مدارسِ اسلامیہ کا فکری رجحان

 مدارسِ اسلامیہ دینی تعلیم کے مراکز ہیں- اسلامی تعلیم اپنے آپ میں اتنی پرکشش اور ایسی طاقت رکھتی ہے کہ خود اپنے زور پر انسان کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے- دور حاضر میں مدارسِ اسلامیہ کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی گئیں ہیں وہ اصل میں خود مدارس کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہیں- اس کمی کا ایک سبب یہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے لوگ اپنی روایات کے تحت بند ماحول میں رہتے ہیں، وہ خارخی دنیا سے اختلاط نہیں کرتے، اس بنا پر ان کا حال یہ ہوگیا ہے کہ نہ وہ آج کی دنیا کو جانتے ہیں اور نہ جدید حالات کے مطابق اپنے ذہن کو تیار کرتے ہیں- اس علیحدگی پسندی کی بنا پر ان کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے- اس مسئلہ کا حقیقی حل صرف یہ ہے کہ مدارس کے ماحول کو بدلا جائے اور قدیم کے ساتھ جدید کو شامل کرنے کی کوشش کی جائے- مدارسِ اسلامیہ کو یا امت مسلمہ کو دور حاضر میں جو مسائل درپیش ہیں ان کی جڑیں بہت گہری ہیں-

      مدارسِ اسلامیہ کی ایک کوشش یہ ہونی چاہیے کہ تعلیم و تربیت کا بہتر سے بہتر انتظام ہو اور دوسری جانب برادرانِ وطن کے لیے دروازے کھلے ہوں جو غلط متعصبانہ ذہن نہیں رکھتے اور اپنی معلومات کے نتائج سے ہمدردانہ انداز میں صحیح طور پر ان لوگوں کو آگاہ کریں جو تعصب اور بددیانتی کی بناء پر فرقہ وارنہ فضا کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں- مدراس اسلامیہ کے ذمہ داران کو اپنے پیغام و عمل اور جد وجہد پر پختہ یقین ہونا چاہیے اور اس کی پختگی کے لیے مزید کوشش جاری رکھنی چاہیے، غلط پروپیگنڈا سے ہرگز متاثر نہیں ہونا چاہیے، البتہ اس سلسلے میں مدارسِ اسلامیہ کے دروازوں کو دوسروں کے لیے کھول دینا چاہیے تاکہ وہ خود آکر ان مدارسِ اسلامیہ کی کارکردگی، سرگرمی اور جد وجہد کا جائزہ لے سکیں اور سماج کے تئیں ان کی خدمات کو محسوس کر سکیں- اس کے لیے علاقہ کے مختلف غیر مسلم اہل فکر و دانش، سماجی کارکنان، سیاسی اور عملی شخصیات کو گاہے بگاہے دعوت دے کر ان کے سامنے طلبہ کی علمی صلاحیتوں و لیاقتوں کا مظاہرہ کرنا چاہیے نیز ایسے مذاکراتی پروگرام پیش کرنے چاہیے جس سے ان کے سامنے اسلامی تعلیمات کی وضاحت اور اچھے اقدار کی نمائندگی ہوسکے- 

      ہندوستانی مدارسِ اسلامیہ صدیوں سے اپنے دینی و علمی کاموں میں مصروف ہیں- ان کا اصل مشغلہ درس و تدریس، وعظ و نصیحت اور تبلیغ و ہدایت ہے- مختلف مکاتبِ فکر کے چھوٹے بڑے مدارس ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جو عام مسلمانوں کے مالی تعاون و امداد سے اپنے مصارف و اخراجات پورے کرتے ہیں- اپنے وطن اور ملک کے تعلق سے ان کا فکری رجحان وہی ہے جو ایک عام ہندوستانی مسلمان کا ہے کہ اپنے ملکی مفاد کا تحفظ کرو، اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لو، دل سے اسے چاہو اور پیار کرو ملکی وحدت و سالمیت کے خلاف کبھی کوئی قدم نہ اٹھاؤ، یہی وجہ ہے کہ سماجی ہم آہنگی کے لیے یہ مدارس پر امن بقائے باہم کے اصول پر عمل پیرا ہیں، اور یہ مدارس نہ سماج کے لیے اور نہ ہی ملک کے لیے کبھی کوئی پریشان کن مسئلہ بنے، بلکہ سماجی و ملکی مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں ان مدارس نے ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا- سماجی مسائل کے بارے میں مدارسِ اسلامیہ کا بظاہر کوئی فکری رول براہ راست نہیں اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں کہ مدارسِ اسلامیہ کے سامنے شعوری طور پر سماجی فلاح کا کوئی نقشہ موجود تھا- تاہم اس سلسلہ میں بالواسطہ طور پر ان کی خدمات کا حوالہ دیا جاسکتا ہے- مثلاً فتویٰ نویسی کے ذریعے رہنمائی، مساجد میں خطاب جمعہ، عوامی جلسے میں خطاب، مختلف تقریبات کے دوران اساتذہ اور طلبہ کا عوام سے انٹریشن، شادی بیاہ جیسی رسموں میں شرکت کے دوران وعظ و نصیحت اور رسالوں کے ذریعے تعلیم و صحت وغیرہ- سماجی سطح پر ہندوستان میں مدارسِ اسلامیہ کا فکری رجحان یہ رہا ہے کہ مسلمان بچوں کو دینی تعلیم بھی ہو اور صحیح تربیت بھی تاکہ وہ سن بلوغ کو پہنچ کر مسلم ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کر سکیں، مدارسِ اسلامیہ کی دینی و معاشرتی حیثیت نہایت درجہ اہم ہے اس لئے ان کا بہتر سے بہتر نظم و انصرام ہونا چاہیے اس کے بغیر کوئی دوسری صورت نہیں ہو سکتی جس سے صحیح معنوں میں بچے اور بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کی جاسکے- ہندوستان میں مدارسِ اسلامیہ کے رجحان کو مزید واضح اور عملی طور پر باکردار بنانے کی ضرورت ہے- 

       اب تک ہندوستان کے مدارسِ اسلامیہ میں دہشتگردی کی فکری یا عملی تعلیمات کا کوئی ثبوت نہ ملنے کے باوجود ملکی سطح پر کچھ عرصہ سے مدارسِ اسلامیہ پر مسلسل دہشتگردی کے فروغ کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں- اس کے اسباب و عوامل، اور اس ڈھٹائی کے پیچھے ان کے کئی مقاصد پنہاں ہیں- اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندوستانی مدارس کے خلاف سنکھ پریوار، وشوو ہندو پریشد، بھاجپا وغیرہ کے شور و غوغا اور انہیں دہشتگردی کا اڈہ کہنے کا ایک سیاسی اور ظاہری سب یہ ہے کہ جب افغانستان میں امریکہ مخالف طالبان حکومت قائم ہوئی تو امریکہ مشنری جس نے روس کے خلاف نبردآزما مجاہدین کی بے پناہ مالی و عسکری مدد کی تھی اس نے زوال روس کے بعد اپنا مقصد پورا ہوتا دیکھ کر افغانستان سے بے رخی برتنی شروع کر دی تھی وہ فوراً متحرک ہوئی اور مدارسِ اسلامیہ کو طالبان کا سر چمشہ قرار دینا شروع کر دیا کہ یہ سارے طالبانی پاکستانی مدارس کی پیداوار ہیں- اسی الزام کو ہندوستان میں سنگھ پریوار نے دہرانا شروع کیا- یہ بات اگر کسی حد تک صحیح بھی ہو تو افغانستان اور پاکستان جو مسلم مملک ہیں ان کے حالات و معاملات الگ ہیں، وہاں ایسا کرنے کے کچھ امکانات اور اسباب بھی ہیں جو ہندوستان میں قطعاً نہیں ہیں، اپنا ہندوستان جو ایک جمہوری اور ہندو اکثریتی ملک ہے اس کے سیاسی حالات ان دونوں ممالک سے مختلف ہیں اور اس طرح کی سرگرمیوں کی یہاں گنجائش بھی نہیں ہے، باقی ہندوستان میں اب تک کوئی چھوٹا سا بھی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا کہ کسی بھی مدرسے کی مینیجنگ باڈی یا ٹیچرس اسٹاف یا اسٹوڈنٹس یونین کسی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث پائی گئی ہو- اس لیے ان کے خلاف شکوک وشبہات کا اظہار اور ان کی وفادارئی وطن پر سوالیہ نشان لگانا خود اس کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شرانگیز و فتنہ خیز ذہنیت کار فرما ہے- یاد رہے کہ یہ مدارسِ اسلامیہ نہ دہشتگردی کی تعلیم دیتے ہیں نہ ہی یہ دہشتگردی کے اڈے ہیں- البتہ ایسا الزام لگانے والے مسلم دشمن تنظیمیں ضرور دہشتگردی کا ارتکاب کرتی رہتی ہیں- جس کے اسباب و عوامل ہمیشہ یہی رہے ہیں کہ مدارسِ اسلامیہ معاشرے کے لیے پاور ہاؤس کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے ان پر شب خون مارو، یہ مدارسِ اسلامیہ مسلم بچوں کو اسلامی تعلیم سے آراستہ کر کے انہیں سچا پکا مسلمان بناتے ہیں، اس لیے ان پر ناروا حملے کرتے رہو، یہ مدارسِ اسلامیہ سارے مسلمانوں کی تہذیبی و ملی شناخت کا اہم مرکز ہیں اس لیے ان کی بنیاد پر ضرب لگاؤ، اُردو زبان انہیں مدراس اسلامیہ کی بدولت کافی حد تک مستحکم ہے اور روز بروز فروغ پاتی جارہی ہے- اس لئے اس مرکز کو تاخت وتاراج کر ڈالو وغیرہ وغیرہ،

     یہ صحیح ہے کہ مدارس اسلامیہ میں دہشتگردی کی تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی، اس اعتبار سے مدارسِ اسلامیہ پر الزام لگانا غلط ہے، مگر اسی کے ساتھ یہ صحیح ہے کہ مدارس کے نظام میں عین وہی ذہن بنتا ہے جس کو جہادی ذہن کہا جاتا ہے، مدارسِ اسلامیہ کے لوگوں کو امت مسلمہ کے مسائل میں پرامن عمل کا کوئی شعور نہیں ہوتا، وہ دور جدید کے اس امکان سے ناآشان ہوتے ہیں کہ ہر میدان میں حصہ داری کے اصول پر کام کیا جانا چاہیے، لہٰذا! ان الزامات کی پوچھار کے اسباب اور الزامات کی وجہ بالکل واضح ہے کہ امت کو اس کے اصل سر چشمہ علم و معرفت سے الگ کردیا جائے، افراد امت کا رشتہ اس کے پاور ہاؤس سے کاٹ دیا جائے، مدارسِ اسلامیہ نہیں رہیں گے تو اعدائے اسلام کو اپنے باطل نظریات کی اشاعت میں آسانی ہوگی اور مدارسِ اسلامیہ کے نہ ہونے سے مسلمانوں کی بے رہروی کی درستگی کرنے والے آہستہ آہستہ مفقود ہو جائیں گے اور انہیں اس بات کا پختہ یقین ہے کہ جب تک یہ مدارس زندہ و پائندہ رہیں گے مسلمان مستحکم ہوں گے اور اعدائے اسلام اپنے باطل افکار و نظریات کی اشاعت میں کامیاب نہ ہو سکیں گے- 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter