علی گڑھ تحریک اور علامہ سید سلیمان اشرف بہاری
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانانِ برصغیر کی فلاح و بہود اور ان کی ہمہ جہت ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں ، عرف عام میں وہ ” علی گڑھ تحریک ” کے نام سے جانی جاتی ہیں ۔
علی گڑھ تحریک کے پس منظر کو جاننے کے لیے انیسویں صدی کے نصف اوّل کے سیاسی منظر نامے کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔ 1857 سے قبل کے سیاسی ، سماجی ، اقتصادی اور مذہبی حالات کو بہتر نہیں کہا جاسکتا ۔ انیسویں صدی کے اوائل میں مغلیہ سلطنت برائے نام رہ گئی تھی ۔ اس دور میں ہندوستان کے اکثر صوبے سرکش جاگیرداروں کے ماتحت تھے جو مغل بادشاہوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا ، ان کے لیے ان حالات کا مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا ۔ 1857 کی جنگ آزادی میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شکست ہوگئی ، اور مکمل طور سے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا ۔ 1857 کی جنگ آزادی سے ہندوستانی مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان سب سے زیادہ ہوا ، اس کی وجہ یہ تھی اس جنگ میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور انگریزوں کا ماننا تھا کہ ہندوستانی مسلمان ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں ، اس جنگ آزادی کے ردِّعمل میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ خسارہ ہوا ۔
سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں ” سائنٹفک سوسائٹی ” کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا ۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور انہیں واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی ۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے ۔ مثلاً راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا ۔
لیکن سب سے بڑا واقعہ سقوطِ دلی کا ہی ہے ۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا ۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یا رد عمل تو مایوسی ، پژمردگی اور ناامیدی تھا ، تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا ۔ علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پا رہا تھا ، اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا ۔ چنانچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا ۔
ابتدا میں سرسید نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لیے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے اور ہندوؤں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے ۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوؤں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا ، اس واقعہ نے سرسید کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا ۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہو گئے ۔ اس مقصد کے لیے علی گڑھ کالج کا قیام عمل میں لایا گیا اور رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کو ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے ۔
١٨٦٩ ء میں سرسید احمد خان کو انگلستان جانے کا موقع ملا ۔ یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے ۔ وہاں کے اخبارات اسپکٹیٹر اور گارڈین سے متاثر ہو کر سرسید نے تعلیمی درس گاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اسی قسم کا اخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اور رسالہ ” تہذیب الاخلاق ” کا اجرا اس ارادے کی تکمیل تھا ۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات انجام دیں ۔
اس تحریک کے مقاصد کے بارے میں سب اہل الرائے حضرات متفق ہیں اور ان کی آراء میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ۔ مثلاً احتشام حسین اس تحریک کے مقاصدکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” اس تحریک کے کئی پہلوؤں میں نئے علوم کا حصول ، مذہب کی عقل سے تفہیم ، سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں ” ۔ جب کہ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں : ” اس تحریک کے مقاصد میں مذہب ، اردو ہندو مسلم تعلقات ، انگریز اور انگریزی حکومت ، انگریزی زبان ، مغرب کا اثر اور تقاضے وغیرہ چند پہلو شامل ہیں ” ۔ ان آراء سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تحریک کے مقاصد کے تین زاویے ہیں ۔
علی گڑھ تحریک کا تیسرا فعال زوایہ ادبی ہے اور اس کے تحت نہ صرف اردو زبان کو وسعت ملی بلکہ اردو ادب کے اسالیبِ بیان اور روح معانی بھی متاثر ہوئے ۔ اور اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع تر ہو گیا۔ سرسید سے پہلے اردو ادبیات کا دائرہ تصوف، تاریخ اور تذکرہ نگاری تک محدود تھا ۔ طبعی علوم ، ریاضیات اور فنون لطیفہ کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی تھی ۔ سرسید کا اثر اسلوب بیان پر بھی ہوا اور موضوع پر بھی ۔ اگرچہ سرسید سے پہلے ” فورٹ ولیم کالج ” کی سلیس افسانوی نثر ، دہلی کی علمی نثر اور مرزا غالب کی نجی نثر ، جس میں ادبیت اعلیٰ درجے کی ہے ۔ نظر انداز نہیں کی جا سکتی ۔ لیکن ان سب کوششوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع نہیں تھا ۔ سرسید احمد خان کی بدولت نثر میں موضوعات کا تنوع اور سادگی پید اہوئی ۔
چوں کہ علی گڑھ تحریک نے قومی مقاصد کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور ان کا روئے سخن خواص سے کہیں زیادہ عوام کی طرف تھا ، اس لیے صرف شاعری اس تحریک کی ضرورت کی کفیل نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس لیے علی گڑھ تحریک نے سستی جذباتیت کو فروغ دینے کی بجائے گہرے تعقل ، تدبر اور شعور کو پروان چڑھانے کا عہد کیا اور صرف اردو نثر ان مقاصد میں زیادہ معاونت کر سکتی تھی ۔ چنانچہ ادبی سطح پر علی گڑھ تحریک نے اردو نثر کا ایک باوقار ، سنجیدہ اور متوازن معیار قائم کیا اور اُسے شاعری کے مقفیّٰ اور مسجّع اسلوب سے نجات دلا کر سادگی اور متانت کی کشادہ ڈگر پر ڈال دیا اور یوں ادب کی افادی اور مقصدی حیثیت اُبھر کر سامنے آئی ۔
علی گڑھ تحریک نے سائنسی نقطہ نظر اور اظہار کی صداقت کو اہمیت دی تھی اور اس کا سب سے زیادہ اثر سوانح اور سیرت نگاری کی صنف پر پڑا ۔ اٹھارویں صدی میں مسیحی مبلغین نے ہادیِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر نامور مسلمانوں کے غلط سوانحی کوائف شائع کر کے اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی تھی ۔ مسیحی مبلغین کی ان کوششوں میں کبھی کبھی ہندو مورخ بھی شامل ہو جاتے تھے ۔ علی گڑھ تحریک چوں کہ مسلمانوں کی نشاةِ ثانیہ کو فروغ دے رہی تھی ۔ اس لیے اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کی گئی ۔ چنانچہ سرسید کی ” خطباتِ احمدیہ ” ، مولوی چراغ علی کے دو رسالے ” بی بی حاجرہ ” اور ” ماریہ قبطیہ ” اور ڈپٹی نذیر احمد کی ”امہات الامہ ” میں تاریخی صداقتوں کو پیش کیا گیا ۔
لیکن اس دور کے سب سے بڑے سوانح نگار شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی تھے ۔ مولانا شبلی نے نامورانِ اسلام کو سوانح نگاری کا موضوع بنایا اور ان کی زندگی اور کارناموں کو تاریخ کے تناظر میں پیش کرکے عوام کو اسلام کی مثالی شخصیتوں سے روشناس کرایا ۔ جب کہ مولانا حالی نے اپنے عہد کی عظیم شخصیات کا سوانحی خاکہ مرتب کیا ۔ چنانچہ ” یادگار غالب ” ، ” حیات جاوید ” اور ” حیات سعدی ” اس سلسلے کی کڑیا ں ہیں ۔ اس عہد کے دیگر لوگ جنہوں نے سوانح عمریاں لکھی ہیں ، ان میں ڈپٹی نذیر احمد ، مولوی چراغ علی اور عبدالحلیم شرر کے نام شامل ہیں ۔ (یہ بھی پڑھیں حضرت سید شاہ اکبر دانا پوری کی نعتیہ شاعری – محمد طفیل احمد مصباحی )
سرسید احمد خان نئی تعلیم کے حامی اور جدیدیت کے علم بردار تھے ۔ انہوں نے حضور نبی کریم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کے لیے اخلاقیات کی خالص قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کی ۔ علی گڑھ تحریک نے قومی زندگی میں جو ولولہ پیدا کیا تھا ، اسے بیدار رکھنے کے لیے ملی تاریخ سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن اس تحریک نے تاریخ کو سپاٹ بیانیہ نہیں بنایا بلکہ اس فلسفے کو جنم دیا کہ تاریخ کے اوراق میں قوم اور معاشرے کا دھڑکتا ہوا دل محفوظ ہوتا ہے ۔ جس کا آہنگ دریافت کرلینے سے مستقبل کو سنوارا اور ارتقا کے تسلسل کو برقرار رکھا جا سکتا ہے ۔ اسی نقطہ نظر سے سرسید احمد خان نے ” آئینِ اکبری ” ، ” تزکِ جہاں گیری ” اور ” تاریخِ فیروز شاہی ” دوبارہ مرتب کی ۔ شبلی نعمانی نے ” الفاروق ” ، ” المامون ” اور ” اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر ” لکھی ۔ جب کہ مولوی ذکا اللہ نے ” تاریخ ہندوستان ” مرتب کی ۔
علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی قصیدہ خوانی نہیں کی اور نہ ہی اسلاف کی عظمت سے قوم کو مسحور کیا بلکہ سرسید احمد خان کا ایمان تھا کہ بزرگوں کے یادگار کارناموں کو یاد رکھنا اچھی اور برا دونوں طرح کا پھل دیتا ہے۔ چنانچہ اس تحریک نے تاریخ کے برے پھل سے عوام کو بچانے کی کوشش کی اور ماضی کے تذکرۂ جمیل سے صرف اتنی توانائی حاصل کی کہ قوم مستقبل کی مایوسی ختم کرنے کے لیے ایک معیار مقرر کر سکے ۔ علی گڑھ تحریک نے تاریخ نگاری کے ایک الگ اسلوب کی بنیاد رکھی بقول سرسید :
ہر فن کے لیے زبان کا طرز بیان جداگانہ ہے ۔ تاریخ کی کتابوں میں ناول اور ناول میں تاریخی طرز کو کیسی ہی فصاحت و بلاغت سے برتا گیا ہو دونوں کو برباد کر دیتا ہے ۔ اس لیے علی گڑھ تحریک نے تاریخ نگاری میں غیر شخصی اسلوب کو مروج کیا اور اسے غیر جانب داری سے ” تاریخ نگاری ” میں استعمال کیا ۔ اس میں شک نہیں کہ تاریخ کا بیانیہ انداز نثر کی بیشتر رعنائیوں کو زائل کر دیتا ہے ۔ تاہم سرسید احمد خان تاریخ کو افسانہ یا ناول بنانے کے حق میں ہرگز نہیں تھے اور وہ شخصی تعصبات سے الگ رہ کر واقعات کی سچی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے تاریخ کے لیے سادہ اور بیانیہ نثر استعمال کرنے پر زور دیا اور اس نقطۂ نظر کے تحت ” آثار الصنادید ” کی بوجھل نثر کو سادہ بنایا ۔
غرض کہ علی گڑھ تحریک ایک ہمہ جہت علمی ، فکری ، ادبی ، سیاسی اور فلاحی تحریک تھی ، جس کے دیر پا اثرات سر سید کے بعد بھی دیکھنے کو ملے ۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی اپنی کتاب ” سرسید اور علی گڑھ تحریک ” کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں :
ہندوستان کے مسلمانوں کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی فکری ، علمی ، سماجی ، مذہبی ، سیاسی اور ادبی تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس پر سرسید اور علی گڑھ تحریک نے بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنے اثرات نہ چھوڑے ہوں ۔ سرسید اور ان کے رفقاء کے لیے مدرسة العلوم ایک تعلیمی درس گاہ ، نئے فکری رجحانات کی ایک علامت ، احیائے ملی کی ایک تحریک کا نام تھا ۔ یہاں ” آدم گری ” بھی ہوتی تھی اور تعمیر ملت کا سامان بھی مہیا کیا جاتا تھا ۔ یہاں وقت کے اشاروں کو سمجھنا بھی سکھایا جاتا تھا اور اس کے دھاروں کو موڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی جاتی تھی ۔ سرسید کی بلند حوصلگی ، عزمِ راسخ ، خلوص نیت اور جہد مسلسل نے اس مشکل اور متنوع کام کو ایک تحریک کی شکل دے دی تھی ۔ زمانے کے پیچ و خم کے ساتھ تحریک کے خد و خال بھی بدلتے رہے ، لیکن سرسید کے افکار کی معنویت ہر دور کے لیے بڑھتی ہی رہی اور ان کی یہ آواز برا بر فضاؤں میں گونجتی رہی ۔
سنگِ تربت ہے مرا گر دیدۂ تقریر دیکھ
چشمِ باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ
( دیباچہ سرسیّد اور علی گڑھ تحریک ، ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ )
علی گڑھ تحریک کے فروغ میں علامہ سید سلیمان اشرف کا حصّہ :
” علی گڑھ تحریک ” ایک علمی ، ادبی ، فکری ، سیاسی اور سماجی تحریک تھی جس کے بنیاد گزاروں نے اس کے بینر تلے مختلف میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور ملک و معاشرے میں اس کے دیر پا اثرات مرتب کیے ۔ سر سید کی موت کی بعد بھی اس انقلابی تحریک کے ایوان سے اٹھنے والی صداؤں کی گونج برسوں تک سنائی دیتی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کے مشن کو آگے بڑھانے اور اس کے متعین کردہ خطوط پر بعد کے اربابِ فضل و کمال کام کرتے رہے ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں :
علی گڑھ تحریک کا حقیقی کام وہ نہیں جو علی گڑھ کالج میں ہوا ، بلکہ وہ ہے جو علی تحریک کے علم بردار سر سید اور ان کے رفقاء نے انجام دیا جو ان کی تحریک کی اس علمی روح سے متاثر ہوئے ۔ سر سید کے انتقال کے بعد یہ ایک مرکز ضرور تھا ، مگر علمی رہنمائی کا منصب اس کے ہاتھ سے چھن گیا ۔ تاہم سر سید کی پیدا کی ہوئی علمی لہر قیدِ مقامی سے آزاد ملک میں پھیل گئی ۔ ان مقتدر اور نامور ہستیوں کی فہرست طویل ہے جنہیں ہم ” علی گڑھ تحریک کے اہم اراکین ” قرار دے سکتے ہیں ۔
سر سید کے نامور رفقاء میں نواب محسن الملک ، نواب وقار الملک ، مولانا حالی ، مولانا شبلی ، مولوی نذیر احمد ، مولوی چراغ علی، مولوی ذکاء اللہ ، بعد میں مولانا وحید الدین سلیم ، نواب عماد الملک اور عبد الحلیم شرر ۔
ان نام ور شخصیات کے بعد دوسرا دور شروع ہوتا ہے ، جس میں نواب صدر یار جنگ ( مولانا حبیب الرحمن شیروانی رفیقِ خاص علامہ سید سلیمان اشرف بہاری ) ، ڈاکٹر سر ضیاء الدین ، صاحبزادہ آفتاب احمد خاں ، مولوی عبد الحق ، مولانا طفیل احمد ، مولانا ظفر علی خاں ، سجاد حیدر یلدرم ، مولوی عزیز مرزا ، مولوی عنائیت اللہ اور مولانا حسرت موہانی شامل ہیں ۔ (یہ بھی پڑھیں سید نور الحسن نور نوابی کی غزل گوئی – طفیل احمد مصباحی )
تیسرے دور کی شخصیات میں رشید احمد صدیقی ، عبد الماجد دریابادی ، خواجہ غلام السیدین ، ڈاکٹر عابد حسین ، سید ہاشمی فریاد آبادی ، ڈاکٹر ذاکر حسین ، پروفیسر محمد مجیب اور قاضی تلمذ حسین قابل ذکر ہیں ۔
( اردو ادب کا تہذیبی پس منظر ، ص : ١٢٥ )
ڈاکٹر سید عبداللہ نے علی گڑھ تحریک کے جن اراکین کا نام پیش کیا ہے ، ان میں سے بعض تو علامہ سید سلیمان اشرف بہاری کے مخصوص احباب و رفقاء میں تھے ، مثلاً : نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی ، ڈاکٹر سر ضیاء الدین اور بابائے اردو مولوی عبد الحق اور بعض سید سلیمان اشرف کے تلامذہ تھے ۔ مثلاً : پروفیسر رشید احمد صدیقی و ڈاکٹر ذاکر حسین ۔ اگر چہ سید عبداللہ نے سید سلیمان اشرف کا ذکر علی گڑھ تحریک کے اراکین میں نہیں کیا ہے ، لیکن تاریخی صداقت اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ سلیمان اشرف صاحب نے اس تحریک کے فروغ و استحکام میں بھرپور حصہ لیا اور علی گڑھ تحریک کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد ” عصری تناظر میں تعلیم و تعلم کا فروغ ” میں پیش پیش رہے ۔ نیز اس کے اراکین کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے ۔
سید سلیمان اشرف اپنے وقت کے جید عالم و فاضل ، مفکر و دانش ور ، ماہرِ تعلیم ، محققِ لسانیات ، باکمال ادیب ، کامیاب انشا پرداز ، بلند پایہ خطیب اور سیاست کے داؤ پیچ سے باخبر ایک ممتاز مسلم قائد تھے ۔ انہوں نے مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ میں ٣٧ / سال تک استاد اور صدر شعبۂ دینیات کی حیثیت سے تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دیں ۔ موصوف سرسید سے مذہبی افکار و نظریات میں شدید اختلاف رکھنے کے باوجود ملک کی اس عظیم دانش گاہ کے تا دمِ حیات محافظ و پاسباں بنے رہے اور اس کے خلاف ریشہ دوّانی کرنے والے مخالفین کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے ۔ سرسید کے تعلیمی مشن کو آگے بڑھانے والے اساتذۂ علی گڑھ میں ان کا نام بھی سرِ فہرست علماء و اساتذہ میں لیا جاتا ہے ۔
عبد الماجد دریابادی ( جو سید سلیمان اشرف کے معاصر تھے ) لکھتے ہیں :
اہل بِہار کا ایک مرکز علی گڑھ ( مسلم یونیورسٹی ) بھی ہے ۔ مولانا سید سلیمان اشرف مرحوم کی زبردست شخصیت ، بعض نادر خصوصیات کی حامل تھی ۔ ١٩٢٠ ء میں جب عدمِ تعاون ( تحریک ترکِ موالات ) کا طوفان اٹھا تو مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا محمود الحسن دیوبندی اور مولانا محمد علی جوہر نے اپنی تمام تر قوت علی گڑھ کالج ( موجود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ) کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے لیے وقف کر دی تو مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی ، ڈاکٹر سر ضیاء الدین اور مولانا سید سلیمان اشرف بہاری کی مساعی اور کوششوں سے مسلمانانِ ہند کا یہ عظیم ادارہ شکست و ریخت سے محفوظ رہا ۔ اگر چہ ان حضرات پر مخالفین کی طرف سے ہر طرح کے طعن و تشنیع کے تیروں کی بوچھار کی گئی ، لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی ۔
( ماہنامہ ندیم ، گیا ” بہار نمبر ” ١٩٤٠ ، ص : ٣٣ / ماہنامہ معارف ، اعظم گڑھ ، ١٩٥٠ء ، ص : ٤٨١ )
سید سلیمان اشرف کی تہہ دار علمی و ادبی شخصیت ، سیاسی شعور و بصیرت اور خصوصیت کے ساتھ سرسیّد کے تعلیمی مشن کو آگے بڑھانے میں ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر عبد الباری ندوی لکھتے ہیں :
سرفروشانِ تحریکِ علی گڑھ کے سلسلۂ زرّیں کی داستان بڑی طویل اور تہہ دار ہے ۔ مولانا سید سلیمان اشرف بہاری بھی انہیں چند ہستیوں میں نظر آتے ہیں ۔ ان کی شخصیت کے رنگ و روپ کی امتیازی شان اور انفرادیت بہت کچھ ابھر کر سامنے آتی ہے ، جب ہم ان کی دینی خدمات کو سامنے رکھ کر ان کے دینیات سے متعلق درسِ عوام و خواص کے لیے قرآن حکیم کا روزانہ تفسیری بیان اور ان کی تصنیفی و تالیفی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ لیکن ایک دوسرے رخ سے علمائے ہند کی صف میں مولانا کی نابغۂ روزگار شخصیت ہمیں اور زیادہ قد آور نظر آتی ہے ، جب ملتِ بیضاء کے تئیں سیاسی اور امورِ تمدّن میں ان کی بصیرتوں سے بھی قدرے قربت کی صورت پیدا کرتے ہیں ۔ ان کی تحریریں ، ان کے بلند سیاسی افکار ، اسلامی ثقافت و تمدّن کی باریک بینیوں اور قومی و ملی درد کے تب و تاب کا عکس نظر آتی ہیں ……………… تحریکِ آزادی کے باب میں مولانا سید سلیمان اشرف کی قدر و قیمت دو حیثیتوں اور بڑھ جاتی ہے ۔ ایک طرف تو وہ مولانا فضلِ حق خیرآبادی کی تحریکِ آزادی کی سرفروشیوں سے بہرہ ور ہوتے نظر آتے ہیں ۔ دوسری طرف آپ کا تعلق ” دبستانِ علی گڑھ ” اور ” تحریکِ سر سید ” سے یوں جڑا نظر آتا ہے کہ آپ نے مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات کے صدر اور ناظم کی حیثیت سے تقریباً ٣٠ / سال ( راقم کی ناقص معلومات کی حد تک ٣٧ / سال ) علی گڑھ میں گزارے تھے ۔ آپ کی تحریروں میں سرسیّد کے تعلیمی مشن اور اصلاحِ ملت و معاشرہ کی جھلک صاف نظر آتی ہے ۔
( سہ ماہی فکر و نظر ، علی گڑھ ، مارچ ١٩٩١ء ، ص : ٤٥ – ٥٠ – ٥١ )
علی گڑھ تحریک کے قیام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ تحقیقی اصول و منہج اور سائنٹفک طریقۂ کار کو اپناتے ہوئے ” ادبیات ” کے فروغ و استحکام کا کام بحسن و خوبی انجام دیا جائے ۔ علامہ سید سلیمان اشرف نے اس جہت سے بھی دو چار بڑے اہم کارنامے انجام دیے ۔ مشہور مشتشرق جرجی زیدان نے عربی زبان و ادب اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے خلاف ہفوات و خرافات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اور شبلی نعمانی نے کچھ حد تک جس کا دفاع بھی کیا تھا ، لیکن سید سلیمان اشرف باضابطہ اس موضوع پر قلم اٹھایا اور دنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانوں میں عربی زبان کی اہمیت و فوقیت اور لسانی عظمت پر بلند پایہ تصنیف ” المبین ” لکھ کر جرجی زیدان کا ناطقہ بند کردیا ، جس کی تعریف دیگر علمائے عصر سمیت علامہ اقبال نے بھی کی ۔
اسی طرح حضرت امیر خسرو علیہ الرحمہ کی مشہور زمانہ فارسی شعری مجموعہ ” مثنوی ہشت بہشت ” کو انہوں نے از سرِ نو مرتب و مدوّن کیا اور فارسی زبان و ادب کی تاریخ پر تقریباً ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل اس کا مقدّمہ ” الانھار ” کے نام سے لکھا ، جس کے بارے میں نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی نے کہا کہ ” سید سلیمان صاحب کا یہ وقیع اور بلند پایہ مقدّمہ معروف بہ ” الانھار ” شبلی نعمانی کی ” شعر العجم ” سے بہتر ہے ۔