مدارسِ اسلامیہ کی حفاظت کے لیے لائحہ عمل تیار کیجیے

مدارسِ اسلامیہ قائم کرنے کا اولین مقصد شائقینِ علم دین کو زیور علم سے آراستہ کرنا ہے، تاکہ طلبہ اس راہ پر چل کر فہم دین اور فہم شریعت تک رسائی حاصل کر سکیں اور دنیا میں اشاعتِ حق کی آواز بلند ہو، مذہبِ اِسلام کو رونقیں حاصل ہوں اور شریعت کو بالادستی حاصل ہو، جب مدارسِ اسلامیہ کے قائم کرنے کا مقصد یہ ہے تو اغیار کی نظروں سے مدارسِ اسلامیہ کی اہمیت بھلا کس طرح اوجھل ہو سکتی ہے کہ جہاں سے علم کے چشمیں پھوٹتے ہیں۔ اسلامی تحریکات واحیاء دین کے شعور کو بیدار کیا جاتا ہے۔ عام مسلمان دینی وعصری تعلیم کی طرف راغب ہوتا ہے۔ جہاں ان میں نئی روح پھونکی جاتی ہے۔ یہیں سے دعوت وتبلیغ کی سرگرمیاں پورے آب و تاب کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دیتی ہیں۔ یہیں سے عزم وحوصلہ میسر آتا ہے۔  کہ کس طرح زراعت وحرفت، صنعت وتجارت کی طرف پیش قدمی کریں اور اس میں درپیش مسائل سے عہد بر آ ہونے کی ہمت و خوداعتمادی انہیں تعلیمی اداروں مدارسِ اسلامیہ سے ملتی ہے  اور یہیں قائد و رہنما پیدا ہوتے ہیں، جو پوری ملتِ اسلامیہ کا رخ احکام شرعیہ کے مطابق متعین کرتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں پر روک لگا کر مسلمانوں کو مزید مفلوج ومعزور کیا جائے۔  آسام میں اب تک کئی مدارس پر بلڈوزر چل چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری وساری ہے رکنے کانام نہیں لے رہا ہے آئے دن کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مدرسے کو غیر قانونی بتا کر اس پر بلڈوزر چلا دیا جاتاہے۔ ادھر بہار میں بہت زور و شور سے مدارسِ اسلامیہ میں جاکر میڈیا وہاں کے طلباء کا اساتذہ کا انٹرویو لے رہی ہے، ان مدارس کے اساتذہ سے میڈیا طرح طرح کے سوالات کر رہا ہے، وہاں کے مدارس کے روم اور درسگاہوں کا جائزہ لیا جارہاہےکہ کسی طرح ان اداروں کی ناکامی کو اجاگر کرکے ان پر لگام لگوائی جائے، ان موقعوں پر میڈیا کا کیا رویہ ہوتا ہے  وہ آپ جانتے ہیں آپ سے یہ راز مخفی نہیں۔

فی الحال قارئین کو یاد ہوگا کہ! اس ضمن میں ہندوستان کی آزادی کے سات سال بعد جیسے ہی ان فرقہ پرست طاقتوں کو موقع ملا 1954/ عیسوی میں سب سے پہلے راجستھان میں مساجد اور مدارس کی تعمیر نو پر ایک بل پاس کرکے پابندی عائد کردی گئی تھی۔  چونکہ اس وقت مفلوک الحالی کا دور تھا اس وقت مسلمان ہر لحاظ سے بچھڑے ہوئے تھے اس لئے اس وقت اُنہوں نے اس بل کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائی لیکن کسی نہ کسی احتجاجی کاروائی کی بناپر 1998/ عیسوی میں کچھ ترمیمات کے ساتھ اس بل میں نرمی لائی گئی۔

اس کے بعد دھابہ بولا گیا صوبہ مدھ پردیش میں اور 1984/عیسوی میں یہی قصہ دہرایا گیا۔ لیکن ان دونوں صوبوں میں مسلمانوں نے کچھ زیادہ احتجاج نہیں کیا تھا۔ فرقہ پرست طاقتوں نے اپنے اسی روش کو برقرار رکھتے ہوئے ہندوستان کی سب سے بڑی آبای والے صوبہ اتر پردیش جہاں اس وقت انہیں کی سرکار، انہیں کا وزیر اعلیٰ، انہیں کا گورنر اور انہیں کی حکومت تھی یہاں بھی اسی طرح کا بل پیش کرکے منظور کرالیا گیا۔ یہ ایک ایسی خبر تھی کہ یوپی مذہبی عمارات ومقامات ریگولیٹری بل 2000/ عیسوی کو مرکزی حکومت ہری جھنڈی دکھانے جارہی تھی ۔ اس خبر کے مطابق ایک ماہ کی لمبی چھان بین کے بعد اس متنازعہ بل کی حمایت میں مبینہ پختہ حقائق اور ناقابلِ تردید جوازوں کا پلندہ وزیراعظم کے دفتر کو ارسال کردیا گیا تھا۔ جہاں سے اسے ایوان صدر بھیجنے کی تیاری کی گئی پھر خبر کے مطابق اپنے جواب میں حکومت نے اسی نوعیت کے مدھ پردیش اور راجستھان میں جاری قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں اس پر کبھی کسی عدالت یا قانون ساز نے اعتراض نہیں کیا۔ اس وقت اس متنازعہ بل کو یوپی اسمبلی میں پاس ہونے کے بعد گورنر کے پاس بھیجا گیا تھا ۔ جس نے اسے صدر جمہوریہ ہند کے پاس بھیج دیا تھا بعد میں صدر جمہوریہ نے صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے تبصرے کے ساتھ اسے مرکزی سرکار کو کچھ وضاحتوں کے لیے بھیج دیا تھا۔ پھر وزیراعظم کے دفتر سے یہ بل وزارتِ داخلہ کو بھیجا گیا تھا۔

