صالح اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے چند رہنما خطوط (پانچویں قسط)
گھر میں داخل ہونے کے لیے صاحب خانہ کی اجازت اور اس کے آداب :
پردہ دری اور غیر محرم عورتوں کو اجنبی مردوں کی نگاہوں سے بچانے کے لیے اسلام نے ضروری قرار دیا ہے کہ جب مسلمان دوسرے کے گھر جائیں تو بغیر صاحب خانہ کی اجازت کے اس کے گھر میں داخل نہ ہوں.
آج اسلامی معاشرے میں صدہا قسم کی برائیوں نے جو اپنی جڑیں گہری کرلی ہیں اس کی ایک وجہ اجنبی مردوں اور عورتوں کا بے روک ٹوک ایک دوسرے کے گھر آنا اور جانا ہے ؛ جس سے غیر محرم مردوں اور عورتوں کی نگاہیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں اور پھر کھیل شروع ہو جاتا ہے اس لیے اسلام نے تمام تر احتیاط کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی اور کے گھر میں داخل ہونے کے لیے صاحب خانہ کی اجازت کو ضروری قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ (النور، الآیۃ 27)
اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور ان کے ساکنوں پر سلام نہ کرلو یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم دھیان کرو (کنز الایمان)
اس آیت مبارکہ میں غیر کے گھر سے مراد وہ گھر ہے جس میں کسی اور کی رہائش ہو خواہ وہ اس گھر کا مالک ہو یا نہ ہو لھذا اگر مکان مالک نے اپنا گھر کسی کو اجرت یا کرائے پر دے رکھا ہے تو اس میں بھی داخل ہونے کے لیے کرایہ دار سے اجازت لینا ضروری ہے۔ حاصل یہ ہے کہ مکین کی اجازت کے بغیر کسی اور کو اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے چاہے وہ اس کا ذاتی مکان ہو یا کرائے کا مکان ہو اس کا اسلام میں اس درجہ التزام ہے کہ قریب البلوغ بچوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ بالخصوص تین اوقات میں اپنی ماں کے پاس بغیر اجازت نہ جائیں.
(1) نماز فجر سے پہلے (2) قیلولہ کے وقت (3) نماز عشا کے بعد. اس لیے کہ یہ اوقات خلوت اور تنہائی کے ہیں ستر عورت کا بہت کم اہتمام ہوتا ہے ممکن ہے کہ بدن کا کوئی حصہ کھلا ہو اور بچوں کی نظر پڑ جائے تو یہ دونوں کے لیے شرم کا باعث ہوگا۔جیساکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَ حِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَ مِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ۟ ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ [ النور, الآیۃ: 58]
اے ایمان والو! چاہیے کہ تم سے اذن لیں تمہارے ہاتھ کے مال غلام اور وہ جو تم میں ابھی جوانی کو نہ پہنچے تین وقت نمازِ صبح سے پہلے اور جب تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو دوپہر کو اور نماز عشاء کے بعد یہ تین وقت تمہاری شرم کے ہیں۔ (کنز الایمان)
اور اگر لڑکے بالغ اور جوان ہوگئے ہیں تو ان کا جمیع اوقات میں بغیر اجازت کے ماں اور باپ کی رہائش کے مخصوص کمرے یا گھر میں داخل ہونا ممنوع ہے.
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : وَ اِذَا بَلَغَ الۡاَطۡفَالُ مِنۡکُمُ الۡحُلُمَ فَلۡیَسۡتَاۡذِنُوۡا کَمَا اسۡتَاۡذَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ۔(النور ، الآیۃ : 59)
اور جب تم میں لڑکے جوانی کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اذن مانگیں جیسے ان کے اگلوں نے اذن مانگا ، اللہ یونہی بیان فرماتا ہے تم سے اپنی آیتیں ، اور اللہ علم
و حکمت والا ہے (کنز الایمان)
فرمان رسالت صلی اللہ علیہ و سلم بھی یہی ہے کہ جوان لڑکے بغیر اجازت کے ماں کے پاس نہ جائیں ؛ جیسا کہ حضرت امام مالک نے حضرت عطا بن یسار سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا کہ کیا میں اپنی ماں کے پاس جاؤں تو اس سے بھی اجازت لوں ؟ حضور نے فرمایا : ہاں انھوں نے کہا میں تو اس کے ساتھ اسی مکان میں رہتا ہوں .حضور نے فرمایا : اجازت لے کر اس کے پاس جاؤ! سائل نے کہا : میں اس کی خدمت کرتا ہوں! یعنی بار بار آنا جانا ہوتا ہے تو اجازت کی کیا ضرورت ؟ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : اجازت لے کر جاؤ, کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اسے برہنہ دیکھو ؟ عرض کیا نہیں. فرمایا : تو اجازت حاصل کرو (اسلامی اخلاق و آداب, ص 104)
حاصل یہ ہے کہ لڑکوں کو خود اپنے گھر میں بغیر اطلاع کے نہیں داخل ہونا چاہیے اس لیے کہ گھر میں ماں بھی رہتی ہے اور بہنیں بھی رہتی ہیں ہو سکتا ہے کہ ان میں کوئی بے ستر ہو اور نظر پڑ جائے تو یہ دونوں کے لیے شرم و ندامت کا باعث ہوگا.
اجازت کے آداب : احادیث مبارکہ میں صاحب خانہ سے اجازت لینے کے آداب بتائے گئے ہیں حضرت ربعی بن حراش رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: ہمیں قبیلہ بنو عامر کے ایک شخص نے بتایا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کی پس اس نے ان الفاظ میں اجازت مانگی : کیا میں اندر آ جاؤں ؟ تو حضور علیہ السلام نے اپنے خادم سے فرمایا : اس کے پاس جا اور اسے اجازت طلب کرنے کا طریقہ سکھا, اور اس سے کہہ کہ ان الفاظ کے ساتھ اجازت مانگ! السلام علیکم کیا میں اندر آ جاؤں ؟ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اجازت مرحمت فرمائی ( ابوداؤد, کتاب الادب, باب کیفیۃ الاستیذان)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے دروازے پر کھڑے ہو کر سلام کیا جائے پھر اندر جانے کی اجازت طلب کی جائے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی کو دین کی بات نہ معلوم ہو تو اسے دین کی باتیں سکھائی جائیں
اسی طرح حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا اور سلام کیے بغیر اندر داخل ہو گیا تو آپ نے فرمایا : واپس لوٹ جا, اور اس طرح کہہ : السلام علیکم, کیا میں اندر جاؤں ؟
(ایضا)
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اجازت لینے والے کو صاحب خانہ اس کی آواز سے نہ پہچان سکے اور اندر سے وہ سوال کرے, کون؟ تو اس کے جواب میں یہ نہ کہا جائے : میں, بلکہ نام لے کر کہا جائے کہ میں فلاں ہوں مثلا یہ کہے :عبداللہ, حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے یوں کہا : کون ہے ؟ میں نے کہا : '' میں ,, ہوں تو آ پ نے فرمایا : "میں میں'' کیا ہے ؟ گویا آپ نے اسے برا سمجھا ( بخاری, کتاب الاستیذان, باب اذا قال من فقال انا) (مسلم, کتاب الاستیذان,باب کراھۃ قول المستاذن انا)
اسی طرح حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی, آپ غسل فرما رہے تھے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا پردہ کیے ہوئے تھیں آپ نے پوچھا یہ کون ہے ؟ میں نے کہا: میں "ام ہانی ہوں,, ( مسلم,کتاب الطھارۃ/ باب تستر المغتسل)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دروازے پر دستک دی جائے اور اندر سے پوچھا جائے کون ؟ تو جواب میں اپنا نام لے کر بتایا جائے.
آج کل قصبے اور شہروں میں بہت سے لوگوں نے اطلاعی الارم لگا رکھے ہیں لھذا گھنٹی بجانا اور دروازے پر دستک دینا بھی اجازت طلبی کے مفہوم میں داخل ہے.
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