واقعۂ کربلا معتبر و مستند روایات کی روشنی میں
محرم الحرام ایک معظم اور بابرکت مہینہ ہے، کیوں کہ یہ مہینہ اُن اشہر الحرم میں سے ہے جنہیں تمام اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے، اور یہ اسلامی سال کا ابتدائی مہینہ بھی ہے، اس مہینہ کے آتے ہی تمام عاشقان اہل بیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اپنے گھروں، گاؤں، اور شہروں میں ایصال ثواب کا اہتمام و انصرام کرتے ہیں، بايں نسبت یاد امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں جلسوں اور محفلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں خطباء و مقررین ذکر شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ کرتے ہیں، یہ سارے کام مستحب و مستحسن ہیں، لیکن دور جدید میں کچھ ایسی کتب کا زور و شور ہے جس میں غیر مستند اور منگھڑت روایات موجود ہیں، جن کو پڑھ کر یا خطباء کی زبانی سن کر عوام میں ماتم جیسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے، ایسی منگھڑت روایات کا بیان کرنا ناجائز ہے-
مختصر واقعہ کربلا: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال فرما جانے کے بعد یزید پلید تخت نشین ہوا، امام عالی مقام حضرت امام مسلم کا خط مل جانے کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ رات کے وقت کوفہ روانہ ہو رہے تھے، اُدھر کوفہ کے حالات کے بارے میں یزید کو خبر دے دی گئی، یزید نے عبد اللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم بنا کر روانہ کر دیا، اور کہا کہ "یا تو مسلم کو شہید کرے یا کوفہ سے نکال دے" اب کیا تھا ابن زیاد کے آتے ہی اُس کے ظلم و ستم اور زبردستی کی وجہ سے کوفہ والوں نے دھیرے دھیرے حضرت امام مسلم کا ساتھ چھوڑ دیا، یہاں تک کہ امام مسلم کو شہید کر دیا گیا، اُدھر راستے میں ابن اشعث کا بھیجا ہوا آدمی ملا، جس نے امام عالی مقام کو حضرت امام مسلم کی شہادت کی خبر دی، شہادت کی خبر سن کر آپ کے بعض ساتھیوں نے آپ کو وہیں سے پلٹ جانے کو کہا، لیکن حضرت امام مسلم کے عزیزوں نے کہا: ہم کسی بھی حالت میں نہیں پلٹ سکتے، یا تو امام مسلم کے ناحق خون کا بدلہ لیں گے، یا ہم بھی امام مسلم سے جا ملیں گے، یہ سن کر امام عالی مقام نے اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا: کہ "ہمیں کوفیوں نے چھوڑ دیا ہے اب جس کا جی چاہے پلٹ جائے، ہمیں کچھ ناگوار نہ ہوگا" یہ سن کر آپ کے بہت سے ساتھی وہیں سے واپس ہو گئے، آپ کے ساتھ صرف وہی لوگ رہ گئے جو مکہ مکرمہ ہم راہ رکاب سعادت مآب تھے-
راستے میں کافی لوگوں سے ملاقات ہوئی، آخر آپ دو محرم الحرام کو مقام کربلا پہنچے، تین محرم الحرام کو ابن سعد چار ہزار کا لشکر لے کر امام حسین کو شہید کرنے کے لیے کربلا پہنچ گیا تھا اُس کے بعد یکے بعد دیگرے برابر کمک پہنچتی رہی، یہاں تک کہ ابن سعد کے پاس 22 ہزار کا لشکر جمع ہو گیا، اِدھر امام عالی مقام کے پاس صرف 82 لوگ تھے جس میں عورتیں اور بچے بھی تھے، اور جنگ کے ارادے سے بھی نہیں آئے تھے اسی لیے لڑائی کا سامان بھی ساتھ نہیں تھا، آپ کے حوصلے اور ہمت کو توڑنے کے لیے آپ پر آپ کی شہادت سے تین دن پہلے پانی بند کر دیا گیا-
امام عالی مقام نے ابن سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ آج رات ہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں، ابن سعد نے یہ بات مان لی اور رات کے وقت اپنے سواروں کے ساتھ دونوں لشکروں کے بیچ میں آیا اور آپ بھی اپنے بیس سواروں کے ساتھ تشریف لے گئے، پھر دونوں نے اپنے اپنے ساتھیوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیا، اور تنہائی میں دیر تک گفتگو کرتے رہے، امام عالی مقام نے ارشاد فرمایا: کہ میں تین باتیں پیش کرتا ہوں، اُن میں سے تم جسے چاہو میرے لیے منظور کر لو۔
(1) جہاں سے آیا ہوں مجھے وہاں واپس جانے دو-
(2) مجھے کسی سرحدی مقام پر لے چلو میں وہیں رہ کر وقت گزار لوں گا-
(3) مجھے سیدھا یزید کے پاس دمشق جانے دو،
یہ سن کر ابن سعد نے اقرار کیا کہ آپ صلح کے راستے پر ہیں، اُس نے یہ ساری باتیں خط میں لکھیں اور آخر میں اپنی رائے بھی تحریر کی، کہ اب اختلاف کی کوئی وجہ نہیں ہے، اور خط ابن زیاد کے پاس بھیج دیا، ابن زیاد نے خط پڑھا اور باتیں منظور کرنے کے لیے راضی ہو گیا لیکن بدبخت شمر کے بہکانے کی وجہ سے ابن زیاد کا ارادہ بدل گیا اور اس نے ابن سعد کے کو لکھا کہ میں نے تم کو اس لیے نہیں بھیجا کہ تم فریقین میں صلح کراؤ، اگر وہ ہماری بات مانیں تو ٹھیک ورنہ اُن سب کے سر کاٹ کے میرے پاس بھیج دو، اور اگر یہ کام تم نہیں کر سکتے تو لشکر شمر کے حوالے کر دو وہ یہ کام انجام دے گا، ابن سعد نے جب یہ خط پڑھا، تو دنیوی لالچ کی وجہ سے خود یہ کام کرنے کے لیے راضی ہو گیا، اور لشکر لے کر امام عالی مقام سے جنگ کرنے کے لیے جا پہنچا، امام علی مقام نے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ خوب عبادت و ریاضت، توبہ و استغفار کر سکیں، اور اچھی طرح دعا مانگ سکیں، تو انہوں نے ایک رات کی مہلت دے دی۔
دس محرم الحرام کی صبح: یوم عاشورہ کی رات گزری اور دسویں کی صبح نمودار ہوئی، جمعہ کا دن تھا امام عالی مقام نے اپنے ساتھیوں اور اہل خانہ کے ساتھ نہایت ہی خشوع وخضوع سے فجر کی نماز ادا فرمائی، اُس کے بعد امام عالی مقام اپنے خیمہ کے باہر بہتر ساتھیوں، بتیس سواروں اور چالیس پیادوں کا لشکر ترتیب دے رہے تھے، حکم دیا گیا کہ خندق کی لکڑیوں (جو خمیوں کے پیچھے کھودی گئی تھی) میں آگ لگا دی جائے تاکہ دشمن پیچھے سے راہ نہ پائے۔ امام عالی مقام اتمام حجت کے لیے اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور قوم اشقیا کی طرف تشریف لے گئے، قریب پہنچ کر ارشاد فرمایا: اے لوگوں ذرا صبر سے کام لو، میرا نسب بیان کرو، سوچو تو کہ میں کون ہوں؟ اپنے گریبان میں منھ ڈالو کیا میرا قتل تمہیں رواں ہو سکتا ہے ؟ میری بے حرمتی تمہیں حلال ہو سکتی ہے ؟ کیا میں۔تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ نہیں؟ کوفیوں نے کہا: "جب تک ہم تمہیں قتل نہیں کر دیں یا مطیع بنا کر ابن زیاد کے پاس نہ بھیج دیں ہم یہاں سے نہیں ہیٹں گے" اب ابن سعد نے اپنے لشکر کو امام عالی مقام کی طرف حرکت دی، تو حر نے ابن سعد سےکہا: تجھ پر خدا کی مار ہو کیا تو ان سے لڑے گا ؟ اُس نے جواب دیا: ہاں میں لڑوں گا، حر نے کہا: جو تین باتیں اُنہونے پیش کی تھیں کیا تجھے منظور نہیں ؟ اُس نے کہا: اگر میرے اختیار میں ہوتا تو مان لیتا۔ یہ سن کر حضرت حر نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو گئے، اور عرض کی: حضور میں آپکا وہی خادم ہوں جس نے آپکو واپس نہ جانے دیا، آپ کو حراست میں لیا، خدا کی قسم اگر مجھے ایسا معلوم ہوتا کہ یہ آپکی کوئی بھی بات نہیں مانیں گے تو میں ہرگز آپکو جانے سے نہیں روکتا، اب میں تائب ہو کر حاضر آیا ہوں اور آپ پر اپنی جان نچھاور کرنا چاہتا ہوں۔ کیا یہ میری توبہ حضور کے نزدیک مقبول ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمانے والا اور گناہوں کو بخشنے والا ہے۔
پھر کیا تھا جنگ کا آغاز حضرت حر پر پتھر چلا کر کیا گیا، حضرت حر نے ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش فرما گئے، حضرت حر کی شہادت کے بعد سخت لڑائی شروع ہوئی، دشمن کٹتے جاتے اور آگے بڑھتے جاتے، یہاں تک کہ ایک ایک کر کے آپکے تمام جانثار شہید ہو گئے، اب چمن رسالت کے مہکتے ہوئے پھولوں کی شہادت کی ابتدا شروع ہوئی۔ حضرت علی اکبر شیر کی طرح دشمنوں سے لڑتے لڑتے واپس امام حسین کی بارگاہ میں تشریف لائے اور آپ کی گود میں جام شہادت نوش فرمایا: دھیرے دھیرے اس چمن کے سارے پھول امام حسین کی نظروں کے سامنے شہید ہو گئے۔
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت: امام حسین نے میدان جنگ میں جانے کی تیاری کی، اور اپنے اہل خانہ سے آخری ملاقات کے بعد صبر کی تلقین فرما کر میدان جنگ میں تشریف لائے، تین دن کے پیاسے تھے، آپ کو دشمنوں نے چاروں اطراف سے گھیر لیا، اور آپ پر حملہ کیا، حضرت علی کا شیر بجلی بن کر اُن پر ٹوٹ پڑا، آپ حملہ کرتے گئے اور یزیدیوں کی لاشیں گرتی گئیں۔ جب شمر ملعون نے کام نکلتا نہ دیکھا تو غصّہ کر چلایا: تمہاری مائیں تم کو پیٹیں، کیا انتظار کر رہے ہو حسین کو قتل کرو۔ اب چاروں طرف سے ظلمت کے ابر اور تاریکی کے بادل فاطمہ (سلام اللہ علیھا) کے لال پر چھا گئے، امام عالی مقام بہت تھک گئے تھے، ۲۳ زخم نیزے کے، ۳۴ گھاؤ تلواروں کے لگے ہیں، اور تیروں کا کوئی شمار ہی نہیں، اٹھنا چاہتے ہیں پھر گر پڑتے ہیں۔ اسی حالت میں سنان بن انس نخعی شقی ناری نے نیزہ مارا کہ وہ عرش کا تارہ زمین پر ٹوٹ کر گرا۔ سنان مردود نے خولی بن یزید سے کہا: سر کاٹ لے۔ اُس کا ہاتھ کانپا، سنان ولد الشیطان بولا: تیرا ہاتھ بیکار ہو، اور خود گھوڑے سے اُترا، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسے، تین دن کے پیاسے کا سر انور جسم پاک سے جدا کر دیا (انا للہ وانا الیہ راجعون) شہادت کے بعد کے واقعات بہت طویل ہیں جن کا یہاں پر ذکر کرنا ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو امام عالی مقام اور آپ کے جملہ رفقاء رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا فیضان عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
ماخذ و مراجع: "آئینہ قیامت" مصنف: علامہ حسن رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
"خطبات محرم الحرام" مصنف: مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