اس وقت کے وزیرِ داخلہ لال کرشن ایڈوانی نے کئی مرتبہ یہ الزام لگایا کہ نیپال سے ملی ہوئی ہندوستان کی سرحد پر جو اسلامی مدارس ہیں انہیں آئی، ایس، آئی اپنے اڈے کے طور پر استعمال کررہی ہے ۔  اس وقت آئینی صورتحال یہ تھی کہ صدر جمہوریہ اس بل پر دستخط کرنے کے پابند ہوچکے تھے اور پھر ان کے دستخط ہوتے ہی اس بل نے قانونی شکل اختیار کر لی جیسا کہ اس وقت خدشات ظاہر ہو رہے تھے کہ آنے والے وقت میں یہی حکومت اسی قانون کو آڑے لے کر نہ صرف دینی مدارس و مساجد بلکہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی مقدس مقامات اور ان کے اعمال و افعال کو بھی اس قانون کے ذریعے محدود کرنے کی کوشش کرے گی- اور جبرا اپنا قبضہ جمائے گی ۔ اس بل کے نفاذ کے بعد نہ کسی مذہب کی عمارت کی تعمیر بغیر اجازت کے ممکن ہوگی ۔ اور نہ کسی پرانی مذہبی مقامات خواہ وہ مسجد ہو یا مدرسہ اس کی مرمت یا ضروری توسیع ترمیم کی جاسکے گی، بلکہ اپنی مرضی کے مطابق یہ حکومت جو چاہے گی کرے گی۔

 اس وقت جب یہ متنازعہ بل پاس ہوا تھا تو ایک بات قابلِ غور تھی وہ یہ کہ اس متنازعہ بل کے احتجاج کے موقع پر مسلم جماعتوں کا جو اتحاد و اتفاق نظر آیا وہ واقعی قابلِ دید تھا۔ اس وقت ہر مسلک اور ہر فرقہ کے لوگوں نے ملک کے کونے کونے سے اس متنازعہ بل کے خلاف احتجاج کیا اور سڑکوں پر نکل آئے تھے لیکن موجوہ وقت میں سب سے بڑی کمی ہمارا آپس میں متحد نہ ہونا ہے۔ اگر آج بھی ہم متحد ہو جائیں تو محنت رنگ لاسکتی ہے کیونکہ اجتماعیت میں بڑی قوت ہے۔ اتحاد سارے امراض کی شفا ہے اور اگر کہیں اسی بہانے مسلمانوں کو کوئی قائد ورہنما میسر آگیا تو ان فرقہ پرستوں کی ساری محنتوں پر پانی پھر جائے گا۔

 ان سب حرکتوں کو دیکھ کر ہندوستان کے امن و قانون کی بنیادیں لرز اٹھی ہیں اور جذبات کے طوفان میں ہوش وہواس اور فہم وفراست انسانیت دوستی کی بہت سی قدریں تنکے کی طرح بکھرتی اور ہوا میں ہر طرف اڑتی نظر آرہی ہیں ۔ اس وقت مدارسِ اسلامیہ کا وجود ختم کرنے کے لئے پوری طرح سے کوشش جاری وساری ہے، اس کام کو کرنے کے لیے انہوں نے اپنی پوری طاقت داؤ پر لگا دی ہے۔ یہ لوگ ہندوستان کے دستور وآئین اور اس کے سیکولرزم کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دینا چاہتے ہیں ۔ شاید یہ لوگ مدارسِ اسلامیہ کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔

 ابھی تک جتنے مدارسِ اسلامیہ پر بلڈوزر چل چکا ہے یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے، لیکن اب مرکزی حکومت کو چاہیے کہ بلاوقت ضائع کرے یوپی کی بھاجپا حکومت کو لگام دے کہ وہ مدارسِ اسلامیہ کی حفاظت خود کرے اور فرقہ پرستوں کو اس حرکت سے باز آنے کی تنبیہ کرے۔ اور یہ طاقتیں سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کریں ۔ آخیر میں سبھی انصاف پسند اور سیکولر پارٹیوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ملک کے اتحاد و سالمیت کے پیشِ نظر اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر جرآت کے ساتھ میدان میں آئیں اور فرقہ پرست طاقتوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا مل جل کر مقابلہ کریں ۔ ورنہ اس نازک موقع پر شرپسند لیڈروں کو اگر کھلی چھوٹ دے دی گئی تو اس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا ۔ اور آنے والی نسلیں ان کی اس کوتاہی اور غلطی کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔

iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter