بابری مسجد کی شہادت اور قوم مسلم

    6/دسمبر مسلمانانِ ہند کے لیے ناقابلِ فراموش تاریخ ہے_ جس میں متعصب قوم ہنود کی جماعت وشوہندو پریشد، بی جے پی، بجرنگ دل، شیوسینا پارٹیوں کے ساختہ پرداختہ پروگرام سے تقریباً کئی سو سالہ قدیم عظیم تاریخی بابری مسجد جو سرزمین اجودھیا میں آباد تھی اس کو زمین بوس کردیا گیا تھا- معتبر ذرائع و شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت کی برسر اقتدار حکومت کانگریس پارٹی کے وزیراعظم ہند نرسمہا راؤ اور اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنکھ بھی خفیہ طور پر ان لوگوں کی اس خبیث سازش میں برابر کے شریک تھے، چونکہ کئی ہزار کے فوجی دستے کی موجودگی میں بابری مسجد کو شہید کیا جاتا رہا، اور تمام فوجی دستے نیز ارکان و عملہ تماشائی بنے رہے آخر ان افواج و عساکر کے ارسال کا منشا و مقصد کیا تھا؟ مقام حیرت و استعجاب تو یہ ہے کہ اس وقت کی حکومت سے بابری مسجد کے انہدام اور افواج و عساکر کے بھیجنے کے متعلق دریافت کیا جاتا تو وہ یہی جواب دیتی کہ اگر فرستادہ افواج و عساکر بزورِ بازو ہندوؤں کو روکنے اور مسجد منہدم کرنے اور مندر کی تعمیر سے مانع ہوتے تو کافی خون خرابا ہوتا اور خون خرابا مجھے منظور نہ تھا بالائے تعجب ہے ایسی بوالعجمی پر کہ سرزمین اجودھیا میں خون خرابا کی وجہ سے افواج و عساکر کے ہاتھوں میں بیڑیاں اور پاؤں میں زنجیریں ڈالی گئیں تھیں- جس کا نتیجہ اور ثمرہ اظہر من الشمس اور ابین من الامس یہ نکلا تھا کہ بابری مسجد شہید کردی گئی تھی، اور اس وقت ملک کے طول و عرض میں فرقہ وارانہ آگ بھڑک اٹھی تھی اسی آتش فشاں ساعات میں متعدد شہروں اور انگنت قصبوں میں افواج کی گولیوں اور اس کے توپ و تفنگ کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی، ان کی بیویاں بیوگی کی زد میں بلبلا اٹھی تھیں، اور بچے یتیمی کی بلا میں مبتلا ہو گیے تھے، دکانیں لوٹ لی گئیں تھیں، مکانات نذر آتش کر دیے گیے تھے، عزت وناموس پر حملے ہوئے تو اس وقت کی انتظامیہ اور حکومت کے سروں پر جوں تک نہ رینگی تھی اور نہ غم و افسوس ہوا اور ہوتا بھی کیوں؟ کہ مراد اور مدتوں کی تمنائیں بر آئیں تھیں، اس وقت ان تمام حرکات و نظریات سے بالکل صاف و شفاف بات سامنے آگئی تھی کہ تمام منصوبے راز ہائے سربستہ کے تحت انجام پذیر ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں-
       اس وقت اجودھیا میں گولیاں چلتیں ہنود مارے جاتے تو غم تھا لیکن پورے ملک میں قوم مسلم کو تہہ تیغ کیا گیا، ظلم و استبداد، تشدد و بربریت کا بازار گرم کیا گیا تو کوئی غم نہیں ہوا، یاد رہے کہ ایسی ناپاک پالیسی و سیاست کسی منصف حکمراں کی نہیں ہوتی بلکہ ایک ظالم و جابر متمرد و سرکش متعصب و حاصد کی ضرور ہوتی ہے- 
       بابری مسجد کی شہادت اور قوم مسلم کے کشت و خون سے ہمارے سماج و معاشرہ پر اس قدر اثر ہوا کہ جس کا اظہار نوک قلم رقم کرنے سے عاجز و قاصر ہے- آنکھیں نم ہیں، قلوب مغموم و متفکر ہیں، زبانوں پر آہ و بکا کی لہریں ہیں، اقدام ڈگمگائے جاتے ہیں، زور بازو سیمیں مضمحل و ناتوانی کے شکار ہیں، غرضیکہ کہ اعضائے رئیسہ مجروح و مریض دکھائی پڑ رہے ہیں، صرف مسلمانانِ ہند کے نہیں بلکہ اقوام عالم کی یہی آرزو ہے کہ واقعتاً جو کچھ سرزمین ہند پر بابری مسجد کے متعلق سے ہوا وہ نہایت ہی ظالمانہ، سفاکانہ، وحشیانہ، جاہلانہ، متعصبانہ، غاصبانہ، بہیمانہ کردار و عمل کا مظاہرہ ہے- اور اقلیت کے ساتھ حد درجہ ناانصافی و حق تلفی کی ہے-
       ظالمو! تم اپنے عزائم کے تحت جیسی مہم چلا رہے ہو اور جس میں تم اپنی فتحمندی و کامیابی سمجھ رہے ہو درحقیقت اس میں نہ تمہاری کامیابی ہے نہ شجاعت و دلیری نہ مذہبی کارکردگی ہے- اس لیے کی یہ تمام چیزیں تم نے اپنے دجل و فریب، اپنی کثرت اور حکومت کی نصرت وحمایت سے معرضِ وجود میں لائی ہیں_ خوب یاد رکھو! دھوکہ فریب، مکاری و عیاری سے غلبہ حاصل کرنا اپنی کثرت کے بل بوتے اقلیت کو پائماں کردینا، حکومت وقت کا سہارہ لے کر عوام الناس کو شکست دینا شیوہ جوانمردی اور دستورِ سپہ سالاری نہیں-
       مسلمانو! عصر حاضر کے مصائب وآلام اور غم اندوہ کی بارشیں، مذہبی اشیاء متبرکہ کی بے حرمتی اور شعار اسلام کی ہتک عزتیں ہمیں جھنجوڑتی ہیں کہ تمہاری غفلت سے اغیار کو مواقع فراہم ہونے لگے ہیں، تمہارے صبر و ضبط کے پیمانے لبریز ہو چکے، تم سوسو کر بہت کچھ کھو چکے تمہاری خاموشی اور بے حسی نے غداران وطن کی زبان میں گویائی اعضاء میں حرکتیں پیدا کردی ہے، تمہاری مسلمانی شان اور ایمانی آن کو چنوتی دی جارہی ہے، تمہارے مذہبی وقار کو مجروح کیا جارہا ہے، تمہاری دینی حمیت اور غیرت ایمانی کو تہہ و بالا کرنے کے لیے ہر ممکن سعی و کوشش کی جارہی ہے- مسلمانو! اٹھو! جاگو! خواب غفلت کی وادی سے نکل کر ایوان باطل کے در و بام کو زیر و زبر کردو، بزدلی کی نحوست سے باہر آکر شجاعت و دلیری کا جوہر دکھاکر ظالموں شرپسندوں کے پنجے مروڑ دو، ایمانی جولانیت سے اپنے شعائر و علامات کے وقار کو مجروح نہ ہونے دو اپنی شان وشوکت، دبدبہ و سطوت سے مسلم معاشرہ کے کھوئے ہوئے عزائم کو بلندی و ہمت کا سبق پڑھا دو، تم اپنے اتحاد و اتفاق کی ایسی مثال قائم کردو کہ دنیا کے باشندے تھرا جائیں اور ان کے دلوں میں تمہاری عظمت کا سکہ جاگزیں ہو جائے کہ واقعی مومن کی جلالت شان اور ایمانی آن بان کے سامنے اقوام عالم کو سرنگوں و خمیدہ ہونے کے سوا چارہ کار نہیں اس سے مقابلہ مقاتلہ، محاربہ، مجادلہ کرنا تو بڑی بات ہے چھیڑنے کے لیے بھی عظیم ہمت وشوکت کی ضرورت ہے_
               ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
               گفتار  میں  کردار  میں  الله  کی برہان
       مسلمانو! ہمیں ظالمان وطن کی مادی طاقتوں، ظاہری آلات و اسلحوں اور حکومت وقت کی ہمایتوں، اور کثرتِ افراد کی زور آزمائیوں سے خوف زدہ وہراساں، لرزہ براندام و سرگرداں، مضمحل وناتواں، لاچار وحیران، نادم وپریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ ہمارے پاس ایمانی طاقتیں ہیں ہمارے لیے ،،لا تقنطو،، سرمایہ عظمیٰ اور دولتِ کبریٰ ہیں، ہمارے لیے ،،لقد کرمنا بنی آدم،، کا تاج ہے ہمارے ہی لیے قرآن ناطق ہے ،،وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین،، ہمیں سہارا ہے فضل ربی کارحمت مصطفےٰ کا، حمایت اولیاء الله کا، ہمیں ہمت ہے حضرتِ ابو بکر صدیق کی صداقت و امانت پر، ہمیں جرآت ہے حضرتِ عمر فاروق اعظم کی عدالت و شجاعت پر، ہمیں طاقت ہے حضرتِ ذوالنورین کی سماحت و سخاوت پر، ہمیں قوت ہے حضرتِ علی شیر خدا کی ولادت پر_


                  اسلام تیری  نبض نہ ڈوبے  گی حشر  تک
                  تیری رگوں میں خوں ہے رواں چار یار کا


       اس فرقہ وارانہ فساد سے دہلی، ممبئی، الہ آباد، بھوپال، سورت، کانپور، بنارس، آسام، کلکتہ، پٹنہ وغیرہ میں شدید جانی و مالی نقصانات ہوئے، بے قصور مسلمانوں کے ہاتھ میں زنجیریں ڈالی گئیں اور قیدی بنائے گئے زد و کوب کی نوبت بھی آئی، میری دعا ہے کہ الله رب العزت بطفیل نبی اکرم سید عالم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم مسلمانوں کو صدق وصفا، عدل ووفا، جود وسخا کا پیکر بنادے، مسلمانوں کے دست و بازو میں شجاعت وبسالت، جرآت وہمت، طاقت وقوت کا جوہر عطا کردے، ان کے قلوب کو مجلی، مطہر و مزکی فرمادے، میدانِ کازار میں فتح وغلبہ کا سہرہ مرحمت فرماکر غازی و مجاہد کے لقب سے ملقب فرما، اغیار کے اذہان وقلوب میں دہشت و وہشت ڈالدے تاکہ مسلمان فاتح و ناصر بنکر پرچم اسلام کو ہر چہار دانگ عالم میں لہراتا رہے، اور چہار سو اعلاء کلمتہ الحق کا چرچہ و غلغلہ رہے اور مسلمانوں کو دیکھتے ہی قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہوجائے کہ-


              ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
              رزم  حق و باطل ہوتو فولاد ہے مومن

     
                iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter