خاک و خون میں لپٹی امید - اہلِ غزہ کی استقامت کا سفر

دو برس بیت گئے، مگر غزہ کی سرزمین پر بہنے والا لہو اب بھی خشک نہیں ہوا۔ یہ دو سال، انسانیت کے ضمیر پر بھاری ترین بوجھ بن کر گزرے ہیں۔ ان دو برسوں میں دنیا نے وہ مناظر دیکھے جنہوں نے تاریخ کے اوراق کو لہو میں رنگ دیا۔ ماؤں کے آنچل لہو میں تر ہوئے، بچوں کے چہرے ملبے تلے مسکراہٹوں سمیت دفن ہوگئے، باپ اپنے خاندان کے اجڑے ہوئے گھروں کے سامنے بے بسی سے زمین پر بیٹھ کر صرف اتنا کہہ سکے — "حسبنا اللہ ونعم الوکیل

غزہ، جو کبھی زندگی کی ایک دھڑکن تھا، آج موت کے سناٹے میں ڈوبا ہوا ہے۔ اسکولوں کی گھنٹیاں خاموش ہوچکی ہیں، اسپتالوں کے کمرے ملبے میں بدل گئے، عبادت گاہوں پر بم برسے، اور انسانیت کے دعویداروں کے کانوں تک نہ کوئی چیخ پہنچی نہ کوئی آہ۔ اسرائیل کی ریاستی درندگی نے ان دو برسوں میں وہ ظلم ڈھائے جنہیں دیکھ کر فرعون اور نمرود کی روحیں بھی کانپ اٹھتیں۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، حتیٰ کہ نومولودوں تک کو نشانہ بنایا گیا۔ ہزاروں بے گناہ شہید کر دیے گئے، لاکھوں گھر برباد ہوئے، اور پوری آبادی کو جبراً بھوک، پیاس اور بے وطنی میں دھکیل دیا گیا۔

غزہ کے اسپتالوں پر بمباری، ایمبولینسوں کو نشانہ بنانا، ڈاکٹروں اور صحافیوں کا قتل، امدادی قافلوں کی راہ میں رکاوٹ — یہ سب صرف جنگی جرائم نہیں، بلکہ انسانیت کے جنازے کا اعلان ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں میں قراردادیں آئیں، مذمتیں ہوئیں، مگر عمل کا نام نہ آیا۔ عالمی طاقتوں نے انصاف کے ترازو کو مفادات کے بوجھ تلے دفن کردیا۔

لیکن دوسری طرف دیکھو — اس خاک و خون کے بیچ بھی ایمان کے چراغ جل رہے ہیں۔ بچے جو یتیم ہو گئے، وہ اب بھی شہادت کے نغمے گاتے ہیں۔ مائیں جو اپنے لختِ جگر کھو چکی ہیں، وہ اپنے آنسو چھپاکر کہتی ہیں: "یہ اللہ کی راہ میں قربانی ہے۔" مرد جو اپنے گھروں کو کھو چکے، وہ پھر بھی کہتے ہیں: "ہم غزہ والے ہیں، ہم شکست نہیں کھاتے۔"یہی وہ جذبہ ہے جو دنیا کی تمام طاقتوں کو حیران کیے ہوئے ہے۔

یہ دو سال صرف جنگ نہیں تھے — یہ ایمان اور کفر، حق اور باطل، صبر اور ظلم کے درمیان ایک تاریخی معرکہ تھا۔ اسرائیل نے غزہ کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر غزہ والوں نے ثابت کیا کہ مٹی کو جلایا جا سکتا ہے، مگر ایمان کو نہیں۔

دنیا بھر میں فلسطین کے لیے اٹھنے والی آوازیں، یورپ، امریکہ، ایشیا اور افریقہ کی سڑکوں پر نکلنے والے لاکھوں لوگ — یہ سب اس بات کا اعلان ہیں کہ غزہ اکیلا نہیں۔ ظلم کے مقابلے میں اگرچہ دنیا کی حکومتیں خاموش ہیں، مگر عوام کے دلوں میں غزہ کے لیے محبت، غیرت اور درد کی آگ دہک رہی ہے۔

آج غزہ صرف ایک شہر نہیں، بلکہ ایک علامت بن چکا ہے — صبر کی، مزاحمت کی، اور ایمان کی۔ وہ لوگ جن کے پاس نہ بجلی ہے، نہ پانی، نہ دوا، نہ پناہ — مگر ان کے دلوں میں ایمان کا نور ہے جو کسی بم سے نہیں بجھایا جا سکتا۔

غزہ کے یہ دو سال تاریخ میں ایک ایسا باب ہیں جو دنیا کے ضمیر پر ہمیشہ کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب زمین چیخی، آسمان رویا، مگر انسانیت کے خودساختہ محافظ خاموش رہے۔ اور اس خاموشی میں غزہ کے شہیدوں کی صدائیں آج بھی گونجتی ہیں:

"ہم زندہ ہیں، جب تک حق زندہ ہے۔ ہم غزہ والے ہیں، ہم اللہ کے سپاہی ہیں۔"

خون، خاک اور دعا - غزہ کے دو سال کی داستان

یہ داستانِ غزہ محض ایک سرزمین کی نہیں بلکہ انسانیت کے دل پر لگے زخموں کی ہے۔ دو برس بیت گئے، مگر آج بھی غزہ کی فضاؤں میں دھواں، چیخیں، آہیں اور درد کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کی وہ صبح دنیا کے ضمیر کو ہلا گئی جب اچانک اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والے تصادم نے پوری غزہ پٹی کو آگ میں جھونک دیا۔ اس کے بعد شروع ہونے والا اسرائیلی حملوں کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پورے کے پورے علاقے ملبے میں تبدیل ہوگئے، معصوم بچوں کی لاشیں ماؤں کی گودوں سے چھین لی گئیں، عورتوں کے سروں سے چادریں، گھروں سے دیواریں، اور بوڑھوں کے چہروں سے مسکراہٹیں چھین لی گئیں۔

دو برس کے عرصے میں جو کچھ غزہ میں ہوا، وہ تاریخِ ظلم و بربریت کا سب سے سیاہ باب ہے۔ غزہ کے تقریباً 92 فیصد علاقے کو زمین بوس کر دیا گیا۔ وہ گلیاں جہاں کبھی بچوں کے قہقہے گونجتے تھے، آج ویرانی کی تصویریں بن چکی ہیں۔ اسکول، ہسپتال، یونیورسٹیاں، عبادت گاہیں سب ملبے میں دب چکی ہیں۔ ایک طرف بمباری سے مٹی کا ڈھیر، دوسری طرف قحط، پیاس اور بھوک سے بلکتے لوگ۔ غزہ میں پانی اور خوراک کی شدید قلت نے لوگوں کو موت اور زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا۔ بجلی کے نظام کے تباہ ہونے سے راتیں تاریکی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ بچوں کو دوائی نہیں، زخموں کے لیے مرہم نہیں، حاملہ عورتوں کے لیے محفوظ مقام نہیں۔ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ایک پورا علاقہ آہستہ آہستہ مٹ رہا ہے۔

ہسپتال جو انسانیت کے آخری قلعے ہوتے ہیں، خود جنگ کا ہدف بن گئے۔ ایمبولینسیں ملبے میں دفن ہوئیں، ڈاکٹر اور نرسیں جو دوسروں کو بچانے نکلے تھے، خود بمباری کا شکار ہو گئے۔ علاج کے لیے آنے والے مریض دھماکوں میں دم توڑ گئے۔ ادویات ختم ہو گئیں، طبی عملہ تھک گیا، مگر امید کا چراغ پھر بھی بجھنے نہ دیا۔ صحافی جو دنیا کے سامنے سچ دکھانے نکلے تھے، ان پر گولیاں برسا دی گئیں۔ ان کے کیمرے ٹوٹ گئے مگر ان کی آوازیں دنیا کے ضمیر پر نقوش چھوڑ گئیں۔

غزہ کے لوگوں نے نقل مکانی کے درد کو بھی جھیلا۔ لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے۔ کچھ جنوب کی طرف نکلے، کچھ رفح کی سرحد پر خیموں میں قید ہو گئے۔ خیمے جو بارش میں بہہ جاتے ہیں، دھوپ میں جل اٹھتے ہیں، مگر پھر بھی ان میں زندگی کی امید سانس لیتی ہے۔ عورتیں بچوں کو ملبے میں جنم دیتی ہیں، بوڑھے اپنے جوانوں کی لاشوں پر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، اور بچے کھلونوں کی جگہ پتھروں سے کھیلنے لگے ہیں۔

اس دوران اسرائیل نے غزہ پر مکمل ناکہ بندی قائم رکھی۔ نہ خوراک کی اجازت، نہ ایندھن، نہ بجلی۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بار بار متنبہ کیا کہ یہ صورتحال قحط، وبا اور اجتماعی نسل کشی کے خطرے میں بدل رہی ہے۔ مگر عالمی طاقتوں کے ایوانوں میں خاموشی چھائی رہی۔ سکیورٹی کونسل کی قراردادیں مسودے کی حد تک رہ گئیں۔ بڑے ممالک کے بیانات میں "افسوس" کے الفاظ تو تھے مگر کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل پر جنگی جرائم کے الزامات لگائے، مگر ان الزامات کا انجام وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے — بین الاقوامی سیاست کی دیواروں میں گم۔

دو سال کے دوران وقفے وقفے سے جنگ بندی کے اعلانات بھی ہوئے۔ ایک مختصر وقفے میں امدادی سامان پہنچنے لگا، کچھ قیدیوں کا تبادلہ ہوا، مگر چند دن بعد ہی بمباری دوبارہ شروع ہو گئی۔ ہر جنگ بندی، ہر وعدہ، ہر امید ایک نئے دھوکے میں بدل گئی۔ رفح، خان یونس، بیت حانون، جبالیا — کوئی خطہ محفوظ نہ رہا۔ اسرائیلی افواج نے گھروں کو نشانہ بنایا، اسکولوں میں پناہ لینے والے خاندانوں پر بم برسائے، اور ہسپتالوں کے اندر تک گولیاں چلائیں۔

ان سب مظالم کے باوجود اہلِ غزہ کی ثابت قدمی تاریخ کا روشن باب بن چکی ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ ایک قوم کس طرح اپنی سرزمین، اپنی عزت، اپنے ایمان کے لیے سب کچھ قربان کر سکتی ہے۔ عورتیں اپنے شہید شوہروں کی لاشوں کو اٹھا کر کہتی ہیں "ہم نہیں جھکیں گے"، بچے ملبے میں کھیلتے ہوئے کہتے ہیں "یہ میرا وطن ہے"، اور نوجوان جلتی زمین پر چل کر بھی آسمان کی طرف امید سے دیکھتے ہیں۔ یہی استقامت ہے جو اسرائیل کے سارے ہتھیاروں سے بڑی ہے۔

دنیا بھر میں اس ظلم کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں۔ نیویارک، لندن، پیرس، استنبول، دوحہ، کراچی، جکارتہ — ہر شہر میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ نے احتجاج کیا، انسانی زنجیریں بنائیں، مسجدوں اور کلیساؤں میں دعائیں کی گئیں۔ مگر سیاست کے منجمد ایوانوں تک یہ صدائیں بہت کم پہنچ سکیں۔ کچھ ممالک نے امدادی سامان بھیجا، کچھ نے سفارتی دباؤ ڈالا، مگر کسی نے اسرائیل کے ہاتھ روکنے کی عملی جرات نہ دکھائی۔

دو برس کی یہ طویل داستان انسانی تاریخ کی ایک ایسی چیخ ہے جسے دبایا نہیں جا سکتا۔ لاکھوں شہیدوں کے خون نے غزہ کی زمین کو سرخ کر دیا ہے، مگر ان کی قربانی نے ایک نئی بیداری کو جنم دیا ہے۔ آج دنیا کے ہر بیدار دل میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ کب تک طاقتور کمزوروں کو روندتا رہے گا؟ کب تک عالمی ادارے انصاف کے نام پر خاموش رہیں گے؟ اور کب تک ایک قوم اپنے بچوں کو دفن کر کے بھی صبر کا علم بلند رکھے گی؟

غزہ کی ماؤں کی آہیں آسمان تک پہنچ چکی ہیں۔ بچے جو شہید ہو گئے، وہ تاریخ کے گواہ ہیں۔ وہ بتائیں گے کہ دنیا نے ظلم دیکھا اور خاموش رہی۔ مگر وہ یہ بھی دکھائیں گے کہ فلسطین کی روح کبھی شکست نہیں کھاتی۔ ان کے لہو سے اگنے والے شجرِ حریت ایک دن سایہ ضرور دیں گے۔ ظلم چاہے کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو، حق کا سورج ایک دن طلوع ضرور ہوتا ہے۔ غزہ آج جل رہا ہے، مگر اسی آگ سے امید کی نئی روشنی جنم لے رہی ہے — وہ روشنی جو دنیا کو پھر انسانیت کی پہچان یاد دلائے گی۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter