اصلاح معاشرہ کے چند اہم اور غور طلب پہلو

قرآن سے غفلت:بہت سے گدی نشین، پیر اور مجاور لوگ ٹھاٹھ سے نذرانے وصول کرتے ہیں ہاتھ پاوں چومواتے ہیں، لیکن ان میں بیشتر کو قرآن پاک  پڑھنے نہیں آتا، قرآن سمجھنا اور اس پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔ جب کہ عام مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انھیں کو سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں ، ان حضرات کو دین کے ضروری مسائل کے ساتھ قرآن حکیم کی درست تلاوت کا درس توضرورلےلینا چاہیے۔ایک بار کا واقعہ ہے ایک عرس میں حاضری ہوئی تو قل کے فاتحے کے وقت گدی نشین صاحب نے خود تلاوت کی اورسورہ فاتحہ بھی صحیح نہ پڑھ سکےلیکن علما کی موجودگی میں خود ہی تلاوت کی اور علما سے ایک بار بھی تلاوت کی فرمائش نہیں کی، خود تو ٹھاٹھ سے گدی پر بیٹھے اور علما کو سامعین کے ساتھ بیٹھایا، غرض جہالت انتہا کو پہنچی ہوئی ہےپھر بھی علما کی قدر و تعظیم کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ایسوں ہی کے لیے قرآن نے فرمایا:

"وَہُمْ یَحْسَبُوۡنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوۡنَ صُنْعًا"( الکھف:18/104)

         ترجمہ: اور وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کررہے ہیں ۔

        کچھ یہی حال ہمارے سیٹھ صاحبان کا ہے جو صرف فاتحے کی دیگیں پکوانے اور لنگر تقسیم کروانے کو دین کا بڑا کام سمجھتے ہیں ،سارا دن دنیا کمانے میں لگا دیتے ہیں مولویوں اور اماموں کو نیچا سمجھتے ہیں یہ روش نہ خدا کو بھاتی ہے نہ محبوبان خدا کو اچھی لگتی ہے ، آپ بڑے ہو گئے ڈھیروں پیسے کما لیے تو اس سے بھی فرق نہیں پڑتا ،قرآن صحت کے ساتھ اور دین کے ضروری احکام و مسائل کو جاننا بہر حال فرض ہے  ۔قرآن ہی فرماتا ہے ۔

ورتّل القراٰن ترتیلاً ۔(المزمل :73/4)

ترجمہ: قرآن کو ترتیل (درستگی کے ساتھ) پڑھو۔

اس میں قرآن پڑھنے کی بھی تاکید ہے اور درست پڑھنے کی بھی صراحت ہے۔

کچھ یہی حال اکثر اسٹوڈینٹ اور مغربیت کے دل دادہ حضرات کا ہے ، انجینئر ہیں ، پروفیسر ہیں ، ڈاکٹر ہیں ، وائس چانسلر ہیں لیکن زیادہ تر ان عہدے داروں اور ڈگری یافتہ لوگوں کا بھی معاملہ یہی ہے کہ فرفر انگریزی بولنے تو آ جاتی ہے  لیکن قرآن کی صحیح تلاوت سے محروم ہیں ،ان کی ساری دانشوری اور سائنسی سوجھ بوجھ یہاں فیل نظر آتی ہے، جب کہ الحمد للہ اکثر مدارس کے اکثر طلبہ فراٹے کے ساتھ انگلش بول رہے ہیں اور کالج و یونیورسٹی میں اچھے نمبروں سے پاس ہو رہے ہیں۔ افسوس کہ پھر بھی بعض قلم پکڑنے اور بولنے والے حضرات مدارس اور مولویوں کو کوسنے اور طعنہ دینے سے نہیں چوکتے۔

