کیا واقعی آزاد ہے مسلمان ؟؟!!!

               سرزمینِ ہندوستان پر مسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال دیکھ کر بار بار یہ سوال ذہن و فکر کے دریچوں میں گردش کرتا ہے کہ کیا واقعی آزاد ہے مسلمان ؟ روز مرہ بڑھتے ظلم و تشدد، قتل و خونریزی، ناجائز کارروائیاں، مسلمانوں کے خلاف اہل اقتدار کا ناروا سلوک اور یکطرفہ ہوتے فیصلے یہ باور کراتے ہیں کہ مسلمانوں کو ابھی بھی کھل کر سانس لینے کی اجازت نہیں ہے۔ جگہ جگہ سڑکوں اور چوراہوں پر نوجوان نسلیں اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دے رہی ہیں کہ کبھی زعفرانی رومال گلے میں ڈالے نوجوان لڑکوں کا گروہ کسی مسلمان کو درخت سے باندھ کر زور و زبردستی کلمۂ کفر کہلواتا ہے تو کہیں خاکی وردی میں ملبوس قوم کا مسیحا کہلانے والا نوجوان بھری ٹرین میں سر پر ٹوپی اور چہرے پر داڑھی دیکھ کر مسلمانوں کے گولی مار دیتا ہے۔ کہیں روڈ پر نمازِ جمعہ کے دوران نمازیوں پر پولیس اہلکاروں کا نامناسب سلوک، مسلم لڑکیوں کا حالتِ حجاب میں اسکول جانے پر روک، یہاں تک کہ صاحبِ لولاک، جانِ عالمین، سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارِ محبت پر پابندیاں، دیکھتے ہی دیکھتے حالات اس قدر بگڑ گئے کہ پرامن احتجاج (جو کہ اس ملک کے ہر باشندے کا آئینی حق ہے) کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر پولیس کی جانب سے زد و کوب کرنا یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کیا واقعی آزاد ہے مسلمان ؟

آخر اس نفرت کی وجہ کیا ہے ؟؟

                گزشتہ دنوں کانپور کی سرزمین پر عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر ”آئی لو محمد ﷺ“ کا بینر لگانے کے جرم میں ابتداً تقریباً ۲۵ مسلمانوں پر ایف آئی آر درج کر انہیں جیل بھیج دیا گیا، جس کے خلاف ہندوستان کے مختلف اطراف و اکناف میں احتجاجات ہوئے، لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس طرح اپنے محسن اعظم سے اظہارِ محبت پر ایف آئی آر کا کیا مطلب ؟ یہ تمام ہو رہیں کارروائیوں پر فی الفور روک لگائی جائے۔ جواباً بجائے معاملات سلجھانے اور حق فیصلہ کرنے کے مزید جبراً مقدمات بڑھا دیے گئے اور یک طرفہ پولس مسلم نوجوانوں کو حراست میں لینے لگی، جس کی مخالفت کرتے ہوئے شہرِ بریلی میں بعد نمازِ جمعہ امن و سکون کے ساتھ پولس کو گیاپن دینے کے ارادے سے مولانا توقیر رضا صاحب کی قیادت میں جیسے ہی مسلمان جمع ہوئے، کسی منصوبہ بندی کے تحت چھت پر بیٹھے غیر مسلم نوجوانوں نے عوام پر پتھراؤ شروع کر دیا جس کو نشانہ بنا کر پولس نے نہتے مسلمانوں پر پتھراؤ کے الزام میں لاٹھی چارج کر دی، ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلائے گئے، انگنت نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا، خود مولانا توقیر رضا صاحب اور اُن کے قریبی دوست و احباب کو پکڑ کر جیل بھیج دیا گیا مزید برآں کہ یوپی حکومت کی جانب سے غیر مناسب رویہ دیکھنے کو ملا۔ ایک محفل میں یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے غیر ذمہ دارانہ اور نامناسب بیان دیتے ہوئے کہا کہ: مسلمانوں کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ نسلیں یاد رکھیں گی۔ ایک اور مقام پر دورانِ بیان مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ: بریلی میں مولانا بھول گیا تھا کہ کس کی حکومت ہے۔

          اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں جس قوم کا رہبر و قائد ہی ایسی زبان استعمال کرے جس سے نفرتیں پیدا ہوں تو لوگوں کے دلوں میں محبتوں کے بیج کیسے جنم لیں گے ؟ قدیم گنگا جمنی تہذیب و ثقافت، ہندو و مسلم کے مابین بھائی چارے کا سرِ عام خون کیا جا رہا ہے۔ سیاسی لیڈران اپنی کرسی سنبھالنے کے لیے کم پڑھے لکھے لوگوں کو بیوقوف بنا کر انہیں نفرتوں کے سبق سکھا رہے ہیں، آئے دن پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں ہو رہی ہیں، جس کے خلاف آواز اٹھانے پر ہمیں زد و کوب کیا جاتا ہے۔ آج عوام کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہمارے مذہب و مسلک کو ٹارگٹ کر کے ہمارے بیچ نفرتیں پیدا کی جا رہی ہیں۔

مسلمان کیا کریں ؟

            ہماری کمزوری کی سب سے بڑی وجہ آپسی نااتفاقیاں ہیں، ہمارا کوئی ایسا قائد موجود نہیں ہے جس کے پیچھے ہم سر اٹھا کر چل سکیں، ہماری اندرونی خانہ جنگی اس قدر عروج پر ہے کہ ہمیں ملت اسلامیہ کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ سب کے اپنے اپنے الگ الگ قائد موجود ہیں، کسی ایک مسئلہ پر سب کا جمع ہونا غالباً محال ہو چکا ہے، موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنا کوئی ایک سیاسی قائد چننا ہوگا جو کھل کر پوری مسلم عوام کی جانب سے بات کرے۔ یاد رکھیں! جب تک متحد نہیں ہوں گے اسی طرح ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے۔ وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس کا کوئی رہبر نہ ہو۔ لہٰذا موجودہ نازک ترین حالات میں ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ ہم امن و سکون کے ساتھ بغیر کسی چوں چراں کے اس سیاسی قائد کا ساتھ دیں جو ہمارے تعلق سے بات کرے۔ یاد رکھیں! ہم تب تک آزاد نہیں ہو سکتے جب تک متحد نہیں ہوں گے۔ ہماری مذہبی آزادیاں ایک ایک کر کے چھینی جا رہی ہیں کیا یہی ہماری آزادی ہے ؟ اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ کیا واقعی ہم آزاد ہیں ؟

علامہ اقبال نے کہا تھا کہ…

مُلّا کو جو ہے ہِند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter