جمعہ روحانی بیداری اور اجتماعی شعور کا دن
اسلام میں اگر کسی دن کو غیر معمولی فضیلت، خصوصی رحمت اور تاریخی گہرائی عطا کی گئی ہے تو وہ جمعہ کا دن ہے۔ اس دن کی بنیاد میں صرف عبادت کی فرضیت نہیں بلکہ وہ روحانی اسرار، تاریخی تسلسل، کائناتی فیصلے اور اجتماعی وحدت کے وہ تمام پہلو شامل ہیں جو ایک امت کے اخلاق و ایمان کردار اور اجتماعی شعور کو تازہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے جمعہ کو مسلمانوں کی ہفتہ وار عید قرار دیا اور اسی حقیقت کو قرآن نے سورۂ جمعہ میں ان الفاظ سے واضح فرمایا کہ جب جمعہ کی اذان ہو جائے تو تجارت چھوڑ کر الله کی یاد کی طرف بڑھو۔ یہ محض ایک حکم نہیں بلکہ اس امت کی تربیت کا وہ مرکزی نکتہ ہے جو انسان کو دنیا کی مصروفیات سے ایک لمحہ نکال کر اس حقیقت کی طرف بلاتا ہے کہ اس کی اصل دولت ایمان ،ذکر اور عبادت ہے۔ جمعہ کی عظمت صرف اس لیے نہیں کہ اسے نماز جمعہ کے ذریعے فرضیت کا شرف ملا بلکہ اس لیے کہ اس دن میں الله تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اور دنیا کی ابتدا کے بڑے فیصلے پوشیدہ رکھے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ جمعہ ہی کے دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن انہیں زمین پر اتارا گیا اور اسی دن قیامت برپا ہوگی۔ گویا یہ دن انسانی تاریخ کا نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطۂ انجام بھی۔ اس دن کا پیغام انسان کو اس حقیقت سے جوڑ دیتا ہے کہ اس کی تخلیق، امتحان، واپسی اور انجام سب کچھ تقدیرِ الٰہی کے زیرِ سایہ ہے۔ ایسی روحانی گہرائی والا دن اگر امت کی تربیت کے لیے رکھا گیا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ دن انسان کو محض ظاہری عبادت نہیں بلکہ وجود کی گہرائیوں تک جھنجھوڑنے کا پیغام دیتا ہے۔
جمعہ کے اعمال میں خطبہ وہ مرکزی حقیقت ہے جسے محض چند نصیحتوں کا مجموعہ سمجھ لینا ایک بڑی غلطی ہے۔ خطبہ دراصل وہ منبر ہے جس پر امت کے اجتماعی شعور کو بیدار کیا جاتا ہے، جہاں قرآن کی آیات دلوں کو تازہ کرتی ہیں، جہاں رسول الله ﷺ کی سنت کا بیان کردار کو پروان چڑھاتا ہے اور جہاں انسان اپنی ہفتہ بھر کی غفلت، غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازسرِ نو جائزہ لیتا ہے۔ خطبہ وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنی عملی زندگی کی خامیاں دیکھ کر انہیں درست کرنے کا عزم کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج بہت سے مسلمان خطبہ کے اس مقصد سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔ کچھ لوگ خطبہ سے پہلے پہنچنے کی سنت کو ترک کر کے آخری لمحے میں مسجد میں داخل ہوتے ہیں، کچھ صرف فرض نماز کو کافی سمجھ لیتے ہیں اور کچھ تو پوری نماز ہی اس غفلت میں گزار دیتے ہیں کہ جمعہ کا اصل مقصد کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جمعہ کی تیاری کو بھی عبادت کا درجہ دیا یہاں تک کہ غسلِ جمعہ کی فضیلت بیان فرمائی، خوشبو لگانے، پاکیزہ لباس پہننے اور مسجد میں جلد پہنچنے پر الله کی خصوصی رحمت کا ذکر کیا۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل کر کے جلدی مسجد میں جائے، خطبہ کے قریب بیٹھے، خاموشی سے سنے اور غیر ضروری بات نہ کرے اس کے لیے ہر قدم کے بدلے ایک سال کی نفل عبادت کا اجر لکھا جاتا ہے۔ یہ روایت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جمعہ کی عبادت صرف چند رکعتوں کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل روحانی سفر ہے جو انسان کو ظاہری پاکیزگی سے لے کر باطنی صفائی تک پہنچاتا ہے۔ جمعہ کے دن ایک ایسا مبارک لمحہ بھی رکھا گیا جسے نبی کریم ﷺ نے ساعتِ اجابت فرمایا۔ مسند احمد کی روایت ہے کہ اس گھڑی میں مانگی جانے والی دعا کو رد نہیں کیا جاتا۔ علما کی ایک بڑی تعداد کا رجحان ہے کہ یہ لمحہ عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک رہتا ہے۔ اس گھڑی کی اہمیت یہ ہے کہ الله تعالیٰ اپنے بندے کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ایک ہفتے کی کمزوریوں، غفلتوں اور مشکلات کے بعد اپنے رب سے تعلق کو تازہ کرے اور اپنے دل کی سچی آرزو کو الله کے حضور رکھے۔ یہ دن بندے اور رب کے درمیان روحانی قربت کا دروازہ ہے لیکن افسوس کہ بہت سے مسلمان اس عظیم گھڑی سے بے خبر رہتے ہیں، یا اسے ایک رسمی دعا کا موقع سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی کوتاہی اس دن کے ساتھ یہی ہے کہ انہوں نے جمعہ کے مقصد کو اپنی مصروفیات کے شور میں کھو دیا ہے۔ بازاروں میں خرید و فروخت اسی طرح جاری رہتی ہے جیسے یہ کوئی معمولی دن ہو، نوجوان جمعہ کی تیاری کی بجائے سستی اور غفلت کا شکار رہتے ہیں اور کئی لوگ صرف نمازِ جمعہ کو ادا کر کے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فریضہ پورا کر لیا۔ حالانکہ قرآن واضح طور پر حکم دیتا ہے کہ تجارت چھوڑ دو یعنی دنیاوی مصروفیت کو مؤخر کر کے الله کے ذکر کی طرف آؤ، پھر نماز کے بعد زمین میں منتشر ہو جاؤ۔ اس ترتیب میں ایک حکمت ہے کہ دنیا ایمان کے تابع ہو، نہ کہ ایمان دنیا کے تابع۔ جمعہ امت کا وہ روحانی مرکز ہے جہاں ہر مسلمان اپنی انفرادی کمزوری کو اجتماعی قوت میں تبدیل کر سکتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں امیر و غریب ایک صف میں کھڑے ہو کر اس حقیقت کا اعلان کرتے ہیں کہ الله کی بارگاہ میں سب برابر ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں دلوں کی گرہیں کھلتی ہیں، غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور ایمان کی حرارت بڑھتی ہے لیکن جب اس دن کو رسمی بنا دیا جائے، یا مسجد کی حاضری کمزور ہو جائے، یا خطبہ کے وقت غفلت عام ہو جائے تو امت کی وہ اجتماعیت بھی کمزور ہو جاتی ہے جو اس کی اصل قوت تھی۔ اگر مسلمان جمعہ کی روحانی حقیقت کو سمجھ لیں تو یہی دن ان کے کردار، اخلاق، معاشرت، عبادت اور اجتماعی حالت میں ایک نئی زندگی پھونک سکتا ہے۔ جمعہ کا دن الله کا عطا کردہ ایسا موقع ہے جو انسان کی پوری زندگی کا رخ بدلنے کی قدرت رکھتا ہے۔ یہ دن توبہ کی تجدید، دعا کی قبولیت، عمل کی اصلاح، اور ایمان کی تازگی کا دن ہے۔ امت جب تک اس دن کی عظمت کو دو بارہ دریافت نہیں کرے گی اس وقت تک وہ اپنے اجتماعی زوال کے دھارے کو رخ نہیں دے سکے گی۔
جمعہ کے دن کی عظمت دراصل امت کی عظمت ہے اور اس سے غفلت دراصل اپنے مقام سے دوری ہے۔ کاش ہم اس مقدس دن کی حقیقی قدر کو سمجھیں، اس کی روحانی روشنی کو اپنی زندگیوں میں اتاریں اور اسے اسی شان سے منائیں جس شان سے رسول اللہ ﷺ نے اسے امت کے لیے مقرر فرمایا۔ جب مسلمان اس دن کو اپنے دل، عقل، گھر، معاشرے اور عبادت کی زندگی میں وہ مقام دے دیں گے جو اس کا حق ہے تو یقیناً ان کی زندگیوں میں بھی وہی نور، وہی برکت اور وہی وقار لوٹ آئے گا جو کبھی امت کی پہچان تھا۔