شادی بیاہ کی رسمیں : شادی بیاہ میں رسم ورواج کی خوب ترقیاں ہو رہی ہیں لیکن اخلاقی قدریں گرتی جارہی ہیں، آپسی بھائی چارے کا جنازہ نکلتا جا رہا ہے۔ جن کے پاس پیسے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ غریب کہاں جائیں گے ، ان کے بچوں کی شادی کیسےہوگی جو زائد رقم خرچ کرنی ہے یہ نہیں ہوتا کہ اس سے کسی غریب لڑکے کا گھر بنوا دیں ، اس کو کاروبار کرا دیں اور اسی سے اپنی بچی کی شادی کر دیں۔یہ سوچ ہمارے معاشرے میں بالکل پیدا نہیں ہو رہی ہے،اپنی بچی سے نہ بھی شادی کریں تو دوسرے کسی اچھے اور متوسط گھر میں اس کا رشتہ کرا دیں۔بچیوں کی شادی اور اس کے لیے نمائشی جہیز کا انتظام کرنا ایک ایسا کام ہے کہ اس کی طرف اہل ثروت حضرات خوب توجہ کر رہے ہیں اور اس میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں لیکن اگر کوئی ہنر مند اور غریب بچہ ہے جس کے پاس رہنے کا مکان نہیں ہے۔کاروبار کے لیے پیسہ نہیں ہے اس کی مدد کوگویا ایک فضول کام سمجھا جاتا ہے جب کہ یہ بڑی عزیمت اور ثواب کا کام ہے۔یہ تو بہت سننےمیں آتا ہے ک میں نے اتنی بچیوں کی شادی کرا دی مگر یہ کہیں سننے میں نہیں آتا کہ میں نے اتنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنا دیا،یا اتنے بچوں کو کاروبار سے لگا دیا بچہ اگر کاروباری اور خوش حال ہوگا تو بچیاں بھی سکون سے رہیں گی۔ورنہ جہیز سے کوئی گھر خوش حال نہیں ہوا ہے بلکہ جہیز ہزار فتنوں کی جڑ ثابت ہوا ہے۔جہیزوں کے خلاف تحریک چلانا آج وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔

صحت قرآن خوانی کی اہمیت: اوقات کا ضائع کرنا بہت بڑی مصیبت ہےکیو ں کہ یہ حقیقت ہے کہ  دینی یا دنیوی کسی کام میں یا کم از کم رفاہی کاموں میں آدمی کو لگ جانا چاہیے، یہ انسانیت کا تقاضا ہے اور دین کا بھی، بیشتر مسلمانوں کا آج قرآن نہ پڑھنا، یا صحیح نہ پڑھنا،بڑے دکھ کی بات ہے افسوس کہ دنیا کا سارا کام آدمی سیکھ لیتا ہے لیکن قرآن جو کلام ربانی اور کتاب ہدایت ہے اس کو نہ کوئی صحیح پڑھتا ہے اور نہ صحیح پڑھنے کی فکر کرتا ہے،اِلاَّ ماشاء اللہ۔قرآن کی تعلیم میں جو اخلاص تھا اب وہ رخصت ہو چکا ہے،نہ گھر والوں کو فکرہے نہ بچوں کو دل چسپی اور ایسے معلم بھی نہیں ملتے جو پوری توجہ سے قرآن کی تعلیم دیں اور ادب سکھائیں ۔اپنے وقت کو قرآن سیکھنے میں لگائیں یا سکھانےمیں۔سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے؛

"خیرکم من تعلم القرآن وعلَّمہ"(صحیح بخاری، حدیث نمبر5027)

        ترجمہ: تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کواس کی تعلیم دے۔

عالم ہونے کے باوجود قرآن کا غلط پڑھنا کوئی معمولی مصیبت نہیں ہے، اس کا جس قدر رونا رویا جائے کم ہے، مانا کہ ہر عالم یکساں نہیں، نہ ہر ایک کی قابلیت برابر لیکن قرآن کے تعلق سے سب کو یکساں صحیح خواں اورتجوید کا حامل ہونا لازم ہے،خوش  آوازی نہ ہو تب بھی صحیح خوانی کا اہتمام فرض ہے اور اس سے غفلت بہت بڑا جرم ہے ۔

ہم میں بیشتر لوگ نمازوں سے غافل ہیں جو پڑھتے ہیں ان میں اکثر پابند نہیں جب موقع ملا پڑھ لیا گویا نماز کوئی عام دلچسپی کا کام ہے، کیا کیا نہ کیا کوئی حرج نہیں، یاد رکھیں نماز خدا کا فریضہ ہےاسے بہر حال ادا کرنا ہے۔ آج اکثر وہ ہیں جن کو فاتحہ اخلاص، التحيات، درود شریف، قنوت یاد نہیں، یا ہے تو صحیح نہیں جب کہ بظاہر پکے مسلمان بنتے ہیں، علما تک پر تنقیدیں کرتے نہیں تھکتے،تنقید ہی نہیں کرتے فتوے بھی لگادیتے ہیں انھیں چاہیے کہ اپنی نمازیں پہلےدرست کریں جاننے والوں سے سیکھیں جب تک سانس ہے ضروری علم سیکھنا فرض ہے ۔

مدارس جو فارغ کرتے ہیں وہ علما اور حفاظ کی قراءت پر خاص توجہ دیں، ورنہ یہ دستار بندی کے پروگرام محض دھوکا ہیں،بخاری کے ساتھ قرآن بالحدرکا بھی دورکرائیں  تب دستاربندی کریں کہ یہ فارغ شدہ حضرات کم ازکم نماز پڑھانے کے قابل تو ہو جائیں ۔جو نماز پڑھانے کے لائق نہ ہو اس کی دستار بندی کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔

آج مسلمان نوجوانوں، جوانوں اور بوڑھوں کو چبوتروں پر بیٹھ کر، ہوٹلوں میں گھس کر وقت ضائع کرنے، لمبی لمبی سیاسی گفتگوئیں کرنے اور ایران طوران کی باتیں کرنے کی  تو فرصت ہے  مگر انھیں قرآن پاک پڑھنے یا درست کرنے کی فرصت نہیں،یہ لوگ خدا کے عذاب سے ڈریں اپنے اوقات کو قرآن درست کرنے میں لگائیں ، اس کے لیے ترکیبیں بنائیں ۔یا جو قرآن پڑھ لیں یا پڑھ چکے ہوں وہ اپنے اوقات تلاوت و قرآن ِ حکیم میں لگائیں پھر دیکھیں اس کی کیا کیا برکتیں ہاتھ آتی ہیں۔

جب سے نرسری اسکولوں  کی بھرمار ہوئی ہے اور تمام باشندگان ِ شہر و قریہ ان کے پیچھے بک ٹٹ بھاگنے لگے ہیں قرآنی تعلیم سے غفلت بہت بڑھ گئی ہے بلکہ یوں سمجھیے کہ قرآن کو نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ اور انگریزی زبان و تعلیم کو ترقی کا زینہ تصور کر لیا گیا ہے ،مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی اس روش پر نظر ثانی کریں ، اور قرآن سے دل لگا ئیں قرآن کی تعلیم سے اپنے بچوںکو آراستہ کریں ۔آج کل مسلمانوں میں بہت سے لوگ ایسے پائے جا رہے ہیں کہ انھیں حرام حلال کی کوئی تمیز ہی نہیں، اور اگر کسی نے بتایا تو اس پر برس پڑتے ہیں کہ آپ ہی آئے ہیں مسئلہ بتانے،   یہ وبا تو بہت عام ہے، اس سے جہالت کی انتہاکا پتہ چلتا ہے اور شاید لوگ یہ سمجھتے کہ  خدا کیا کر لے گا،کیا یہ خدا کے عذاب کو دعوت دینا نہیں، لاک ڈاؤن میں بھی جب لوگ عام طور سے خالی بیٹھے ہیں انھیں دین سیکھنے ،قرآن پڑھنے ،ذکر اذکاراور درود شریف کی بھی فرصت نہیں، اخبار پڑھنا خبریں سننا، اور ان پر تبصرہ  دن رات کا مشغلہ ہو چکا ہے، اللہ تعالیٰ تو "وَیَعفُو عَنۡ کَثِیرٍ" کے تحت بہت کچھ معاف فرما دیتا ہے، مگر جب پکڑتا ہے تو کورونا آتا ہے، طاعون پھیلتا ہے، سیلاب آتا ہے، خشک سالی کا دور دورہ ہوتا ہے، ہارٹ، شوگر، کینسر کی بیماریاں پھیلتی ہیں،زنا، بےپردگی، بےحیائی، جب عام ہوتی ہے، تو قتل و خوں ریزی کابازار گرم ہوتا ہے،اس کی صراحت حدیث میں ہے مال اور کھیت کی جب زکوٰۃ نہیں نکالی جاتی ہے تو معاشی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔تنگ دستی کی ہوا چلتی ہے۔

آئیے پھر دیکھیں کہ لمبی لمبی تنخواہ والے ائمہ بھی قرآن غلط پڑھتے ہیں اور اگر کسی نے ٹوکا تو ان کے مقتدی اس پر پِل پڑتے ہیں اور غلط پڑھنے والےامام کی حمایت کرنے میں لگ جاتے  ہیں تو کیا یہ کم بڑی غلطی ہے۔کیا یہ عذابِ خداوندی کو دعوت دینا نہیں ؟

مساجد کی انتظامیہ کے لوگ جس کو جب چاہتے ہیں امام رکھ لیتے ہیں، نہ کسی عالم سے چیک کراتے ہیں نہ کسی قاری سے کہ یہ صحیح خواں اور امامت کے ضروری مسائل سے واقف ہےیا نہیں، اس پر تو آئے دن مضامین لکھے جاتے ہیں، کہ اماموں کی تنخواہ بہت کم ہے ،تنخواہ بہت کم ہےلیکن آج تک میں نے کوئی مضمون نہیں دیکھا کہ صحیح خواں امام رکھے جائیں، ان کی تصدیق کرائی جائے اور جو غلط پڑھنے والے امام ہیں ان کو مصلے سے رخصت کیا جائے اور مدارس میں بھیج کر ان کی قراءت درست کرائی جائے، چاہے ان کی عمر  کتنی زیادہ کیوں نہ ہو، کیا یہ اجتماعی غلطیاں اور گناہ وہ  نہیں جن سے رب کائنات ناراض ہوتا ہے اور اس کا غضب نازل ہوتا ہے۔

قرآنِ حکیم کے احترام و ادب پر بھی توجہ دیں:

        اب تک تو بات صحیح پڑھنے نہ پڑھنے کی چل رہی تھی ، آئیے ذرا اس رخ سے بھی غور کریں کہ آج کل قرآن کی مسلمانوں کے ہاتھوں کتنی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ بچے قرآن پڑھنے جاتے ہیں ، بے وضو ہی پڑھنے اور چھونے لگتے ہیں پڑھنا تو بے وضو درست ہے لیکن چھونا درست نہیں اور بغیر چھوئے قرآن پاک پڑھنا ایک دشوار کام ہے ،اس لیے بچوں کو تنبیہ کی جائے کہ وہ بغیر وضو قرآن نہ چھوئیں ۔ یہ کام اساتذہ کا بھی ہےاور گھر والوں کا بھی ، کہ بچوں کو قرآن کا ادب سکھائیں وضو کے احکام بتائیں ۔ اگر چہ نابالغ بچے مکلف نہیں ہوتے مگر انھیں عادت ڈلوانا ضروری ہے تا کہ بڑے ہو کر وہ ایسی غلطی نہ دہرائیں۔

        یوں ہی بچوں کو اس کی خوب خوب تاکید کی جائے کہ قرآن پاک کے اوراق کو الٹتے وقت اس کے ادب کو ملحوظ رکھیں، بسا اوقات طلبہ کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اس طرح قرآن کے اوراق الٹتے ہیں جیسے کہ نوچ رہے ہیں  دو یا کئی انگلیوں سےورق کو سمیٹتے اور موڑتے ہیں جس کے نتیجے میں قرآن مجید کے اوراق جلد پھٹ جاتے اور مخدوش ہو جاتے ہیں۔

        دوسرا ظلم ناشرین و تاجرین کا ہےوہ یہ کرتے ہیں کہ نہایت گھٹیا اور رف کاغذ پر قرآن پاک چھاپتے  اور سیل (فروخت) کرتےہیں۔بائنڈر (جلدساز)بھی اپنی کمائی کی فکر میں کمزور جلد بناتے ہیں تاکہ جلد قرآن پاک مخدوش ہو کر ردی میں ڈالنے کے لائق ہو جائے اور جلد دوسرا قرآن پاک ہدیہ ہو، ہمارے ایک مخلص نے بیان کیا کہ میں نے ایک بائنڈر سے کہا اتنی خراب اور کمزور جلد بناتے ہو تو اس نے کہا کہ کیا میں اپنا کارخانہ بند کر دوں ، مضبوط جلد بنے گی تو عرصے تک دوسرا ایڈیشن منظر عام پر نہ آئے گا اور نہ ہم کو کام ملے گا، کچھ یہی نظریہ قرآن پاک چھاپنے والوں کا بھی ہے، اور یہ سارا ظلم قرآن پاک پر مسلمان ہی کر رہے ہیں اور یہ بے مروت اور بے غیرت خدا کے  عذاب اور اس کے غضب سے ذرا بھی نہیں ڈرتے ، جب کہ عرب ممالک سے جو قرآن شریف آتا ہے وہ ہمارے لیے نمونہ ہے کہ اس کا کاغذ بھی عمدہ ہوتا ہے اور جِلد بھی مضبوط و پختہ  ۔ کچھ ناشرین اور تاجرین یہ عذر لنگ بیان کرتے ہیں کہ عام خریدار کم قیمت والا نسخہ چاہتا ہے، حالاں کہ یہ بالکل جھوٹ اور خلافِ واقع ہے دوکان دار عام طور سے پہلے خراب کاغذوالا نسخہ دکھاتا ہے اور ہدیہ بھی زیادہ بتاتا ہے ، اگر کسی نے اچھے کاغذ کی فرمائش کی تب وہ اچھی طباعت اور عمدہ کاغذ والا نسخہ دکھاتا ہے ۔جب کہ ایک مسلمان کا یہ رویہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے ۔ آج ہر آدمی پہنے کپڑے سے لے کر دیگر ضروری بلکہ غیر ضروری سامان کو عمدہ اور اچھا ہی خریدنا چاہتا ہے ، مسلمان بھلا خراب کاغذ والا قرآن کہیں لے گا ، لیکن یہ تاجر اپنے چند پیسوں کے نفع کے لیے یہ گھٹیا حرکت کرتے ہیں۔

        لہٰذا میری عام خریداروں سے بھی گزارش ہے کہ جب بھی مارکیٹ میں دوکان دار کے پاس قرآنی نسخہ لینے جائیں تو اس سے اچھی جِلد اور عمدہ کاغذ والا ہی قرآن لیں اور اگر وہ معمولی کاغذ والا قرآن دکھائیں تو اس کو شرمندہ کریں کہ مسلمان ہو کر ایسی حرکت کرتے ہیں ہم لوگ سارا سامان اچھا سے اچھا دیکھ کر لیتے ہیں خدا کی کتاب بھلا خراب حالت میں کیسے لیں گے ، تو شاید ان بے شرموں اور دنیا کے حریصوں کو کچھ غیرت آئے ۔ پیسہ کمانے کے لیے دنیا میں ہزار طریقے ہیں ،کیا قرآن کی حرمت پامال کرکے ہی پیسہ کمانا ضروری ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔

 

از:مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری

بانی رکن : المجمع الاسلامی ،مبارک پور ،اعظم گڑھ

9838189592

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter