجود میں آیا، اور عیسائی دُنیا میں بہ طورِ نور (علم) پھیل گیا اور جہالت کی ظلمت کو دور کر گیا۔‘‘(۱)

قرآن مقدس نے جہاں انسان کو معبودِ حقیقی سے قریب کیا؛ وہیں علم سے بھی رشتہ اُستوار کیا، یہ اعجازِ قرآن ہے کہ ہر دور میں اِس کی رہ نمائی نے انسانیت کی زُلفِ برہم کو سنوارا، اِس کے قوانین کی روشنی میں مسلمان علما نے علومِ جدیدہ کی بنیاد ڈالی، ایمانل ڈوش (Emmanuel Deutsch ) کے الفاظ میں: ’’قرآن مجید میں سائنسی مطالعہ پر زور مذاہبِ عالم میں بالکل منفرد ہے۔‘‘… مسلسل سازشوں کے نتیجے میں ایک دور وہ آیا کہ مسلمانوں کا علم سے متعلق مزاج بدل گیا، وہ احساسِ کم تری کے شکار ہو گئے، ہندوستان میں جب کہ مغلوں کا سورج غروب ہوا -اور انگریز غالب آئے تو انگریزوں نے مدارس کو بھی مفلوک الحال بنا کر رکھ دیا۔ نتیجے میں مدارسِ اسلامیہ زوال سے دوچار ہو گئے۔ اِس تنزلی نے فکری سطح کو بھی مجروح کیا، اور پھر سازشوں کے بطن سے علم کا جو تصور اُبھرا اُس نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ ڈاکٹر محمد یوسف کے بہ قول:

’’مغربی استعمار نے بھی اَولین مرحلے میں مسلمانوں کی فکری و نظری اَساس پر حملہ کیا۔ اور اِس کے لیے انھوں نے مسلمانوں کے نظامِ تعلیم کے اندر تشکیک و اِلحاد، اپنے مخصوص نظریۂ اَباحیت و عریانیت اور تجدُّد پسندی کے اَثرات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نصوصِ قرآن و سُنّت میں مَن مانی تاویلیں کرنے کی سوچ کی سرپرستی کرتے ہوئے اُسے پروان چڑھایا۔‘‘ (۲)

تجدُّد پسندی کے اَثرات سے ابوالکلام آزاد جیسے لیڈر بھی خود کو محفوظ نہ رکھ سکے، اور اسلامی نظامِ تعلیم جسے اُنھوں نے اپنے طالبِ علمی کے زَمانے میں ’’درسِ نظامیہ‘‘ کی شکل میں سیکھا تھا؛ سے متعلق لکھ دیا: ’’پھر اُس تعلیم کا حال کیا تھا- جس کی تحصیل میں تمام ابتدائی زمانہ بسر ہوا! اِس کا جواب اگر اِختصار کے ساتھ بھی دیا جائے تو صفحوں کے صفحے سیاہ ہو جائیں…‘‘ (۳)… یہ تھا فکری اِنحطاط و زَوال کا نمونہ۔

اَیسے دور میں جب کہ اسلامی نظامِ تعلیم سے ذہنوں کو متنفر اور فکروں کو پراگندہ کیا جا رہا تھا؛ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی (۱۲۷۲ھ۔۱۳۴۰ھ) نے مسلمانوں کی سوچ و فکر کو اسلام کی طرف مائل کیا ؛اور حوصلوں کو سہارا دیا، اِس کا اندازا آپ کے اَفکار و تحریرات کے مطالعہ سے ہوتا ہے، آپ نے اُس دور کی یاد تازہ کر دی، جس میں امام غزالی و امام سیوطی جیسی با کمال شخصیات علم و فن کے دریا بہا رہی تھیں۔امام احمد رضا چاہتے تھے کہ مسلمان علم دین حاصل کرے؛ اور پھر معاصر علوم سے بھی آراستہ ہو لے۔ اور یہ سوچ اَیسی ٹھوس تھی کہ، اِس سے ایک طرف ایمان بھی محفوظ رہتا اور دوسری طرف قوم کو جدید و قدیم علوم سے آراستہ باصلاحیت اَفراد بھی میسر آتے۔ اِسی نوع کا ایک معاملہ پیش ہوا کہ ، تعلیم انگریزی و ہندی کی مسلمان کو جائز ہے یا نہیں؟ تو اِرشاد فرمایا:

’’اگر جملہ مفاسد سے پاک ہو تو علومِ آلیہ مثلِ ریاضی و ہندسہ و حساب و جِبر و مقابلہ و جغرافیہ و اَمثال ذٰلک ضروریاتِ دینیہ سیکھنے کے بعد؛ سیکھنے کی ممانعت نہیں، کسی زبان میں ہو؛ اور نفسِ زبان کا سیکھنا کوئی حرج رکھتا ہی نہیں۔‘‘ (۴)   

جو قومیں اپنے اسلاف کی راہ سے ہٹ جاتی ہیں- وہ تباہ ہو جاتی ہیں، پھر سوچنے کی بات ہے کہ مسلمان دین کا علم چھوڑ کر کس طرح دوسرے علوم ہی کو مقصد قرار دے سکتا ہے؟ تاریخِ اسلام میں ہر نمونہ شخصیت اوّل علمِ دین ہی سے آراستہ نظر آتی ہے؛ اور پھر دوسرے علوم میں بھی ممتاز۔ اور پھر مذکورہ اِقتباس میں جو ’’مفاسد سے پاک علم‘‘ کی شرط لگائی گئی ہے- وہ غیر ضروری نہیں، اِس لیے کہ اِستعماری قوتوں نے جہاں اسلامی علوم سے مسلمانوں کو دور کرنے کی کوشش کی؛ وہیں جدید علوم میں اَیسے نظریات کو رِواج دیا؛ جو اسلامی عقائد سے مُتصادِم و متعارض تھے۔ امام احمد رضاکا یہ فکری نکتہ نیا نہیں بلکہ اَسلاف کا ترجمان ہے ؛امام غزالی (۴۵۰ھ۔۵۰۵ھ) نے بھی علوم کو دو اَنواع میں تقسیم کیا ہے: (۱) محمود (۲) مذموم… امام احمد رضا کی تعلیمی فکر علومِ محمودہ کے حصول پر زور دیتی ہے اور وہ علوم جن سے عقائد کم زور ہوں یا سوچ منفی بنے، اور ایمان و عقیدے میں بگاڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ ان سے آپ بچنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اِسی لحاظ سے انگریزی تعلیم کے پڑھنے پڑھوانے سے متعلق یہ فکر دیتے ہیں؛ جس میں اعتدال و توازُن بھی ہے،فرماتے ہیں:

’’یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے دین و اَخلاق و وَضع پر اَثر نہ پڑے، اسلامی عقائد و خیالات پر ثابت و مستقیم اور مسلمانی وضع پر قائم رہے۔ اِن سب شرائط کے اِجتماع کے بعد جائز رِزق حاصل کرنے کے لیے (اَنگریزی پڑھنے میں) حرج نہیں۔‘‘ (۵)

اِستعماری نظامِ تعلیم کا مقصد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی پالیسی کے مطالعہ سے بھی ہوتا ہے؛ اُس کا ایک نکتہ اِس طرح ہے:

’’کمپنی کی حکومت کا واضح مقصد اَنگریزی زَبان اور مغربی علوم کو ہندوستان میں رائج کرنا (ہے)تا کہ یہاں کے لوگ ’’مغربی تہذیب‘‘ اور ’’مغربی مذہب‘‘ کو قبول کریں۔‘‘(۶)

بات اَگر صرف اَنگریزی زَبان کی ہوتی تو کوئی تعجب نہیں تھا، مگر یہاں مقصد ’’مغربی مذہب‘‘ عیسائیت کی تبلیغ ہے، امام احمد رضا کی فراستِ ایمانی دیکھ رہی تھی کہ ’’مغربی نظامِ تعلیم‘‘ میں کچھ مستور ہے، اِسی لیے آپ نے علومِ جدیدہ کے حصول کی اِجازت دی تو علمِ دین حاصل کر لینے کے بعد، تا کہ غیر اِسلامی نظریات سے آگہی بہ آسانی ہو، اور جو باتیں خلافِ اسلام ہوں؛ اُن کی تردید کی جا سکے۔ اور آج تو علوم میں کس قدر غیر اِسلامی اَفکار پڑھائے جاتے ہیں؛ یہ کوئی ڈَھکی چُھپی بات نہیں، اِقبالؔ نے کہا تھا  ؎

یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات

سر سید نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انگریزی حکومت کی طرف سے عیسائیت کے پرچار اور مغرب کی عریاں تہذیب کی خفیہ مہم تعلیم سے مربوط چھیڑی گئی تھی؛ جس کا اِظہار ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ میں ملتا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’لڑکیوں کی تعلیم کا بہت چرچا ہندوستان میں تھا ؛اور سب یقینا جانتے تھے کہ سرکار کا مطلب یہ ہے کہ لڑکیاں اسکولوں میں آئیں اور تعلیم پائیں اور بے پردہ ہو جائیں۔‘‘ (۷)

مغربی نظامِ تعلیم کا ایک اور مقصد یہ تھا کہ ’’جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ ایک ایسی جماعت تیار کی جائے؛ جو اِسلام اور اِسلامی اَقدار سے اعلانِ برأت نہ کرے تو کم اَز کم اظہارِ نفرت تو کرے!‘‘ (۸)

آج منظر نامہ اِس کی تصدیق کر رہا ہے؛ کہ خود کو مسلمان کہنے اور کہلوانے والا ایک ماڈریٹ طبقہ اِسلامی اَقدار و تہذیب سے بیزار نظر آتا ہے، اِس کے مشاہدات ہمیں آئے دن دیکھنے میں آتے ہیں۔ مثلاً:

  • مسلم پرسنل لا سے متعلق بہت سے دانش ور قسم کے اَفراد، اِسلامی اَحکام سے جُدا غیر اِسلامی نظریے کی تائید کرتے ہیں۔
  • شرعی اَحکام و مسائل میں اَپنی عقل کی بات لاتے ہیں۔
  • حجاب کے مسئلے میں بھی، اِسے ’’قد آمت پسند‘‘ ،’’فرسودہ علامت‘‘ بھی قرار دینے والوں میں بعض کلمہ گو نظر آتے ہیں۔
  • سود سے متعلق اسلامی حکم سے خلاف کرنے والے بھی بہت سے کلمہ گو ہیں۔

(یہ حقیقت ہے کہ ایسا طبقہ ۲۰۰۹ء کی The Royal Islamic Strategic Studies Center کی سروے رپورٹ کے مطابق ایک فی صد ہے۔مگر اُن کے جرثومے مسلم معاشرے میں اپنے دامن پسار رہے ہیں۔)

اِستعماری نظامِ تعلیم کے زیرِ اَثر اِلحاد کو راہ ملی… امام اہلِ سنت اِسی سے قوم کو بچانا چاہتے تھے۔ اِقبالؔ نے اِلحاد کے تَناظُر میں کہا تھا؎

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا اِلحاد بھی ساتھ

عزیزانِ مکرم! مسئلہ در اَصل یہ تھا؛ کہ انگریز اپنے نظامِ تعلیم کے توسط سے مسلمانوں کو ذہنی غلام بنا رہا تھا۔ فکر مرتی ہے تو قوم مر جاتی ہے۔ امام احمد رضا- اِسلامی سوسائٹی کو اُس کی فکری اَساس کے ساتھ دیکھنا چاہتے تھے۔ اِس لیے ہر اُس عمل کی آپ نے مخالفت فرمائی؛ جس سے ہمارے دینی تشخص کو خطرہ دَرپیش ہو۔

امام اہلِ سنت کے نزدیک تعلیم کا مقصد ’’خدا رَسی و رَسول شَناسی‘‘ ہے، اور بقول استاذ سلیم اللہ جُندران: ’’آپ تعلیم براے تفہیم ِدین کے قائل ہیں۔‘‘… اِستعماری نظامِ تعلیم کے مقابل امام احمد رضا کے نظریات دین کے فکری سرمائے کی حفاظت کے لیے نہایت اَہم مقام رکھتے ہیں۔ اِنھیں وجوہ سے اِسلامی دُنیا میں آپ کے عہد میں آپ کے پاے کا کوئی ماہرِ تعلیم نظر نہیں آتا… مغربی فکر کے مقابل آپ کی ذات غزالیِ عصر نظر آتی ہے، اور بعض دانش وَروں نے جو اپنے دور کا -بو حنیفہ- کہا وہ مطالعے کے آئینے میں دیکھتے ہیں تو دُرست پاتے ہیں۔

مغربی اَثرات کے تحت ہی آپ نے کالج کی تعلیم کے سلسلے میں شریعت کے پاس و لحاظ کی قید لگائی ہے، جہاں آپ نے علومِ جدیدہ کے حصول کی ترغیب دی؛ وہیں شریعت کے اُصولوں کی پاس داری کا دَرس بھی دیا ہے۔ فرماتے ہیں:

’’کالج اور اُس کی تعلیم میں جس قدر بات خلافِ شریعت ہے؛ اُس سے بچنا ہمیشہ فرض تھا اور ہے، جہاں تک مخالفتِ شرع نہ ہو ؛اُس سے بچنا کبھی بھی فرض نہیں۔‘‘(۸)

یہ ایک عقلی بات ہے کہ جو قائد ہو گا وہ اپنی مذہبی و قومی روایات کا پاس دار ہوگا، اور اِس میں معمولی لچک بھی اُسے گوارا نہ ہو گی۔ امام احمد رضا- ملتِ اِسلامیہ کے قائد ہیں، اُنھوں نے قیادت بھی خوب نبھائی؛ جب کہ بڑے بڑے پھسل گئے تھے؛ اُس وقت آپ نے اِسلامی نظامِ تعلیم و معاشرہ کے تشخص کو بچایا؛ اور اِسلام کی اُس روایتی سوسائٹی کو قائم رکھا جو ہماری آئیڈیل رہی ہے۔ اور ہماری اِسلامی شان کی مظہر بھی۔ اِس سلسلے میں آپ نصاب سازی میں اسلامی فکر و رِوایات کی پاس داری پر زور دیتے ہیں۔

آپ کی خدمت میں ایک سوال اِسی قسم کا کوچین مالا بار سے آیا؛ جس میں پوچھا گیا کہ: آج کل مسلمان جو تکمیل یونی ورسٹی کی کوشش کرتے ہیں اور چندہ فراہم کرتے ہیں وہ ثواب ہے یا نہیں؟ اِس کے جواب میں آپ نے چند شرائط اسلامی رُو سے ذکر کیں، اور ان بنیادوں پر یونی ورسٹی کے تعاون کی اجازت دی۔ جنھیں نمبر وار درج کیا جاتا ہے:

’’اگر یہ بات قرار پائے اور اس کے اَفسر عہدہ داران اِس کا پورا ذمّہ قابلِ اطمینان کریں کہ،

  1. اِس کا حصۂ دینیات صرف اہلِ سنت و جماعت کے متعلق رہے گا،
  2. جن کے عقائد مطابق علماے حرمین طیبین ہیں، اُنھیں کی کتب نصاب میں ہوں گی،
  3. اُنھیں کے علما مدرسین ہوں گے،
  4. اُنھیں کی تربیت میں طلبا رہیں گے،
  5. غیروں کی صحبت سے اُن کو (طلبا کو) بچایا جائے گا،
  6. روپیہ جو اہلِ سنت سے لیا جائے گا؛ صرف اُسی کام میں صرف کیا جائے گا،

اُس وقت اہلِ سنت کو ان میں داخل ہونا جائز اور باعث ثواب ہو گا، اور جو کچھ اُس میں دیا جائے گا صدقۂ جاریہ ہو گا۔‘‘(۱۰)

فکری حملہ ظاہری حملے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے، اِستعماری قوتوں نے اِسی رُخ کو اختیار کیا کیوں کہ وہ جہدِ مسلسل کے بعد بھی اِسلام کی شمع بجھا نہ سکے، اُنھوں نے فکری حملے شروع کیے اور جدید علوم کے توسط سے مغربی اَفکار کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنایا؛ اِسی وجہ سے امام احمد رضا نے مذکورہ اِقتباس میں اِسلامی اُصولوں کو فائق رکھتے ہوئے یونی ورسٹی کی اِعانت اور اُس میں حصولِ علم کی اِجازت دی… پھر ایک پہلو یہ بھی آتا ہے کہ جب ہمارے یہاں سب کچھ موجود ہے؛ تو مخالفینِ اسلام کے مرہونِ منت کیوں بن رہے ہیں؟ اِس پہلو سے امام احمد رضا نے قوم کو ماضی کی حوصلہ اَفزا تاریخ کا اِشارہ دیا ہے کہ؛ اَب بھی وقت ہے؛ سنبھل جاؤ! اور اَپنے اَسلاف کے نظامِ تعلیم کو عام کرو، کیوں !ہم غیر کے محتاج بن رہے ہیں، تعجب خیز اَنداز میں امام احمد رضا تحریر فرماتے ہیں:

’’سائنس میں وہ باتیں ہیں جو عقائدِ اسلام کے خلاف ہیں، بچوں کی تربیت دینے، تہذیب و انسانیت سکھانے کے لیے دُنیا بھر میں کوئی مسلمان نہ رہا؟ عرب، مصر، روم، شام حتیٰ کہ حرمین شریفین کے علما و مشائخ میں کوئی اِس قابل نہیں ، ہاں! کمالِ مہذب و شیخ تربیت و پیرِ افادت بننے کے لائق یورپ کے عیسائی ہیں؟‘‘ (۱۱)  ؎

قوتِ فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے

تب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے

امام احمد رضا- قرآنِ مقدس کی رَوشنی میں سائنس کو پرکھنے کے قائل تھے، اِسی لیے جن سائنسی دلائل کو قرآنِ مقدس کے مطابق پایا؛ اُنھیں تسلیم کیا؛ اور جنھیں قرآنی فیصلے سے متصادم پایا؛ اُن کی مخالفت کی، ایک مقام پر لکھتے ہیں:

’’قرآن عظیم کے وہی معنٰی لینے ہیں جو صحابہ و تابعین و مفسرین و معتمدین نے لیے؛ اِن سب کے خلاف وہ معنٰی لینا جن کا پتا نصرانی سائنس میں ملے؛ مسلمان کو کیسے حلال ہو سکتا ہے۔‘‘(۱۲)

مجھے اِس مقام پر نو مسلم مغربی دانش وَر ڈاکٹر محمد ہارون (متوفیٰ ۲۰۰۸ء) کا وہ تبصرہ یاد آرہا ہے؛ جس میں آپ نے فکرِ رضا کی ہمہ گیری اور فکرِ مغرب کی خامی کو سائنس کے تناظر میں واضح کیا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:

’’امام احمد رضا (مغربی) سائنس کے مقابل اسلام کا دِفاع کرنے ؛اور سائنس کی حدیں واضح کرنے کی کاوشوں کی وجہ سے عالمی اہمیت کی حامل شخصیت ہیں… صرف امام احمد رضا کے اَفکار کو اپنا کر ہی مسلم دُنیا اَپنے تباہ کن حالات سے پیچھا چھڑا سکتی ہے… اگرچہ وہ خود سائنس میں خاصی مہارت رکھتے تھے، لیکن اگر کوئی اِسلام میں سائنس سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے کوئی تبدیلی لانا چاہتا؛ تو آپ اُسے ٹھوس علمی دلائل سے جواب دیتے… یہی امام احمد رضا کی عالمی اہمیت کی ایک دلیل ہے۔‘‘(۱۳)

مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کے خاتمہ کے لیے امام احمد رضا نے کئی تعلیمی منصوبے پیش کیے، معاشی جہت سے آپ کا ۱۹۱۲ء کا چار نکاتی منصوبہ ’’تدبیر فلاح و نجات و اِصلاح‘‘ مطبوع ہے؛ جس کے نکات پر آج بھی عمل ہو جائے تو مسلمان؛ کسی غیر کے محتاج نہ ہوں گے، اور پھر کسی سچر کمیٹی کی رپورٹ ہمیں تعلیمی و ترقیاتی میدان میں اَبتر و پست ثابت نہ کر سکے گی، ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِحساسِ کم تری اور مایوسی کے غار سے نکلیں؛ اور آفاقی دین کے حامل ہونے کے ناطے علم و فن سے رِشتے اُستوار کریں، امام احمد رضا کی یہی فکر تھی، تعلیم براے خدمت و اشاعتِ حق -حاصل کریں اور رزق کا دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، اِس لیے اَسباب کے بجائے خالقِ اَسباب پر بھروسہ کریں، حُسنِ نیت کے ساتھ ہم تعلیم کے میدان میں آگے بڑھیں گے؛ تو کامیابیاں منزل کا پتہ دیں گی  ؎

ہر اِک منتظر تیری یلغار کا

تری شوخیِ فکر و کردار کا

٭٭٭

حوالہ جات:

  • تبرکات عالمی مبلغ اسلام،مطبوعہ پاکستان، ص۴۹۳
  • ضیاے حرم لاہور،شمارہ فروری۲۰۰۱ء، ص۳۴
  • غبارِ خاطر، ص۹۷
  • فتاویٰ رضویہ، ج۲۳،مطبوعہ برکاتِ رضا پوربندر گجرات، ص۷۰۶
  • مرجع سابق، ص۷۱۰
  • ضیاے حرم لاہورفروری۲۰۰۱ء، ص۳۵
  • اسبابِ بغاوتِ ہند،طبع دہلی، ص۱۲۶
  • ضیاے حرم لاہورفروری۲۰۰۱ء، ص۴۴
  • فتاویٰ رضویہ قدیم، ج۶، طبع ممبئی ص۱۷۱
  • فتاویٰ رضویہ، ج۲۳، ص۶۸۴۔۶۸۵
  • مرجع سابق
  • نزولِ آیاتِ فرقان بسکون زمین و آسمان،ص۲۰،طبع کراچی
  • امام احمد رضا کی عالمی اہمیت، مترجم ڈاکٹر ظفر اقبال نوری،ص۸۔۹، طبع مالیگاؤں 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter