سیاست میں علماء کا کردار
بروز جمعرات 24 اگست 2023کو کرناٹک کا مشہور روزنامہ سالار کے اداریہ وفیچر میں ایک مضمون بعنوان سیاست میں مذہبی حضرات کا رول جو کسی محمود خان میسور کا باصرہ نواز ہوا اور عنوان کافی دلچسپ ہونے وجہ سے مضمون اول تا آخر حرف بحرف پڑھا گیا۔ مضمون کی شروعات میں ریاست کرناٹک کے مسلمانوں کو دو طبقے میں تقسیم کیا گیا پھر اسی تقسیم پر پورا مواد سپرد قرطاس کیا گیا۔ یہ مضمون پڑھنے بعد یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مضمون نگار کا اسلامی تاریخ بالخصوص تاریخ مدینہ اور میثاق مدینہ سے بالکل کوئی لینا دینا نہیں۔ جہاں مضمون نگار غیر مسلم مذہبی رہنماؤں کی تعریف میں آسمان وزمین کے قلابے ملارہے ہیں وہیں علماء پر تنقید کرتے ہوئے ذرا برابر پاس ولحاظ تک نہیں کیا گیا۔ اگر تنقید کا نشانہ بنانا ہی تھا تو موصوف شائستگی اور سنجیدگی کے حدود میں رہ کر کرتے تو وہ قابل ستائش بھی ہوتے مگر موصوف قلم پکڑتے ہی برس پڑے اسی کو قلمی آوارگی اور بےڈھنگی کہتے ہیں۔ ایک قلم گار یا مضمون نگار کا معنی یہ نہیں کہ جو کچھ نوک قلم پر آئے خامہ فرسائی کردیں بلکہ لکھتے وقت یہ ذہن نشین کرنا چاہئے کہ میرا یہ مضمون کئی پڑھے لکھے لوگوں تک جائے گا۔ موصوف کے محدود مطالعے اور محدود سوچ کے مطابق غیر مسلم مذہبی رہنما پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ اور مسلم علماء ان پڑھ، حالات اور سیاست کا علم نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب موصوف کا خام خیال اور تنگ ذہنی کا نتیجہ ہے۔
موصوف کہتے ہیں "مسلم علماء سوائے مذہبی علم کے اور کسی فیلڈ کے ماہر نہیں ہوتے مگر پھر بھی وہ ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں اور عام مسلمانوں کو غلط مشورے دیتے ہیں۔"مندرجہ بالا اقتباس سے آپ موصوف کے دریدہ ذہنیت اور دیدہ دلیری کا خوب انداز ہوگیا ہوگا۔ موصوف کے مضمون میں اور بھی بہت ساری باتیں ہیں جو قابل گرفت ہیں۔ اگر تنقید برائے اصلاح کے پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ایک کا جائزہ لیا جائے تو ایک اچھا خاصا تنقیدی مضمون تیار ہو جائے گا۔ لیکن ہم چاہتے نہیں۔ ہم۔ یہاں پر موصوف کے مذکورہ بالا اقتباس کے متعلق اپنے معروضات پیش کریں گے اور موصوف کو اسلامی تاریخ کے چند روشن وتابناک پہلو جو موصوف سے اوجھل رہ گئے وہ دکھا کر ہم آپ سے رخصت ہو جائنگے۔ موصوف علماء کے بارے نہیں جانتے تو کیا اچھا ہوتا اگر وہ اسلامی تاریخ مطالعہ کرتے اور حقیقت جاننے کی کوشش کرتے تو یہ نوبت نہ آتی۔
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
مسلم علماء صرف مذہبی علم ہی رکھتے ہیں۔ یہ من گھڑت قضیہ ہمیں تسلیم نہیں۔ اس لیے کہ علم کے جتنی شاخیں ہیں ان سب میں آپ کو علماء کی تحریریں، اور تقریریں اور کتابیں ملیں گی۔سیاست بھی علم کی ایک شاخ ہے۔ اس کے اہم اجزاء بھی مدارس دینیہ اور جامعات اسلامیہ میں پڑھائے جاتے ہیں۔ علم ریاضی، علم ہندسہ، سماجیات، اقتصادیات، معاشیات، سیاسیات اور ایسے ہی دیگر تمام شعبے بھی مدارس میں تکرار کئے جاتے ہیں۔
ہمارے ملک کی تاریخ میں بھی ایسے ایسے سیاسی قائدین آپ کو ملیں گے جو مدارس دینیہ کے فارغین تھے۔ جن کی فہرست کافی طویل ہے۔سیاست علماء نہیں کرسکتے یہ تنگ نظریہ اور خام خیالی ہے۔ اس لیے کہ اسلامی تاریخ میں جنہوں نے بھی سیاست کی وہ اکثر و بیشتر علماء یا علماء سے فیض یافتہ تھے۔ اب آئیے اسلامی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ حقیقت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا علماء سیاست نہیں کرسکتے؟ اگر ہاں تو سیاست کا علماء کا کردار کیا ہے؟ ان سب کا جواب ہمیں تاریخ پڑھنے سے خود بخود معلوم ہو جائے گا۔
اسلامی اوراق اورتاریخ کامطالعہ کریں گے تو بخوبی پتہ چل جائے گاکہ سیاست مدنیہ کیاہے؟؟۔تاریخ اور اسلامی نظام سے نابلد سیاست داں دونوں کو چشمک نظروں سے دیکھتے ہیں ،جو کج فہمی اورناعاقبت اندیشی کانتیجہ ہے۔ سیاست بغیر مذہب کے آمریت ،ظلم وتشدد، تاناشاہی اور بربریت کی طرف دعوت دیتاہے۔اگراسی میں مذہب اسلام دخیل ہوجائے تو سیاست کاتوازن برقرار اوراعلی مقاصد کیلئے نہایت سودمندہوتاہے، اس سے عدل وانصاف کی فضاء قائم رہتی ہے۔عوام پرامن ماحول اوراچھے معاشرے میں زندگی بسرکرتے ہیں ۔ آخرالزماں حضور اکرم ﷺ مدبر،مفکر اورماہر سیاست داں تھے۔ جسے غیروں نے بھی تسلیم کیاہے۔ میثاق مدینہ جومشہور دستاویز ہے امت کیلئے یہ آفاقی سیاسی ضابطۂ نظام تا قیامت رہے گا۔ آپ ﷺ کی مکی ومدنی زندگی اقوام عالم کیلئے ضابطہ حیات ہے۔آپ ایک طرف دین کے داعی ہیں تو دوسری طرف شہنشاہ وقت بھی ہیں ۔ ایک طرف امام الانبیاء ہیں تودوسری طرف فوجی کمانڈربھی ہیں ۔آپ کی حکومت اس امت کیلئے ترک وراثت ہے،علماء اور ائمہ انکے خصوصی وارث اور حقدار ہیں۔ جس کا بین ثبوت اور مثال خلفاء اربعہ کی حکمرانی جو خلیفہ اورمسجد نبوی کے امام بھی تھے۔خلفاء کامعیاراورنظام حکمرانی مذہب اور دین اسلام کے اساس پر تھا۔
۔ہندوستانی تاریخی حقائق سے نابلد مسلم مفادپرست لیڈر اور ہمارے قلم کار میسور والے کومعلوم ہوناچاہئے کہ 1947کے بعدنہروکابینہ میں دومسلم وزیر ہوئے ایک سابق امام ناخدا مسجد کولکتہ کے مولاناابوالکلام آزاد وزیرتعلیم تھے ،دوسرے جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ دارمولاناحفظ الرحمن سیوہاروی یہ وزیرٹرانسپورٹ تھے۔ویسے بیشمار مذہبی لیڈران ہیں جن کو اقتدار اوروزارت پیش کی گئیں مگر ان علماء اور ئمہ نے دین پر سیاست اوراقتدارکو ترجیح نہیں دیں۔ اس کی زندہ جاوید مثال بھی سن لیجئے ایمرجنسی کے دور میں جب آنجہانی اندرا گاندھی نے نسبندی کا قانون پاس کی تھی تو ملک کے طول وعرض میں مخالفتیں ہونے لگیں اندرا گاندھی اس وقت کے عظیم دینی رہنما اور عظیم روحانی پیشوا مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان فاضل بریلوی سے ملاقات کے لیے بریلی پہنچی تو مفتی اعظم ہند نے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔
یہ ہمارے مسلم علماء ہی ہیں۔ جو سیاست کے نشیب وفراز کو جانتے ہوئے بھی اس سے دور رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں سیاست کے پیچ وتاؤ نہیں معلوم جیسا کہ ہمارے محسن محمود خان سمجھ رہے ہیں۔ اگر پڑوسی ملک کا جائزہ لیں تو قیام پاکستان سے لیکر آج تک ایوان پاک میں سیاسی علماء کی ایک لمبی قطار موجود ہے۔ قیام پاکستان کے روح رواں صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی بھی ایک دینی مدرسے کے فارغ التحصیل عالم اور پروردہ ہیں۔
آسام All India United Democratic Front پارٹی کے قائد مولانا بدر الدین اجمل ایک مدرسے کے فیض یافتہ ہیں۔ سابق یم پی مولانا عبید اللہ خان اعظمی بھی ایک عالم دین ہیں۔ کشن گنج کے سابق سیاسی لیڈر مولانا اسرار الحق قاسمی بھی ایک مدرسے کے تعلیم یافتہ تھے۔ حیدرآباد کے مشہور سیاسی قائد اسد الدین اویسی بھی ایک عالم دین کے فیض یافتہ ہیں۔ یہی نہیں ان کے دادا عبد الواحد اویسی حضور شیخ الاسلام کے فیض یافتہ اور جید عالم دین تھے۔
ایسے بے شمار مسلم علماء ہیں جو اس ملک کی سیاست کے پیچیدہ گیسو سنوارتے رہے اور ملک کا نام عالمی سطح پر روشن کرتے رہے۔ اگر میں ان تمام سیاسی علماء کے کارہائے نمایاں ذکر کروں تو موصوف قلم پکڑنا چھوڑ دینگے۔ پھر از سر نو مضمون نگاری اور تاریخ کے صفحات ورق گردانی کرتے رہ جائیں گے۔ آخر موصوف سے ہم والہانہ اپیل کرتے ہیں کہ علماء پر تنقید کرنے کے بجائے تاریخ کا مطالعہ کیجئے اور حقیقت بیانی سے کام لیجئے۔ اللہ تعالی ہم سب کو حق گوئی اور صواب اندیشی کی توفیق عطا فرمائے آمین۔