22/ جمادی الثانی: یومِ وصال خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ

بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا 

 ماہ جمادی الثانی کی ٢٢/تاریخ کو امیر المومنین افضل البشر بعد الانبیاء حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ کا وصال ہوا- حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ کی ذاتِ مقدسہ محتاج تعارف نہیں- کون کلمہ گو ہے جو آپ کی شخصیت و مرتبیت سے آشنا نہیں- جب فاران کی چوٹی سے آفتابِ اسلام بلند ہوا، معلم انسانیت  حضور نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے دعوت اسلام دی تو سب سے پہلے جس قلب مقدس و مطہر نے انوار ایمانی کو اپنے اندر جذب کیا اور اپنے دل کو اسلام کی نورانی دعوت کا نشیمن بنایا وہ کوئی اور نہیں بلکہ امیر المومنین افضل البشر بعد الانبیاء حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ کا مبارک و مقدس قلب اطہر ہے- آپ ملاحظہ فرمائیں کہ حضرتِ علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ کے فضائل کس طرح بیان کرتے ہیں-


حضرتِ سیدنا اسید بن صفوان رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

 جب حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله عنہ کا وصال ہوا تو مدینے کی فضا میں رنج و غم کے آثار تھے- ہر شخص شدت غم سے نڈھال تھا- ہر آنکھ سے اشک رواں تھے- صحابہ کرام علیہم الرحمتہ والرضوان پر اسی طرح پریشانی کے آثار تھے جیسے حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے وقت تھے- سارا مدینہ غم میں ڈوبا ہوا تھا- پھر جب حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ کو غسل دینے کے بعد کفن پہنایا گیا تو حضرتِ سیدنا علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم تشریف لائے اور کہنے لگے: آج کے دن نبی آخر الزماں صلی الله تعالیٰ علیہ  وسلم کے خلیفہ ہم سے رخصت ہو گئے- پھر آپ رضی الله عنہ حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله عنہ کے پاس کھڑے ہو گئے اور آپ رضی الله عنہ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اے صدیق اکبر!  رضی الله عنہ آپ پر الله رب العزت رحم فرمائے- آپ رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کے بہترین رفیق، اچھے محب، بااعتماد رفیق اور محبوب خدا صلی الله علیہ وسلم کے رازداں تھے- حضور صلی الله علیہ وسلم آپ رضی الله عنہ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے، آپ رضی الله عنہ لوگوں میں سب سے پہلے مومن، ایمان میں سب سے زیادہ مخلص، پختہ یقین رکھنے والے اور متقی و پرہیز تھے- آپ رضی الله عنہ دین کے معاملات میں بہت زیادہ سخی اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی دوست تھے- آپ رضی الله عنہ کی صحبت سب سے اچھی تھی، آپ رضی الله عنہ کا مرتبہ سب سے بلند تھا، آپ رضی الله عنہ ہمارے لیے بہترین واسطہ تھے، آپ رضی الله عنہ کا اندازِ خیر خواہی، اسلام کی دعوت دینے کا طریقہ، شفقتیں اور عطائیں رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کی طرح تھیں، آپ رضی الله عنہ رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کے بہت زیادہ خدمت گزار تھے، الله رب العزت آپ رضی تعالیٰ عنہ کو اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم اور اسلام کی خدمت کی بہترین جزا عطا فرمائے-

آپ رضی الله عنہ نے دین متین اور نبی کریم رؤوف رحیم صلی الله علیہ وسلم کی بہت زیادہ خدمت کی، الله رب العزت اپنی رحمت کے شایان شان آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کو جزاء عطا فرمائے-

جس وقت لوگوں نے رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو جھٹلایا تو آپ رضی الله عنہ نے رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق فرمائی- حضور نبی اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے ہر فرمان کو حق و سچ جانا اور ہر معاملے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق فرمائی- الله رب العزت نے قرآن کریم میں آپ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا-

الله رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: 

ترجمہ- اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں-(سورہ زمر، پارہ ٢٤)
اس آیتِ کریمہ میں صدق بہ سے مراد صدیق اکبر رضی الله عنہ یا تمام مومنین ہیں- پھر حضرتِ سیدنا علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم نے مزید فرمایا: 

اے صدیق اکبر! رضی الله عنہ جس وقت لوگوں نے بخل کیا آپ رضی الله عنہ نے سخاوت کی، لوگوں نے مصائب و آلام میں رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دیا لیکن آپ رضی الله عنہ رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ رہے- آپ رضی الله عنہ حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کی صحبت سے بہت زیادہ فیضیاب ہوئے- آپ رضی الله عنہ کی شان تو یہ ہے کہ آپ رضی الله عنہ کو ،، ثانی اثنین،، کا لقب ملا، آپ رضی الله عنہ یار غار ہیں، الله رب العزت نے آپ رضی الله عنہ پر سکینہ نازل فرمایا، آپ رضی الله عنہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت فرمائی، آپ رضی الله عنہ رسول اکرم صلی الله علیہ  وسلم کے رفیق و امین اور خلیفہ فی الدین تھے- آپ رضی الله عنہ نے خلافت کا حق ادا کیا، آپ رضی الله عنہ نے مرتدین سے جہاد کیا، حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد لوگوں کے لیے سہارہ بنے، جب لوگوں میں اداسی اور مایوسی پھیلنے لگی تو اس وقت بھی آپ رضی الله عنہ کے حوصلے بلند رہے- لوگوں نے اپنے اسلام کو چھپایا لیکن آپ رضی الله عنہ نے اپنے ایمان کا اظہار کیا- جب لوگوں میں کمزوری آئی تو آپ رضی الله عنہ نے ان کو تقویت بخشی، ان کی حوصلہ افزائی فرمائی اور انہیں سنبھالا-

آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے ہمیشہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں کی اتباع کی- آپ رضی الله عنہ رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کے خلیفہ برحق تھے- منافقین و کفار آپ رضی الله عنہ کے حوصلوں کو پست نہ کر سکے- آپ رضی الله عنہ نے کفار کو ذلیل کیا، باغیوں پر خوب شدت کی، آپ رضی الله عنہ کفار و منافقین کے لیے غیض و غضب کا پہاڑ تھے- لوگوں نے دینی امور میں سستی کی لیکن آپ رضی الله عنہ نے بخوشی دین پر عمل کیا- لوگوں نے حق بات سے خاموشی اِختیار کی مگر آپ رضی الله عنہ نے علی العلان کلمہ حق کہا، جب لوگ اندھیروں میں بھٹکنے لگے تو آپ رضی الله عنہ کی ذات ان کے لیے منارہ نور ثابت ہوئی- انہوں نے آپ رضی الله عنہ کی طرف رخ کیا اور کامیاب ہوئے، آپ رضی الله عنہ سب سے زیادہ ذہین و فطین، اعلیٰ کردار کے مالک، سچے، خاموش طبیعت، دور اندیش، اچھی رائے کے مالک، بہادر اور سب سے زیادہ پاکیزہ خصلت تھے- 

الله رب العزت کی قسم! جب لوگوں نے دین اسلام سے دوری اختیار کی تو سب سے پہلے آپ رضی الله عنہ ہی نے اسلام قبول کیا- آپ رضی الله عنہ مسلمانوں کے سردار تھے- آپ رضی الله عنہ نے لوگوں پر مشفق باپ کی طرح شفقتییں فرمائیں- جس بوجھ سے وہ لوگ تھک کر نڈھال ہوگئے تھے آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے انہیں سہارہ دے کر وہ بوجھ  اپنے کندھوں پر لاد لیا- جب لوگوں نے بے پروائی کا مظاہرہ کیا تو آپ رضی الله عنہ نے قوم کی باگ ڈور سنبھالی، جس چیز سے لوگ بے خبر تھے آپ رضی الله عنہ اسے جانتے تھے اور جب لوگوں نے بے صبری کا مظاہرہ کیا تو آپ رضی الله عنہ نے صبر سے کام لیا- جو چیز لوگ طلب کرتے آپ رضی الله عنہ عطا فرما دیتے- لوگ آپ رضی الله عنہ کی پیروی کرکے کامیابی کی طرف بڑھتے رہے اور آپ رضی الله عنہ کے مشوروں اور حکمت عملی کی وجہ سے انہیں ایسی ایسی کامیابیاں عطا ہوئیں جو ان لوگوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں- آپ رضی الله عنہ کافروں کے لیے درد ناک عذاب اور مومنوں کے لیے رحمت، شفقت اور محفوظ قلعے تھے- الله رب العزت کی قسم! آپ رضی الله عنہ اپنی منزلِ مقصود کی طرف پرواز کر گئے اور اپنے مقصود کو پالیا- آپ رضی الله عنہ کی رائے کبھی غلط نہ ہوئی، آپ رضی الله عنہ نے کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہ کیا- آپ رضی الله عنہ بہت نڈر تھے- کبھی نہ کبھراتے گویا آپ رضی الله عنہ جذبوں اور ہمتوں کا ایسا پہاڑ تھے جسے نہ تو آندھیاں ڈگمگاں سکیں نہ ہی سخت گرج والی بجلیاں متزلزل کر سکیں- آپ رضی الله عنہ بالکل ایسے ہی تھے جیسے حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے آپ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا- آپ رضی الله عنہ بدن کے اعتبار سے اگرچہ کمزور تھے لیکن الله تعالیٰ کے دین کے معاملے میں بہت زیادہ قوی و مضبوط تھے- آپ رضی الله عنہ اپنے آپ کو بہت عاجز سمجھتے لیکن الله تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ رضی الله عنہ کا رتبہ بہت بلند تھا اور آپ رضی الله عنہ لوگوں کی نظروں میں بھی بہت باعزت و وباقار تھے- 

