زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے!!
موت ایک ایسا پل ہے جس سے ہر جاندار کو گذرنا ہے، موت ایک ایسا ذائقہ ہے جسے ہر ذی روح کو چکھنا ہے __ اسی نظام کائنات کے تحت اس عالم رنگ و بو میں آئے دن بے شمار لوگ پیدا ہوتے ہیں اور شہر خموشاں کی ویران وادیوں میں گمنام ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مگر انہیں میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنی زندگی شاہراہ شریعت کے مطابق اس طرح گزارتی ہیں کہ وفات کے بعد زندہ و جاوید ہو کر شہر خموشاں کا روشن چراغ بن جایا کرتی ہیں اور اہل دنیا کو یہ درس دیتی نظر آتی ہیں کہ
آسی شہید عشق ہوں مردہ نہ جا نیو
مر کر ملی ہے زندگئ جاوداں مجھے
ان ہی منور چراغوں میں آج ایک اور ذات کا اضافہ ہوا یعنی گل گلزار باعلویت، فخر سادات حسینیت، اولاد مولا علی، خانوادۂ سادات پانکاڈ کے چشم و چراغ، مسلمانان کیرالہ کے عظیم رہنما ، ہم عاصیوں کے لیے سفینۂ نجات، سیدی وسندی علامہ حیدر علی شہاب باعلوی الحسینی تنگل رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وصال فرما گئے۔ آپ کی وفات ہندوستان بالخصوص اہل ملیبار کے لیے جاں کاہ صدمہ ہے۔ آپ کی وفات سے پورا عالم اسلام بالخصوص اہل کیرالہ سوگوار ہیں۔ رب قدیر حضور سید صاحب قبلہ رحمہ اللّٰہ کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور آپ کے جملہ پسماندگان کو صبر جمیل و اجر جزیل عطا فرمائے اور ہم سنیوں کو آپ کا بہترین جانشین اور نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین یا ذا القوۃ المتین۔
ولادت مبارکہ: آپ کی ولادت مبارکہ 15 جون 1947ء کو پانکاڈ کے مشہور خانوادہ باعلوی شہاب سادات میں ہوئی۔
آپ پانکاڈ سادات میں سید محمد علی شہاب تنگل اور سید عمر علی شہاب تنگل رضی اللہ تعالی عنہما کے چھوٹے بھائی اور پی یم یس اے پوکویا تنگل اور شہزادی خاتونِ جنت سیدہ عائشہ بی بی (رحمہما اللہ تعالیٰ) کے نور نظر اور فرزند ارجمند ہیں۔ آپ کیرالہ کے سیاسی اور مذہبی قیادت کی بہت بڑی کڑی مانے جاتے تھے، آپ کی وفات سے یہ کڑی منقطع ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔
مناصب و خدمات: آپ ایک دور اندیش سیاسی قائد و رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ الحمدللہ جماعت اہلسنت کے مشہور و معروف مرکزی ادارہ جامعہ نوریہ فیضاباد کیرالہ سے "فاضل فیضی" کی معتبر سند یافتہ جید عالم دین تھے۔
سید حیدر علی شہاب تنگل رحمہ اللہ تعالیٰ کی ذات پانکاڈ سادات میں غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔ سید صاحب موصوف دار الہدی اسلامک یونیورسٹی کے چانسلر، سمستا کیرالا جمعیت العلماء کے نائب صدر، انڈین یونین مسلم لیگ کے قومی صدر، اس کے علاوہ کیرالہ کے متعدد مرکزی اداروں کے صدر اور تقریبا 200 سے زائد علاقوں کے قاضی تھے۔
آپ کا مقدس خانوادہ "خدمت خلق بھی عبادت ہے" اس مقولے کی عملی تصویر ہے، اسی لیے خانوادۂ پانکاڈ سادات کا یہ معمول ہے کہ وہ منگل کے روز کسی بھی دینی ومذہبی تقریب یا پروگرام میں نہیں جاتے بلکہ عوام الناس کی مزاج پرسی اور ان کے ملی، سماجی، سیاسی اور عائلی معاملات حل کرنے کے لیے سارا دن اپنے مکان پر ہی رہتے ہیں۔ اس پاکیزہ رواج کے آپ بھی پابند تھے اور آپ خلق خدا کا روحانی علاج بھی فرماتے تھے۔ غرضے کہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ دین و سنیت کی ترویج و اشاعت، مذہب و مسلک کی خدمت، امت مسلمہ کی تعمیر و ترقی اور خلق خدا کی راحت رسانی کے لیے وقف تھا۔
آپ دار الہدی اسلامک یونیورسٹی کے لیے ایک باپ کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ کی وفات اس عظیم دانش گاہ کے لیے ایک مشفق باپ کا فقدان ہے۔
کیرالہ، آندھرا پردیش، آسام، بنگال، کرناٹک، مہاراشٹرا وغیرہ مختلف صوبوں میں دارالھدی اسلامک یونیورسٹی کے زیر انتظام تقریبا 35 معیاری ادارے خدمت دین کا کام انجام دیتے ہیں، ان سب کی قیادت کی ذمہ داری آپ کے حوالے تھی۔
پس ماندگان: آپ کے پس ماندگان میں حضرت سید معین علی شہاب تنگل اور حضرت سید نعیم علی شہاب تنگل ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان دونوں حضرات کے عمر میں برکتیں عطا فرمائے۔
وصال پر ملال: آپ 6 مارچ 2022 کو 74 سال کی عمر میں little flower hospital انگاملی کے اندر اس کائنات فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئے
کیا خوب کہا علامہ اقبال نے
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے