رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ: دنیائے انسانیت کے نوید مغفرت
رمضان المبارک کا ماہ مبارک ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک عشرہ مکمل ہو گیا۔ رمضان المبارک سراپا رحمت و برکت کا مہینہ ہے اس میں باران رحمت کی فضا ابر رحمت بن کر برس رہی ہے اور اب دوسرے عشرے کا آغاز ہو رہا ہے۔ ویسے تو سبھی دن اللہ کے ہیں، رات بھی اسی کی ہیں، لیکن اس کی رحمت اپنے بندوں کو نوازنے کے لیے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہے۔ اس لیے اس نے کسی شب کو لیلۃالقدر بنا دیا اور کسی مہینہ کو ماہ مبارک بنا دیا۔ اگرچہ رمضان کو عشروں تقسیم کرنے والی حدیث ضعیف ہے تاہم اس کو ایک استعارے کے طور پر بھی لے سکتے ہیں۔ روایت یہ ہے کہ رمضان المبارک کا پہلا حصہ رحمت ہے، دوسرا حصہ مغفرت ہے اور تیسرا حصہ جہنم سے آزادی کا پروانہ ہے۔ اس طرح دوسرا عشرہ گویا مغفرت کا عشرہ ہے۔
دنوں اور عشروں کی تقسیم اپنی جگہ، پورا ماہ رمضان المبارک ہی رحمت و مغفرت اور جہنم سے آزادی کا پروانہ لے کر آتا ہے۔ اب یہ انسان کی اپنی کوشش ہے کہ وہ اس ماہ مبارک سے کتنا فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے آپ کو کس طرح رحمت و مغفرت کے مستحق بناتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں عبادات کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے، فرائض کا ثواب 70 گنا ہو جاتا ہے۔ نوافل کا ثواب فرائض کے برابر ہو جاتا ہے۔ یہی معاملہ صدقات و عطیات کا بھی ہے۔ ان کا بھی ثواب بڑھ جاتا ہے۔ چوں کہ اس ماہ میں سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں اس لیے اچھے اعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
ماہ مبارک کے عشرہ مغفرت کا ایک تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار کریں۔ استغفار خود ایک عبادت ہے اور احکم الحاکمین سے اپنے گناہوں کی معافی کے لیے درخواست بھی۔استغفار سے انسان کے اندر تکبر کا مادہ بھی ختم ہوتاہے۔ نامہ اعمال میں بھی استغفار ایک قیمتی اضافہ ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جس شخص کے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت ہو اس کے لیے بڑی خوش بخشی کی بات ہے۔
استغفار آخرت کے اعتبار سے تو بڑی فضیلت کی بات ہے اور استغفار کرنے والے کے لیے نہایت قیمتی خزانہ ہے، لیکن اللہ رب العزت نے دنیا میں بھی استغفار میں بڑی فضیلت رکھی ہے۔ قرآن مجید میں استغفار کے فوائد میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب تک لوگ استفسار کرتے رہیں گے اس وقت تک وہ عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ (الانفال:3) گویا استغفار کی کثرت سے اللہ تعالی دنیائے انسانیت کو عذاب سے اور بلاوں سے اور وباوں سے محفوظ رکھے گا۔آج ساری دنیا میں ایک وبا پھیلی ہوئی ہے ۔ایسی عالم گیر وبا اس سے پہلے کبھی نہیں اآئی تھی۔آج اس کی سخت کی سخت ضرورت ہے کہ مسلمان کثرت سے استغفار کریں۔اللہ تعالی کے وعدے ہمیشہ کے لیے ہوتے ہیں اگر مسلمانوں کے استغفار سے دنیائے انسانیت اس وبا سے بچ جائے تو یہ بہت بڑی سماجی خدمت بھی ہوگی۔
قرآن مجید کی ایک اور آیت میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی فوج سے کہا کہ تم اپنے رب سے استغفار کرو۔ وہ بہت مغفرت کرنے والا ہے۔ وہ تم پر بکثرت بارش برسائے گا، مال اور اولاد سے تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے لیے باغ بنائے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کرے گا۔ (نوح: 12-10)
اس آیت کریمہ میں اور قرآن مجید کی اور آیات میں بھی بہت واضح طور پرآیا ہے کہ استغفار کی برکت سے انسان کے دنیا کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔اللہ تعالی اس کو فقر اور محتاجی سے بچائے گا۔اس کو مال و دولت بھی دے گا اوراس کو دنیا میں قوت و شوکت بھی عطا فرمائے گا۔
احادیث میں بھی افتغفار کے فضائل بڑی کثرت سے اآئے ہیں۔ایک حدیث میں اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ جو شخص استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ہر رنج و غم سے نجات دیتا ہے اور اس کو ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ روزی عطا کرتا ہے جہاں سے اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ (ابن ماجہ)
رمضان المبارک کے اس عشرہ مبارکہ کو ہم اس طرح آباد کریں کہ ہماری زبان استغفار سے تر رہے اور ہمارا کوئی خالی وقت ایسا نہ ہو جس کو ہم استغفار کی کثرت سے پر نہ کر لیں۔
عشرہ مغفرت کو اگر استعارے کے طور پر مغفرت سے منسوب مانا جائے تو اس کا دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ ہم جس چیز کی امید اللہ رب العزت سے اپنے لیے کرتے ہیں، وہی کام ہم اپنے طور پر اس کی مخلوق کے لیے کریں۔ یعنی اپنے دل سے کینہ، حسد اور بدلے کے تمام جذبات کو نکال باہر کریں۔ اگر کسی نے ہمارا حق مارا ہے، ہمارے ساتھ نازیبا حرکت کی ہے، ہم کو اپنی زبان سے یا اپنے عمل سے کوئی تکلیف پہنچائی ہے تو ہم یکطرفہ طور پر اس کو معاف کر دیں۔ اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانکیں اور جس شخص سے بھی کوئی عداولت کا جذبہ ہو اس کا نام لے کر اس کو معاف کر دیں، اور اگر فون کر سکتے ہوں تو فون کر کے اس سے بات کریں تاکہ ہمارا دل پوری طرح صاف ہو جائے۔ ابھی لاک ڈاؤن ہے، جب اللہ تعالیٰ اپنے حالات کو نرم کر دے، یہ عالمی وبا ختم ہو جائے اور لاک ڈاؤن ختم ہو جائے تو جا کر ملیں۔ اس عشرے میں مسلسل اس کی مشق کریں کہ ہمارے دل میں ہر ایک کے لیے محبت ہو، نفرت جیسے منفی جذبات ہمارے دل میں گزر نہ پائیں۔ آج کا دور بڑا عجب دور ہے۔ اس میں دکھ بڑھ رہے ہیں، نفرتیں بڑھ رہی ہیں، عداوتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس ماہ مبارک کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے طور پر محبتیں بڑھائیں، الفتیں بڑھائیں، پیار بانٹیں۔ انشاء اللہ ماہ مبارک کی برکت سے ہم کو وہ ملے گا جو ہم بانٹیں گے۔ قرآن مجید میں ہے کہ بری بات کو بھی بھلی بات سے دفع کرو۔ یعنی دوسروں کی بات کے جواب میں بھلی بات کرو، اس کا اثر یہ ہوگا کہ جس آدمی کو تم سے شدید نفرت ہوگی، وہ بھی تمھارا جگری دوست بن جائے گا۔
اس ماہ مبارک کے اس عشرے میں ہم کو یہ دو کام توضرور کرنے چاہئیں، ایک یہ کہ زیادہ سے زیادہ استغفار کریں اور دوسرایہ کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو معاف کریں۔ اگر ہم نے ایسا کر لیا تو انشاء اللہ ہم اس ماہ مبارک سےایک قیمتی حصہ کے حقدار ہوں گے جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ ہمارے لیے بھلائی کا سبب ہوگا۔