جہیز کا سد باب نہ ہوا تو یقیناً یہ  چنگاری شعلہ بن جائے گی.

سچ پوچھئے تو جہیز ایک بہت ہی خوش نما لفظ ہے جس پر شرح وبسط کے ساتھ دلچسپ تبصرہ کیا جاسکتا ہے- جہیز کا معنیٰ کہ کسی کو صرف اس کی ضرورت کا سامان دینا- کفن دفن تجہیز و تکفین کے لئے اس لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے- اور جس کی حقیقت یہ ہے کہ پڑھا لکھا طبقہ بلکہ عوام الناس بھی سنت رسول صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے نام سے یاد کرتی ہے جسے بحیثیت سنت لبوں سے بوسہ بھی دیا جاسکتا ہے اور دلوں سے لگایا بھی جاسکتا ہے- مگر یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہیں کہ آج کے اس ماڈرن دور میں اگر کسی رسم و رواج نے ہمارے معاشرے میں غریب وفادار اور متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھا ہے تو وہ بلاشبہ جہیز ہے- کیونکہ عموماً اس دور میں جہیز نہ تو سنت سمجھ کر دیا جاتا ہے اور نہ ہی سنت سمجھ کر اسے قبول کیا جاتا ہے- 

جہیز کا اصل مفہوم تو یہ تھا کہ لڑکی کو شادی کے دن ضرورت کا کچھ سامان دیتے تھے- لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جہیز کا مفہوم معکوس یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکے کے والد لڑکی والوں سے جبراً و قہرا قیمتی سامان نقدی وصول کرتے ہیں- حد تو یہ ہے کہ دلہن کی ضرورت کو جہیز کی ضرورت کا تابع سمجھا جاتا ہے- سفا کی اور بے رحمی کا عالم تو یہ ہوتا ہے کہ لڑکے والے اپنے مطالبات کا پلندہ لئے ہوئے یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ان کے گھر آنے والی بہو کے والدین ان کے مطالبات کو پورا کرنے کے اہل ہیں بھی یا نہیں! 

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں لوگوں نے جہیز کو حصول مال کا ذریعہ بنا رکھا ہے- گویا شادی اس لئے ہی کی جاتی ہے کہ مال غیر پر جبرا قبضہ جمایا جائے- دل سے سوچنے اور گریبانوں میں منہ ڈال کر غور وفکر کرنے کا مقام ہے- بالخصوص! جہیز کے ان حریصوں کو جو مانگ کر جہیز لینے سے باز نہیں آتے وہ روز محشر کے اس ہولناک، کرب انگیز اور قبر کی تباہ کن ظلمت و تاریکی کا فکری جائزہ لیں جس دن یہی جبرا اور قہرا لیا گیا جہیز ان کے لئے باعثِ ذلت ورسوائی اور گناہ عظیم کا سبب بنے گا- 

ہمارے مذکورہ کلام سے یہ بھی مراد نہیں ہے کہ جہیز لیا ہی نہ جائے کیونکہ جہیز لینا اور دینا تو نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے جو باعث خیر وبرکت اور ادائیگی سنت ہے بلکہ حاصل کلام یہ ہے کہ لڑکی والوں سے زبردستی اور ان کو مجبور کرکے جہیز وصول نہ کیا جائے کیونکہ ایسا جہیز جو زبردستی کے ساتھ وصول کیا جائے، وہ سنت نہیں لعنت ہے، وہ جہیز رحمت نہیں زحمت ہےکار خیر نہیں کار شر ہے- ہاں! اگر لڑکی والا اپنی خوشی سے اپنی لڑکی کو دے رہا ہے تو اُسے قبول کرے اس پر زیادتی نہ کرے اسی میں ثواب اور طریقہ سنت ہے-کیونکہ خود حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے رئیسہ حور جنت حضرتِ فاطمہ الزہراء رضی الله تعالیٰ عنہا کو جہیز میں ایک مشکیزہ، کجھور کی چھال سے بھرا ہوا ایک گدا، اور سامان دیا تھا- جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شادی کے دن اپنی لڑکی کو بوقت رخصتی کچھ ضرورت کے سامان بخوشی و شادمانی دینا نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے- مگر رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس فعل کو فرض یا واجب کے درجے میں رکھنا یا پھر سنت مؤکدہ سمجھ کر کہ میں سنت رسول کی ادائیگی کررہا ہوں جبراً جہیز وصول کرنا سراسر خلافِ سنت اور حدودِ شرع سے متاجوز ہے- بلکہ رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی یہ سنت، سنت غیرمؤکدہ ہے جس کی ادائیگی میں ثواب اور نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں، کیونکہ جہیز لینا اگر ضروری ہوتا اور شریعتِ اسلامیہ اسے لازم قرار دیتی تو خود نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بغیر جہیز کے نکاح نہ کرتے جبکہ اہم روایتوں سے یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کسی بھی رفیقہ حیات رضی الله تعالیٰ عنھم سے بھی جہیز نہیں لیا- ہم یہ ضرور دعویٰ کرتے ہیں کہ جہیز سنت ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لڑکی والوں کو تنگ کیا جائے ان پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے جائے، انہیں دست درازی اور قرض لینے پر مجبور کیا جائے- کیونکہ کسی پر ظلم و ستم کرنا الله رب العزت کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ اور مکروہ فعل ہے- اور ظالم پر الله رب العزت کی کبھی رحمت نہیں ہوا کرتی-

بلاشبہ جو لوگ جہیز مانگ کر لیتے ہیں اپنی رفیقہ حیات اور ان کے والدین پر ظلم عظیم کرتے ہیں وہ کبھی الله رب العزت کی رحمت کے مستحق نہیں ہوسکتے- حالات شاہد ہیں کہ جہیز کے معاملے میں ظلم و استبداد کرنے والے دنیا ہی میں بری طرح تباہ و برباد اور ذلیل وخوار ہوگئے ہیں- اور اس قدر ذلت ورسوائی کے غار عمیق میں جاگرے کہ کسی کے سامنے اپنا چہرہ دکھانے کے لائق نہیں رہے- یہ جبراً جہیز وصول کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج عورتیں اپنے شوہر کی خدمت و اطاعت سے گریزاں اور ان کا احترام و اکرام بجالانے سے لاشعور ہیں-

اس مقام پر یہ عرض کردینا مناسب ہوگا کہ جہیز کے معاملے میں قصوروار صرف لڑکے والے ہی نہیں بلکہ خود لڑکی والے بھی شامل ہیں اور یہ وہ دولت و ثروت والے لوگ ہیں جو نام وری اور نمائش کے نشے میں لاکھوں کروڑوں کی اشیاء جہیز میں دیتے ہیں- یہ نمائش ایک غریب اور متوسط طبقے کے آدمی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنی لڑکی کی شادی میں اگر زیادہ سے زیادہ سامان نہ دے گا تو معاشرے اور برادری میں اس کی ناک کٹ جائے گی- اور سوچنے کا یہ انداز لوگوں کو رسمی نمائش کے کارناموں پر ابھارتا ہے جس کے نتیجے میں بعض لوگ حیثیت نہ رکھنے کے باوجود جہیز کا قیمتی سامان فراہم کرنے کے لئے قرض لینے اور دست درازی پر مجںور ہوجاتے ہیں- اور ستم بالائے ستم یہ کہ شادی کی تقریب میں کیا امیر کیا غریب سب ہی یکساں طور پر جہیز کی باقاعدہ نمائش کرتے ہیں- اور لوگوں کو بلا بلا کر دکھاتے ہیں کہ ان کو خوب داد ملے-اور اس کی عظمت کا لوگ لوہا مانیں- جو محض ان کی سفاہت اور ناعقلی ہے- کیونکہ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ جس نکاح میں جتنا کم خرچ کیا جائے وہ اتنا ہی خیر و برکت کا باعث ہوگا- اب حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ عالی شان کی روشنی میں وہ حضرات جو اپنی شان وشوکت اور عظمت و برتری کے لئے بےجا فضول اہتمام اور تزک و احتشام کے ساتھ نازیبا حرکات انجام دیتے ہیں خود سوچیں اور ٹھنڈے دل و دماغ سے فیصلہ کریں کہ وہ یہ سب نمائش اور فضول خرچی کرکے اجر و ثواب کے مستحق بن رہے ہیں یا عتاب و عقاب کے اور وہ اپنی لڑکی کے نکاح کو خیر و برکت کا باعث بنا رہے ہیں یا ہلاکت خیزی و بربادی کا- 
معزز قارئین! اس میں کوئے دورائے نہیں کہ جہیز لینے اور دینے کے اسی طرز فکر نے ان گنت گھروں کا چین و سکون چھین رکھا ہے- اور بےشمار خواتین اسلام جنہیں حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت سے ملقب کیا ہے انہیں جہیز کی چکی میں پیس کر لوگوں نےان کو دنیا کے لئے زحمت بنا دیا ہے- اور وہ اپنے والدین کی دہلیز پر اپنے شباب کو لئے بہاروں کی منتظر ہیں- مگر حالات کی ستم ظریفی نے پژمردگی، مایوسی اور خزاں کو اس کا مقدر بنا دیا ہے- خدا ہی خیر کرے-

جہیز کے اس غلط اور خلافِ سنت ماحول سے آج ہمارے ملک میں معاشرتی و معاشی نظام میں کریشن داخل ہو گیا ہے- جس کی وجہ سے کچھ ایسے بھی دوسرے معاشرتی مسائل پیدا ہوتے جارہے ہیں کہ اگر جہیز کے اس غلط لین دین کا سد باب نہ ہوا تو یقیناً یہ چنگاری شعلہ بن کر اُبھرے گی- ملک کے دانشوروں،سیاستدانوں بلکہ ہر فرد کو اس بیماری کے دور کرنے کے لئے غور وفکر کی ضرورت ہے- آج ضرورت ہے اس بات کی کہ معاشرے سے جہیز کی ہلاکت خیز آفرینوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور جبراً جہیز لینے والوں کا بائیکاٹ کیا جائے- ان کے گھروں سے صلہ رحمی اور خاطر داری کا رشتہ منقطع کر لیا جائے- اور جس نکاح میں جہیز کی مانگ اور اس کی نمائش کی جائے اس نکاح میں ہرگز ہرگز شرکت نہ کی جائے- اور ایسے نکاحوں میں آئمہ مساجد اور علماء حضرات نکاح خوانی کے لئے ہر گز تشریف نہ لے جائیں- میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان ہی چند مذکورہ بالا امور کو زیر نظر اور زیر عمل رکھا جائے، لوگ اس پر چلنے کی کوشش کریں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے اسلامی معاشرے سے جہیز کی یہ تباہ کن رسم دور ہوجائے اور ہماری نورانی پیشانیوں سے جہیز کے لین دین کے غلط طرزِ فکر کی سیاہ کلنک کوسوں دور نظر آئے اور جہیز کے عفریت کا تیزی سے بڑھتا ہوا سلسلہ خش و خاشاک اور منہدم و معدوم ہوجائے- 

الله رب العزت ہمارے معاشرے کو جہیز کی تباہیوں سے محفوظ رکھے اور ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین-

کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter