حج و زیارت اور سیلفی کا جنون
مذہب اسلام میں تصویر کشی ناجائز و حرام ہے، سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق ٹیوی اور ویڈیو حرام ہے، کیوں کہ اس نئی ایجاد یعنی تصویر کشی اور ویڈیو گرافی کے مضر اثرات زہر قاتل کی طرح خواص و عوام کی رگوں میں تیزی سے پھیل رہے ہیں، جس نے ماحول کو بگاڑ کر رکھ دیا، بے پردگی کو عام کر دیا، ہاں بوجہ مجبوری جیسے پاسپورٹ یا دیگر ضروری دستاویزات کے لیے تصویر کھنچوانے کو فقہاء نے جائز قرار دیا ہے، لیکن دور جدید میں رائج اسمارٹ فون پر لی جانے والی سیلفی بہت تیزی کے ساتھ عام ہو چکی ہے، ہر مناسب نا مناسب جگہوں پر لوگ سیلفی لینا شروع کر دیتے ہیں، یوں کہیے کہ سیلفی بعض لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے اگر بنیت سیر و تفریح کہیں جانا ہوتا ہے اور وہاں سیلفیاں نہ لی جائیں تو سفر ادھورا لگتا ہے، اب یہ قصہ صرف سیلفی تک ہی محدود نہیں بلکہ اب جگہ جگہ ویڈیو گرافی بھی کی جاتی ہے، شارٹ ویڈیوز پر چھوٹے چھوٹے بچے معاذ اللہ ڈانس کرتے نظر آتے ہیں،
یہ مضر بیماری اتنی تیزی سے پھیلی کہ ہمارے مقدس مقامات اور عبادت و ریاضت بھی اس سے محفوظ نہیں، حرمین شریفین جیسے مقدس مقامات بھی اس کی زد میں آ چکے ہیں، ادب و احترام کا پاس کیے بغیر لوگ توبہ و استغفار، اوراد و وظائف، تسبیح و تہلیل، دعا و مناجات، فرائض و واجبات کو پس پشت ڈال کر کعبہ معظمہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیٹھ کر کے تصویر لیتے نظر آتے ہیں، جن ہاتھوں کو رب العالمین کی بارگاہ میں دعا و استغفار کے لیے اٹھنا چاہیے تھا وہ ہاتھ اب سیلفی لینے یا ویڈیو بنانے یا کسی سے ویڈیو کالنگ پر بات کرنے کے لیے اٹھتے نظر آتے ہیں، ان حرکتوں نے کعبہ معظمہ کا تقدس اور مدینہ منورہ کی حرمت و عصمت کو پامال کر دیا،
آج حج و عمرہ کے مبارک سفر پر جانے والے حجاج کرام اور معتمرین حضرات کا سب سے پہلا کام یہی رہ گیا ہے کہ خانہ کعبہ اور گنبد خضرا کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہونا اور تصویر لے کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دینا۔ اُن کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ کتنی اعلیٰ قسم کی بے ادبی ہے، اولاً حرام کام کا ارتکاب (یعنی تصویر کشی کرنا) پھر اُس پر جرات یہ اُن مقدس مقامات کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہونا، کاش ہم نے وہاں جانے سے پہلے حاضری کے آداب سیکھ لیے ہوتے،
زہے نصیب آپ کو اُس پاک در پر حاضری کا شرف عطا ہوا تو اس کو موقع غنیمت جان کر زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنی چاہیے، کیوں کہ یہاں ایک عمل کا ثواب پچاس ہزار تک بڑھا دیا جاتا ہے، شب و روز عبادت کرے، قرآن کریم کی تلاوت کرے، خود کو بدلنے کی کوشش کرے نہ کہ اُن مقدس مقامات کی عزت و احترام کو بھلا دے، یاد رکھیے یہ وہ جگہ ہے جہاں ذرا سی بے ادبی سے ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے، یہاں قدم بھی آہستہ آہستہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، کسی شاعر نے کہا ہے:
سنبھل کر پاؤں رکھنا حاجیو! شہر مدینہ میں
کہیں ایسا نہ ہو سارا سفر بے کار ہو جائے
یہ کوچہ جاناں ہے آہستہ قدم رکھنا
ہر جا پہ ملائک کی بارات کھڑی ہوگی
روضہ مبارک کی طرف پیٹھ کرنا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی جانب، مواجہ شریف، سنہری جالیوں کی طرف پیٹھ کر کے ویڈیو اور تصویر بنانا بے ادبی اور بےباکی ہے کیوں کہ یہ وہ بارگاہ ہے جہاں ادب و تعظیم کا یہ انداز بتایا گیا کہ یوں کھڑا ہو جیسے نماز میں کھڑا ہوتا ہے، اور اپنا منہ اُن کی طرف رکھے، نیز علماء کرام نے بلا مجبوری روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیٹھ کرنے کو سختی سے منع فرمایا۔
حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "المسلک المتقسط" میں تحریر فرماتے ہیں، کہ مزار اقدس کی طرف پشت نہ کرے نماز اور غیر نماز میں، البتہ جب کوئی مجبوری و ضرورت ہو تو کوئی حرج نہیں۔
حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بلا مجبوری مزار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو پیٹھ کرنے سے منع فرمایا اگرچہ نماز میں ہو (فتاویٰ رضویہ شریف، جلد دہم، صفحہ 836، مطبوعہ دعوت اسلامی)
صدر الشریعہ، بدر الطریقہ، مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: قبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز پیٹھ نہ کرو، اور حتی الامکان نماز میں بھی ایسی جگہ نہ کھڑے ہو کہ پیٹھ کرنی پڑے،
(بہار شریعت، جلد اول، حصہ ششم، صفحہ 1228، مطبوعہ دعوت اسلامی)
لہٰذا آج کے حالات پر غور کریں کہ کتنی کثرت سے لوگ روضہ مبارک کی طرف پیٹھ کر کے تصاویر لے رہے ہوتے ہیں، اُن کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ خانہ کعبہ میں دوران طواف تسبیح و تحمید کی جگہ وہ تصویر کشی میں مبتلا ہوتے ہیں، دوستوں احباب سے ویڈیو کالنگ پر بات کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ احاطہ حرم میں ایک گناہ کرنا ایک لاکھ گناہ کرنے کے برابر ہے اور ایک نیکی ایک لاکھ نیکی کرنے کے برابر ہے، صدر الشریعہ، مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: ہاں ہاں ہوشیار! ایمان بچائے ہوئے قلب و نگاہ سنبھالے ہوئے حرم وہ جگہ ہے جہاں گناہ کے ارادہ پر پکڑا جاتا اور ایک گناہ لاکھ گناہ کے برابر ٹھہرتا ہے، الٰہی خیر کی توفیق دے۔ (بہار شریعت، حصہ ششم)
حرمین شریفین کی حاضری کے آداب:
ارکان حج و عمرہ نہایت ہی ادب و احترام، خلوص و للہیت کے ساتھ ادا کرے، کسی بھی طرح کی بے ادبی، گستاخی سے بچے، طواف کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آپ کی وجہ سے کسی کو ذرہ برابر بھی تکلیف نہ ہو، خالی اوقات میں کلمہ طیبہ کی کثرت کریں، اور کم از کم ایک قرآن کریم کا ختم کریں، اپنے والدین، اولاد، دوست و احباب، اساتذہ کرام، اولیاء کاملین، خصوصاً حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے جتنے ہو سکے عمرے کرتا رہے، مکہ مکرمہ سے رخصت ہوتے وقت خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہو، آستانہ پاک کو بوسا دے، فلاح دارین، قبول حج، مغفرت ذنوب، دوبارہ حاضری کی دعا کرے، تضرع، خشوع، دعا، بکا، ذکر و درود کی جو کثرت ہو سکے بجا لائے، حجر اسود کو بوسہ دے کر الٹے پاؤں رخ بہ کعبہ یا سیدھے چلنے میں بار بار پھر کر کعبہ کو بنگاہ حسرت دیکھتا اور فراق بیت پر روتا یا رونے کی صورت بناتا مسجد مقدس کے دروازہ "باب الخرورہ" سے نکلے، پھر بقدر استطاعت فقرائے حرم پر تصدق کرتا ہوا مدینے شریف کا رخ کرے. (ماخوذ: فتاویٰ رضویہ شریف، جلد 10، صفحہ 829، 830) (ارکان حج و عمرہ کثرت سے ہیں تو ہر ہر رکن کے آداب ذکر کرنا مناسب نہیں، شائقین حضرات فتاویٰ رضویہ کی جلد 10، "مطبوعہ دعوت اسلامی "کی طرح رجوع کریں)
مدینے شریف کی حاضری میں خالصتاً قبر انور کی زِیارت کی نیت کیجیے۔ ریاکاری اور تجارت وغیرہ کی نیت قطعاً نہ ہو۔(مرقاۃ المفاتیح)
سفر مدینہ میں درود شریف کی کثرت کرے، روضہ مبارک کی حاضری کے وقت گردن جھکائے، روتے ہوئے، لرزتا، کانپتا، بید کی طرح تھرتھراتا، ندامت گناہ سے عرق شرم میں ڈوبا، قدم بڑھا، خضوع و وقار خشوع و انکساری کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کر، سوا سجدہ عبادت کے جو بات ادب و اجلال میں اکمل ہو، بجا لا (ماخوذ: فتاویٰ رضویہ) درود شریف کی کثرت کرتے چلے۔ نہایت خشوع و خضوع سے روضۂ اقدس پر حاضری دے، سلام پیش کرے، رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لے، اس دوران دل سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش کرے، موبائل چلانے، سیلفیاں لینے سے بچے اور سوچیے کہ کس ہستی کی بارگاہ میں حاضری ہے۔اگر آپ کو کسی نے روضہ اطہر پر سلام عرض کرنے کا کہا ہے تو اس کی طرف سے بھی سلام عرض کر دے۔ جب تک مدینہ منورہ کی حاضری نصیب ہو، کوشش کرکے اکثر وقت مسجد شریف میں باطہارت (باوضو) حاضر رہے، نماز و تلاوت و درود میں وقت گزارے، مسجد نبوی شریف میں دنیوی باتیں ہرگز نہ کرے، یہاں ہر نیکی ایک کی پچاس ہزار (50,000) لکھی جاتی ہے، لہٰذا عبادت میں زیادہ کوشش کرے، بھوک سے کم کھانے میں امکان ہے کہ عبادت میں دل زیادہ لگے، روضہ رسول کو ہر گز پیٹھ نہ کرے اور حتی الامکان نماز میں بھی ایسی جگہ کھڑا نہ ہو کہ پیٹھ کرنی پڑے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ان مقدس مقامات کی باادب حاضری نصیب فرمائے، آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