شکر گزاری
شکر گزاری ایک ایسا نسخہ ہے جس میں بندہ دو طریقے سے ایمان کو تقویت پہنچاتا ہے۔ ایک تو اس طریقے سے کہ وہ ساری نعمتوں سے کنارہ کشی کر لے، نفس پر جفا کشی کرے اور اس طرح سے ہر وہ نعمت جسے اللہ نے نوازا ہے اس پر صبر و قناعت کر لے۔ دوسرا یہ کہ اللہ کی تمام نعمتوں کو آز مائے لیکن مقصد دنیا داری نہ ہو بلکہ دنیا کو یہ دکھا نا ہو کہ یہ دیکھو میرے رب نے مجھے یہ نعمتیں نوازی ہے۔
بہر حال اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”وسنجزی الشاکرین“ ہم عنقریب شکر گزاروں کو اجر دیں گے۔ ایک دوسری جگہ اور ارشاد فرمایا کہ “لاقعدن لھم صراطک المستقیم ..... ولا تجد اکثرھم شاکرین” بعض علماء کے نزدیک یہ راستہ ہے شکر کا،کیوں کہ اس کے بعد کہا گیا کہ ان میں سے اکثر شکر گزار نہیں ہوں گے۔ گو یا شکر کا راستہ صراط ِ مستقیم ہے۔ صحیح ابن حبان میں حضرت ِ عائشہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث مروی ہے۔ اس میں آپ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور تاجدار ِ مدینہ میرے حجرے میں تشریف لائے اور آدھی رات کے وقت اٹھ کر عبادت ِ الہی میں مشغول ہو گئے، آپکی نماز کا یہ عالم تھا کہ کوئی رکوع یہ سجدہ ایسا نہیں گزرتا جس میں آپکی آہ و زاری سنائی نہ دے۔ یہاں تک کے آپ کی داڈھی اور سینہئ ِ مبارک آنسو ؤں سے تر ہو گیا۔ بالآخر حضرت ِ بلال نے آ کر اطلاع دی کہ سرکار فجر کا وقت ہو گیا ہے۔ تاجدارکونین نے نماز ختم کی تو میں نے پوچھا ”یا رسول اللہ آپکو اس قدر گریہ و زاری کی کیا ضرورت ہے، آپکو تو اللہ نے تمام گناہوں سے بچائے رکھا ہے؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔“کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔”
اگر حضور ﷺ تمام عالم میں سب سے زیادہ معصوم ہیں اس کے باوجود بھی آپ کی عبادتوں کا یہ عالم ہے کہ صرف اللہ تبارک وتعالی کا شکر ادا کرنے کے لئے اس قدر راتوں میں گریہ و زاری کر رہے ہیں، تو ہمیں اللہ کی کن کن نعمتوں کا شکر کرنا چاہیے اس کا تقاضہ کر پانا بھی مشکل ہے۔ دوسری ایک حدیث جسے اما م ِ غزالی نے بھی احیاء علوم الدین میں ذکر کیا ہے “اللہ کے ایک نبی کا ایک ایسے پتھر سے گزر ہوا جو خود تو چھوٹا تھا پر اس سے پانی بہت نکل رہا تھا۔ اس نبی کی دل میں تشویش پیدا ہوئی اور تبھی اللہ تعالی نے پتھر کو قوت ِ گویائی عطا فرمائی اوراس پتھر نے بتایا ، اے اللہ کے نبی جب سے میں نے اللہ تعالی کا یہ فرمان سنا ہے کہ(وقود ھا الناس والحجارۃ) انسان اور پتھر جہنم کا ايندھن ہوں گے۔ تب سے میرے آنسو نہیں رکتے۔
اللہ کے اس نبی کو اس کی حالت پر رحم آیا اور انہوں نے دعا کی جس کے بعد اللہ نے اس پتھر کو معاف فرما دیا۔ کچھ عرصہ بعد اس نبی کا دوبارہ اس جگہ سے گزر ہوا اور انہوں نے اس پتھر کو دیکھا جو اسی طرح روئے جا رہا ہے۔ آپ نے فرمایا “اب کیا وجہ ہے رونے کی؟” اس پتھر نے کہا پہلے خوف سے رو رہا تھا اور اب خوشی و مسرت سے رو رہا ہوں۔
انسان کا دل بھی اسی پتھر کی طرح ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو اس سے بھی زیادہ سخت۔ چنانچہ جب بھی ہمیں کوئی غم و تکلیف پہنچے، ہمیں اللہ تعالی کا شکر کرنا چاہئے اور صبر سے کام لینا چاہئے۔ اسی طرح جب ہمیں کسی طرح کی خوشی پہنچے تو اللہ تعالی کا شکر کرنا چاہئے اوراس نعمت سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالی ہمیں تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین