غزہ کی ایک عمارت کی کہانی — بربادی کے درمیان انسانیت کی سانسیں
محبت کی گلی سے ملبے تک
غزہ شہر کی ایک پرسکون اور دلکش گلی میں واقع شیخ بلڈنگ کبھی محبت، اُمید اور زندگی کی علامت ہوا کرتی تھی۔ عمر المختار اسٹریٹ کے قریب، درختوں سے ڈھکی اس سڑک کو لوگ پیار سے "محبت کی گلی" کہتے تھے۔ یہاں شام کے وقت چہل پہل ہوتی، بچے کھیلتے، اور نوجوان جوڑے زندگی کے خواب بنتے۔
مگر آج، یہی گلی بربادی کی خاموش گواہ بن چکی ہے۔ کبھی روشنیوں سے جگمگانے والے ریستوران، دکانیں اور پارک اب ملبے کے ڈھیر ہیں۔ درختوں کی جگہ خاک اڑتی ہے اور عمارتوں کی جگہ چھیدوں سے بھری دیواریں باقی رہ گئی ہیں۔ شیخ بلڈنگ ابھی کسی طرح کھڑی ہے، مگر اس کے پتھروں پر خوف، بربادی اور درد کی تحریریں لکھی ہیں۔
حدیل دبان — چوتھی منزل کی پناہ گاہ
چوبیس سالہ حدیل دبان اپنے شوہر اور تین کم سن بچوں کے ساتھ اس عمارت کی چوتھی منزل پر رہتی ہیں۔ ان کا دوسالہ بیٹا محمد بمباری اور بھوک کے درمیان کھیلنا سیکھ رہا ہے۔
حدیل کہتی ہیں،
"یہاں دیواروں پر گولیاں لگتی ہیں، مگر خیمے سے بہتر ہے۔"
یہ جنگ کے دوران ان کی بارہویں پناہ گاہ ہے۔ ان کا اصل گھر التفاح محلے میں تھا، جو ابتدائی بمباری میں ملبہ بن گیا۔ ایک حملے میں ان کی ساس جاں بحق ہوئیں، بچے زخمی ہوئے، اور شوہر ملبے میں دب گئے۔ گھنٹوں کی تلاش کے بعد وہ زندہ ملے، مگر کوما میں تھے۔
حدیل انہیں لے کر الشفا اسپتال پہنچیں، مگر وہاں اسرائیلی افواج کی کارروائی شروع ہوگئی۔ دو ہفتے بعد جب فوج پیچھے ہٹی تو وہ دوبارہ اپنے شوہر سے مل سکیں۔ اب وہ علاج کے لیے جنوب جانا چاہتی ہیں، مگر اسپتال خالی ہیں، ڈاکٹر غائب ہیں۔
وہ کہتی ہیں:
"پہلے میرے ہمسائے میرے اپنے تھے، اب کوئی نہیں۔ سب بکھر گئے — کچھ مر گئے، کچھ چلے گئے۔"
مونا شبیت — پانچویں منزل کی جدوجہد
پانچویں منزل پر مونا امین شبیت اپنی اولاد اور پوتے پوتیوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کے کمرے کی دیواروں میں گولیوں کے سوراخ ہیں، فرش پر شیل کے ٹکڑے بکھرے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں:
"دو دن پہلے گولیاں سیدھی عمارت کے اندر آئیں۔ میں نے بچوں کو لپٹ کر کونے میں چھپایا، بس خدا سے دعا کرتی رہی۔"
ان کا علاقہ، التفاح، اب مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا ہے۔
مونا کے چہرے پر صبر کے آثار ہیں، مگر آواز میں درد چھپا نہیں۔
"ہم چمچ چمچ، پلیٹ پلیٹ زندگی جوڑ رہے ہیں۔ کبوتر کا دانہ پیس کر کھایا، جنگلی گھاس سے پیٹ بھرا۔ اب تو لگتا ہے کہ ہم زندہ نہیں، صرف سانس لے رہے ہیں۔"
ان کے بیٹے اور بیٹیاں مختلف سمتوں میں بکھر گئے ہیں — کوئی جنوب میں، کوئی کسی اجنبی کے گھر میں۔
"ہم بکھر گئے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ جدائی کا ہے۔ گھر، صحت، رشتے — سب کچھ ختم ہو گیا۔"
شوقت الانصاری — پہلی منزل کا دکھ
پہلی منزل پر شوقت الانصاری اپنی بیوی اور سات بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کا تعلق بیت لحیہ سے ہے، جو اب صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہے۔
وہ دھیمی آواز میں کہتے ہیں:
"میرا بھائی آٹا لینے گیا تھا، پھر کبھی واپس نہیں آیا۔ ہم نے ہر جگہ ڈھونڈا، مگر کچھ پتہ نہیں چلا۔"
ان کی آنکھوں میں خوف اور مایوسی کا عکس ہے۔ وہ اپنے بچوں کو دیکھتے ہیں، جو کبھی اسکول میں چمکتے ستارے تھے، اب خاموش اور بے روح ہیں۔
"پہلے وہ پڑھنے میں اچھے تھے، اب لکھنا اور گننا بھول گئے ہیں۔ نقل مکانی نے ان کی زندگی روک دی ہے۔"
ان کے لیے اب ہر دن ایک نیا خطرہ ہے، ہر رات ایک نئی آزمائش۔
پھر سے بے گھر — حدیل کا نیا سفر
چند دن بعد، حدیل کا فون آیا۔ ان کی آواز کانپ رہی تھی۔
"فوج علاقے میں داخل ہونے والی ہے، میں نے دوبارہ سامان باندھ لیا ہے۔ اگر آج نہ نکلے تو کل ٹینک دروازے پر ہوں گے۔"
اور وہ پھر نکل پڑیں — اپنے بچوں کے ساتھ، چند بستروں اور پرانی تصویروں کے ساتھ — کسی نئی پناہ گاہ، کسی نئے خواب کی تلاش میں۔
"ہم جہاں جائیں، خیمہ ہی ہمارا گھر ہے۔ مگر جو ہمارے اندر ٹوٹ گیا، وہ کبھی نہیں بنے گا۔"
ملبے میں بھی امید کی سانس
شیخ بلڈنگ اب محض ایک عمارت نہیں رہی؛ یہ غزہ کے بکھرے خوابوں، اجڑے چہروں اور خاموش چیخوں کی علامت ہے۔ اس کی ہر منزل ایک الگ کہانی سناتی ہے — صبر کی، قربانی کی، اور اس انسانیت کی جو ملبے میں بھی زندہ ہے۔
جنگ کے بعد بھی اگر امن قائم ہو جائے، تو بھی ان دلوں کی ویرانی بھرنا آسان نہیں۔ کیونکہ جنگ نے صرف گھروں کو نہیں گرایا، بلکہ انسانوں کے اندر کے انسان کو بھی توڑ دیا ہے۔
یہ صرف ایک عمارت کی کہانی نہیں — یہ غزہ کی روح کی کہانی ہے۔
وہ غزہ، جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا، جہاں محبت کی گلیاں تھیں، جہاں بچوں کی ہنسی گونجتی تھی۔
آج وہی غزہ آنسوؤں کا سمندر ہے — مگر اس کی لہروں میں اب بھی انسانیت کی سانس باقی ہے، اور شاید یہی سانس کسی آنے والے کل کی اُمید ہے۔