عدالت نے فیصلہ تو سنا دیا مگر...
گزشتہ دنوں ممبئی میں این آئی اے کی خصوصی عدالت نے 2008 میں واقعہ ہونے والے مالیگاؤں بم دھماکے کے مقدمے کا فیصلہ سنایا، جس میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر سمیت تمام ملزمین کو بری قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے خلاف متاثرین نے ہائی کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ ان کو انصاف نہیں ملا۔ اس مقدمے کا فیصلہ بہت اہم ہے، کیونکہ متاثرین کو انصاف کا موقع نہ ملا۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیوندر فڈنویس نے کہا کہ دہشتگردی کبھی بھی زعفرانی نہیں رہی، یہ آج ثابت ہوگیا۔
نائب وزیر اعلیٰ شندے نے کہا کہ سچ کی ہر زبان شکست نہیں ہوتی، اور بھگوا دہشتگردی کے نام دینے والوں کو بھگوان سزا دے گا۔دونوں نے اس معاملے میں بیان دیا، لیکن لوکل ٹرین بم دھماکوں کے ملزمین کے بارے میں کوئی الفاظ نہیں بولے اور دوسرے ہی دن سپریم کورٹ کے خلاف چیلنج کر دیا۔ یہ فیصلہ انصاف اور غیر انصافی کو دیکھنے کا سیدھا نظریہ پیدا کرتا ہے، جو بالکل درست نہیں ہے۔ انصاف کو اسی نظریے سے دیکھنا چاہیے جس طرح لوکل ٹرین دھماکوں کے ملزمین کی رہائی کے فیصلے کو مہاراشٹر سرکار نے دوسرے ہی دن سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا مالیگاؤں بم دھماکہ کے فیصلے کو وہ ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے؟ کیونکہ انصاف کی تقاضا یہ ہے کہ متاثرین کو انصاف ملے، اور ملزمین کو سزا ملے، جبکہ یہاں اس معاملے میں کچھ بھی نہیں ہوا۔ عدالت نے فیصلہ تو سنا دیا، مگر انصاف کہاں دیا جس کے منتظر متاثرین تھے؟
مالیگاؤں بم دھماکہ کے فیصلے میں عدالت نے مہلوکین کے ورثا کو دو دولاکھ اور زخمیوں کو پچاس ہزار روپئے دینے کی ہدایت مہاراشٹر سرکار کو دی یعنی ان بے قصوروں کے جان کی قیمت صرف دو لاکھ روپئے سمجھا گیا۔ اب متاثرین انصاف کے لئے چیخ رہے ہیں مگر ان کی آواز کون سنے گا؟ کون انہیں انصاف دے گا جب کئی سال تک چلے مقدمات میں انصاف نہیں ملا تو اب کیسے مل جائے گا؟
تفتیشی ایجنسیوں کے کمزور دلائل، ثبوت اور گواہوں کے مکر کو لے کر بھی سوالات ہوتے ہیں، جن کا کوئی جواب نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی ان کا جواب دے سکتا ہے۔ تقریباً دو دہائیوں بعد، ممبئی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا، اور خصوصی عدالت کی طرف سے 2015 میں دی گئی موت اور عمر قید کی سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو گیارہ جولائی 2006 کے بم دھماکوں کا جھوٹا قصور وار ٹھہرایا گیا تھا، ان تمام افراد کو یہ کہتے ہوئے بری کر دیا گیا کہ استغاثہ ان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں بالکل ناکام رہے۔ جسٹس انیل ایس کلور اور شیام سی چندک کی خصوصی ڈویژن بنچ نے 2015 میں کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائیم ایکٹ کے تحت قائم مہاراشٹرا کی ایک خصوصی عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزاؤں کو پلٹ دیا، جس نے پانچ ملزمان کو سزائے موت اور باقی سات کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
ہائی کورٹ کی بنچ نے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ کیس کو شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے، اور پولیس کے دلائل پر یقین کرنا مشکل ہے کہ ملزمین نے جرم کیا ہے، اس لیے ان کی سزا منسوخ کی جاتی ہے۔ بنچ نے مزید کہا کہ جرم کے اصل مرتکب کو سزا دینا، مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک ٹھوس اور ضروری قدم ہے، لیکن یہ جھوٹا تاثر دینا کہ ملزمین کو قانون کے سامنے پیش کرکے کیس کو حل کرلیا گیا، مسئلے کے حل کا گمراہ کن احساس پیدا کرتا ہے۔
رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے ان تمام بارہ مسلم افراد کی رہائی پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کی زندگی کے قیمتی اٹھارہ سال اس ناکردہ جرم کے الزام میں ضائع کر دیے گئے۔ اویسی نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر لکھا کہ بارہ مسلمان اٹھارہ سال سے اس جرم کے لیے جیل میں تھے جو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔ ان کی بنیادی زندگی ختم ہوگئی ہے۔ ایک سو اسی خاندان جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا، اور متعدد زخمی ہوئے، انہیں کوئی تسلّی نہیں ملی۔
اویسی نے پولیس کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور میڈیا پر متوازی ٹرائل چلانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں جہاں عوامی ردعمل شدید ہوتا ہے، پولیس کا نقطہ نظر پہلے سے ہی کسی سے جرم قبول کروانے کا ہوتا ہے، اور میڈیا جس طرح کیس کو کور کرتا ہے اس سے ملزم کو مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس کیس کی تفتیش کرنے والے مہاراشٹر اے ٹی ایس افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، اور 2006 میں سیاسی قیادت کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔
ہندو قوم پرست جماعت شیو سینا کے رکن پارلیمان ملند دیورا، جو 2006 میں ممبئی سے ایم پی تھے، نے کہا: "بطور ممبئی کے رہائشی میں اس فیصلے کو قبول نہیں کر سکتا۔ میں مہاراشٹر حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بہترین وکیلوں کی خدمات حاصل کرے اور بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فوری اپیل کرے"۔
بی جے پی لیڈر کریت سومیا نے فیصلے کو انتہائی مایوس کن قرار دیا، اور تفتیش و قانونی لڑائی دونوں میں کوتاہیوں کی طرف اشارہ کیا۔ خصوصی سرکاری وکیل اور اب رکن پارلیمان اجوَل نکم نے کہا کہ ملزمان کے بری ہونے سے سنگین خدشات پیدا ہوتے ہیں اور ریاست کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنی چاہیے۔
یاد رہے کہ گیارہ جولائی 2006 کو ممبئی میں شام کے رش کے وقت سات مختلف مقامات پر لوکل ٹرینوں میں زوردار بم دھماکے ہوئے تھے، جن میں 189 افراد جاں بحق اور 820 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ مہاراشٹر اے ٹی ایس نے اس واقعے کی تفتیش کی تھی اور 2015 میں مکوکا عدالت نے اس مقدمے میں پانچ افراد کو سزائے موت اور سات کو عمر قید سنائی تھی۔
تاہم، 21 جولائی 2025 کو بامبے ہائی کورٹ نے تمام بارہ ملزموں کو بری کرتے ہوئے کہا کہ شواہد ناکافی اور ناقابل اعتبار ہیں۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ گرفتاریوں کے بعد شناخت پریڈ میں تاخیر کی گئی، شواہد کو مناسب طریقے سے اکٹھا نہیں کیا گیا، اور کئی گواہوں کی گواہی جرح کے دوران کمزور پڑ گئی۔ ہائی کورٹ نے ملزمان کو پچیس ہزار روپے کے ذاتی مچلکے پر رہا کرنے کا حکم دیا، بشرطیکہ وہ کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہوں۔ مہاراشٹر حکومت نے 22 جولائی کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا، اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا۔
عدلیہ پر سیاسی دباؤ یا جانبداری کا تاثر عدالتی فیصلوں پر عوام کے اعتماد کو متاثر کرتا ہے۔ جب عدالتی فیصلے کسی مخصوص سیاسی جماعت یا شخصیات کے حق میں بار بار آئیں تو لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ عدلیہ غیر جانبدار نہیں رہی۔ عدالتوں میں مقدمات سالوں تک چلتے ہیں اور انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے انکار کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی بعض اہم مقدمات سالوں سے زیر التوا ہیں۔ بعض اوقات ایک جیسے کیسز میں مختلف بینچز کے مختلف فیصلے عوام میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ عدالتی معیار یکساں نہیں رہا، جو عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے۔
جب سپریم کورٹ ایسے مقدمات کو ترجیح نہیں دیتی جو عوام کے بنیادی مسائل سے جڑے ہوں، تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ عدلیہ صرف اشرافیہ کے مسائل حل کر رہی ہے۔ اگر ججز کی تعیناتی میرٹ کی بجائے تعلقات یا سفارش کی بنیاد پر ہو، تو انصاف کی فراہمی پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ عوام کا اعتماد متاثر ہوتا ہے کہ جج غیر جانبدار فیصلے دے گا یا نہیں۔ہم جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں اب بھی کئی ایماندار، قابل اور انصاف پسند ججز موجود ہیں، مگر ادارے کی مجموعی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے عدلیہ کو خود احتسابی، شفافیت اور عوامی توقعات پر پورا اترنے کی شدید ضرورت ہے۔