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم نے آپ رضی الله عنہ کی تعریف کرتے ہوئے مزید فرمایا: آپ رضی الله عنہ نے کبھی کسی کو عیب نہ لگایا- نہ کسی کی غیبت کی اور نہ ہی کبھی لالچ کیا- بلکہ آپ رضی الله عنہ لوگوں پر بہت زیادہ مشفق و مہربان تھے، کمزور و ناتواں لوگ آپ رضی الله عنہ کے نزدیک محبوب اور عزت والے ہوتے- اگر کسی مالدار اور طاقتور شخص پر ان کا حق ہوتا تو انہیں ضرور ان کا حق دلواتے- طاقت اور شان وشوکت والوں سے جب لوگوں کا حق نے لیتے وہ آپ رضی الله عنہ کے نزدیک کمزور ہوتے- آپ رضی الله عنہ کے نزدیک امیر وغریب سب برابر تھے، آپ رضی الله عنہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ مقرب ومحبوب وہ تھا جو سب سے زیادہ متقی و پرہیز تھا- آپ رضی الله عنہ صدق و سچائی کے پیکر تھے- آپ رضی الله عنہ کا فیصلہ اٹل ہوتا، آپ رضی الله عنہ بہت مضبوط رائے کے مالک اور حلیم و بردبار تھے- الله رب العزت کی قسم! آپ رضی الله عنہ ہم سب سے سبقت لے گئے- آپ رضی الله عنہ کے بعد والے آپ رضی الله عنہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے- آپ رضی الله عنہ نے ان سب کو پیچھے چھوڑ دیا- آپ رضی الله عنہ اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ گئے- آپ رضی الله عنہ کو بہت عظیم کامیابی حاصل ہوئی، آپ رضی الله عنہ نے اس شان سے اپنے اصلی وطن کی طرف کوچ کیا کہ آپ رضی الله عنہ کی عظمت کے ڈنکے آسمانوں میں بج رہے ہیں اور آپ رضی الله عنہ کی جدائی کا غم ساری دنیا کو رلا رہا ہے- ہم ہر حال میں اپنے رب کے فیصلے پر راضی ہیں، ہر معاملے میں اس کی اطاعت کرنے والے ہیں- اے صدیق اکبر رضی الله عنہ! رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ رضی الله عنہ کی جدائی کا غم مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا غم ہے- آپ رضی الله عنہ کی ذات اہل اسلام کے لیے عزت کا باعث بنی، آپ رضی الله عنہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑا سہارا اور جائے پناہ تھے- الله رب العزت نے آپ رضی الله عنہ کی آخری آرام گاہ اپنے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے قرب میں بنائی- الله رب العزت ہمیں آپ رضی الله عنہ کی طرف سے اچھا اجر عطا فرمائے اور ہمیں آپ رضی الله عنہ کے بعد صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور گمراہی سے بچائے- آمین

لوگ حضرتِ سیدنا علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم کا کلام خاموشی سے سنتے رہے- جب آپ رضی الله عنہ نے خاموشی اختیار کی تو لوگوں نے زور و قطار رونا شروع کر دیا اور سب نے بیک زبان ہوکر کہا: اے حیدر کرار! آپ رضی الله عنہ نے بالکل سچ فرمایا- آپ رضی الله عنہ نے بالکل سچ فرمایا- 
                  (الریاض النضرة، جلد اول/ صفحہ نمبر، 262)

ایک بار حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله عنہ اور حضرتِ علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم کی ملاقات ہوئی تو آپ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم کو دیکھ کر مسکرانے لگے- حضرتِ سیدنا علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم نے پوچھا: آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے فرمایا: میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ پل صراط سے وہی گزرے گا جس کو علی المرتضیٰ تحریری اجازت نامہ دیں گے- یہ سن کر حضرتِ سیدنا علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم بھی مسکرا دئے اور عرض کرنے لگے: کیا میں آپ کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے آپ کے لیے بیان کردہ خوشخبری نہ سناؤں؟ کہ رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پل صراط سے گزرنے کا تحریری اجازت نامہ صرف اسی کو ملے گا جو ابو بکر صدیق سے محبت کرنے والا ہوگا-
               (الریاض النضرة، جلد اول/ صفحہ نمبر، 207)

امیر المومنین حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم کی دولتِ لازوال سے مالا مال تھے- حضورِ اقدس صلی الله علیہ واٰلہٖ وسلم نے وصال ظاہری کے بعد آپ کی مبارک زندگی میں سنجیدگی زیادہ غالب آگئی اور تقریباً دو سے سات ماہ پر اپنی باقی زندگی گزارنا آپ کو انتہائی دشوار ہوگیا- آپ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی یاد میں بے قرار رہنے لگے- حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ کی وفات کا سبب حقیقی حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ظاہری تھا- حضور صلی الله علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد سے آپ کا بدن مسلسل گھلنے لگا اور بالآخر آپ بھی دنیا سے وصال فرما گئے-

 
 iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter