مفتی سلمان ازہری کی حراست سراسر غیر قانونی
اللہ کے رسول نے فرمایا میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ہیں۔ علماء امت انبیاء کرام کے وارثین بھی ہے۔ انہیں علمائے کرام کے دم سے دنیا میں عالم اسلام کا بول بالا ہے۔ انہیں کی محنتوں، محبتوں اور شفقتوں کا یہ رنگ ہے کہ آج کے اس پر فتن دور میں بھی یورپ و ایشیا کے لاکھوں لوگ روزآنہ دامن اسلام سے وابستہ ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ انہیں کے دم قدم سے مساجد و مدارس منبر و محراب میں رونقیں ہیں۔ ان علمائے امت کا ہی یہ کارنامہ ہے کہ آج بھی مساجد سے اذانوں کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں اور مدارس میں قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہے۔
محافظ ناموس رسالت علامہ مولانا مفتی سلمان ازہری صاحب حفظہ اللہ کی گرفتاری کی خبر یقیناً عالم اسلام کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں۔ یہ ایک عظیم شخصیت ہے جنہوں نے نبی کریم کی ذات پر ہونے والے حملوں کا دندان شکن جواب دیا اور باطل کی صفوں میں ہلچل پیدا کردی۔ گستاخ رسالت کو للکار دیا اور خود کو باطل کے لیے تلوار کیا۔ دوستوں کے لیے نہایت ہی شفیق و حبیب اور دشمنوں کے لیے تیغ حیدری کی مار ہے سلمان ازہری۔ ہر سنی کے دل کی دھڑکن اور کفر کے دلوں کو چیر دینے والی آواز ہے سلمان ازہری۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اب بھگوا داری لوگوں نے محافظ ناموس رسالت کو اپنی نفرت کا نشانہ بنایا اور اُنکی ایک بات کو لیکر اُنکے خلاف Fir درج کرا دی حالانکہ انہوں نے جو شعر کہا تھا اسکا مقصد کسی خاص قوم کے جذبات کو مجروح کرنا نہیں تھا اور نا ہی کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنا تھا۔ اُنہوں نے بس ایک شعر کہا اور شر انگیز ذہنیت رکھنے والے لوگوں نے ایک سازش کے تحت اُنکے خلاف مقدمہ دائر کردیا اور اب اس عظیم عالم دین کو تین دنوں سے مکمل قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑھ رہی ہے۔
علمائے کرام کا جیل میں جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کو بھی جیل کا دورہ کرنا پڑا تھا۔امیر المجاھدین علامہ خادم حسین رضوی کو بھی باطل کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا اور اب مفتی سلمان ازہری بھی باطل حکومت کی پراگندہ سازش کا نشانہ بن گئے ہیں۔ مگر یہ سوال ہمارے ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ آخر ایک شعر کہہ دینا کیا بہت بڑا گناہ ہے۔ کیا مجلس میں شعر کہہ دینا ہندوستانی آئین کے خلاف ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔
سلمان ازہری صاحب کا جرم یہ نہیں ہے کہ اُنہوں نے شعر کہا بلکہ انکا جرم یہ ہے کہ وہ ایک مسلمان ہے اور حکومت ہند کو اُن سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ ورنہ تو اس ملک میں کئی ایسے نامور بابا، وزراء اور نیتا موجود ہے بلکہ سکون کا سانس لے رہے ہیں اور مکمل سرکاری حفاظت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جنہوں ماضی قریب میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز اور بھڑکاو بیان دیے کبھی کوئی کہتا ہے کے اسلام کو ختم کردیا جائے تو کبھی کوئی وزیر علی الاعلان کہتے ہوئے نظر آتا ہے" دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو" مگر انکے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ مساجد و مدارس کو نشانہ بنایا جانا بھی جرم نہیں ہے۔ مذہب اسلام کے ماننے والوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنا بھی کوئی جرم نہیں ہے بلکہ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس ملک میں صرف ایک ہی جرم ہے اور وہ ہے" مسلمان" ہونا۔ اگر آپ مسلمان ہے تو آپ مجرم ہے آپ دہشتگرد ہیں آپ دیش کے غدّار ہیں حالانکہ ہم ببانگ دہل کہتے ہیں
ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹّی کو ہندوستان کہتے ہیں۔
ہمارا ماننا ہے کہ سلمان ازہری صاحب کو بلا وجہ حراست میں لیا گیا ہے اور ہم سرکار اور پولیس سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ اُنہیں جلد سے جلد رہا کردیا جائے۔ ہم تمام مسلمانوں سے بھی یہ گزارش کرتے ہیں ایک جٹ ہوکر اس مرد مجاہد کے حق میں آواز اٹھائیں اور جلد از جلد مفتی سلمان ازہری صاحب کی رہائی کی مانگ کریں۔
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو