اسلام سے دوری امت مسلمہ کو تیرِ عذاب کا نشانہ بنارہی ہے

ہر انسان کو دنیاوی زندگی میں کئی پہلوئوں سے مصائب و مشکلات اور شدائد و تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن بہترین انسان وہ ہے جو ان کو بہترین دروس اور مفید تجربات کا ذریعہ سمجھتا ہے اور ان ناگفتہ بہ حالات سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی کردار کو اعلی و ارفع بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور بدترین ہے وہ شخص جو مشکلات و مصائب کے اسباب و علل اور عوامل کو جاننے اور ان کا تدارک کرنے کی کوئی کوشش کرنے کے بجائے کف افسوس ملتا ہوا رہ جاتا ہے۔

آج امت اسلامیہ کی اکثریت کا شمار موخر الذکر زمرہ میں ہوتا ہے۔ حال ہی میں بابری مسجد کے مقام پر مندر کا افتتاح کیا گیا اور مسلمانوں کی جان و و مال اور ان کے ایمان و عقیدہ کو نشانہ بنایا گیا، ارتداد کے معاملات میں اضافہ ہورہا ہے، مسلم بچیاں کا غیر مسلم کے ساتھ شادیاں کررہی ہیں، قانون کو بالائے طاق رکھ کر گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ میں غیر مسلم حضرات کو پوجا کرنے کی اجازت دے دی گئی اس فیصلہ کے خلاف مسلم فریق نے الہ آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تو ہائی کورٹ نے مسترد کردیا، مسجد کے لفظ پر مندر لکھا کاغذ چسپاں کردیا گیا، ہندوستان کی راجدھانی میں راتوں رات نوٹس دیے بغیر ہی ریکارڈ پر موجود 13 ویں صدی کی مسجد اخوندجی کو بلڈوزر کے ذریعہ شہید کردیاگیا، بحر العلوم مدرسہ کو منہدم کردیا گیا اور قدیم قبرستان کو مسمار کردیا گیا۔

اسلام کے مقدس اصول و ثوابت، منہج و طرز زندگی اور اخلاقی قدروں کو بدلنے اور انہیں سردخانوں میں مقفل کرنے کے لیے یکساں سیول کوڈ (CAA)کے نام سے نیا قانون متعارف کروانے اور نافد کرنے کی حکومتی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں۔جانور کے حقوق متاثر ہوجائیں تو دنیا میں ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے لیکن غزہ میں سکونت کے لیے گھر، کھانے کے لیے غذا، بینے کے لیے صاف پانی، علاج و معالجہ کے لیے ادویات موجود نہیں ہیں، خواتین، معصوم بچوں اور ضعیف العمر حضرات کی بے دردانہ قتل عام ہورہا ہے، معصوم بچے یتیم ہورہے ہیں، غزہ کے لوگ ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہیں لیکن اسلام کو دہشت گردی قرار دینے اور اپنے آپ کو حقوق انسانیت کے علمبردار ہونے کا دعوی کرنے والی اور نام نہاد مہذب طاقتیں بالکل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ انسانیت کا معیار اس سے زیادہ کیا گرسکتا ہے کہ غزہ میں دہشت گردی، نسل کشی، مسلسل بے رحمانہ حملے اور انسانی جرائم کی انتہاء کرنے والے دہشت گرد اسرائیل کی مذمت کرنے کے بجائے اس کی حمایت و تائید کی جارہی ہے۔

 مسلمان سیاسی طور پر اس قدر اپاہیچ ہوچکے ہیں کہ آج یہ تمام مظالم برداشت کرنے کے باوجود ان حالات کا تدارک کرنے میں بالکلیہ طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اس سے زیادہ نچلی سطح پر ہماری قوم کیا پہنچ سکتی ہے کہ حجاز مقدس میں شراب اور جوے کے اڈے کھولے جارہے ہیں، سینما ہال بنائے جارہے ہیں، مورتیوں کی پوجا کی جارہی ہے، رقص و سرور کی محافل سجائی جارہی ہیں لیکن کسی مسلم حکمراں، امراء اور علماء میں اتنی ہمت نہیں ہوئی جیسے ہونی چاہیے کہ اس کے خلاف کھل کر صدائے احتجاج بلند کرتے البتہ کچھ عرصہ پہلے ایک وطن عزیز کی ایک خاتون وزیر حدود حرم مدنی میں داخل ہوئی تو بعض لوگ قرآن مجید سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں لگ گیے کہ مدینہ منورہ حرم نہیں جہاں غیر مسلم کا داخلہ ممنوع ہو۔ جس نبیؐ کی چاہت و ارادہ سے کعبۃ اللہ شریف قبلہ اور حرم بنا اس ذات اقدس کی مسجد جہاں آپؐ کا جسم اطہر آرام فرما ہے وہ حرم مدنی حرم مکی سے کیسے مختلف ہوسکتا ہے؟ خیر یہ اپنے اپنے ذوق و وجدان کی بات ہے۔ لیکن جو قوم و ملت اپنے نبی سے غداری کرے وہ کیسے سرخرو و کامیاب ہوسکتی ہے؟ روایت میں آتا ہے کہ جب انسانی معاشرے میں خباثتیں عام ہوجاتی ہیں تو اس معاشرے میں صالح اور نیک لوگ ہونے کے باوجود وہ معاشرہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ گمان ہورہا ہے کہ ہم تو صاحب قرآن، قرآن اور دین اسلام کو ماننے والے ہیں پھر ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ تو اس کا مختصراً جواب یہ ہے کہ ہم چونکہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں ہمارے ایمان کے لیے یہی کسوٹی کافی ہوچکی ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگیوں میں اسلامی تعلیمات کے کوئی اثرات نظر نہیں آتے ۔

 ہم نے دنیاوی جاہ و جلال کے کھوکھلے پن پر فریفتہ ہوکر بے ثبات دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے لہٰذا ہمیں مصائب کا شکوہ کرنے اور بددل ہونے کے بجائے اپنی ایمانی قوت و حرارت میں اضافہ اور اعمال کا محاسبہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان مسلمان بھی ہو اور وہ جھوٹ بھی بولے، ایک انسان دین اسلام سے وابستہ ہونے کا دعوی بھی کرے اور وعدہ خلافی بھی کرے، انسان اپنے آپ کو امت محمدی کہے اور امانت میں خیانت بھی کریے، انسان قرآنی ارشادات کو دستور حیات مانتا ہو لیکن سوشیل میڈیا پر اغیار کے لیے مغلظات بھی بکے، انسان آخرت پر ایمان کی بات کرے اور دنیا کی موقتی مسرتوں کے حصول کے لیے حلال و حرام کی تمیز کو مٹا دے، انسان بروز محشر حساب کتاب پر یقین رکھے اور زندگی بے فکر ہوکر گناہوں میں بسر کرے۔ مسلمان پنچوقتہ نمازی بھی ہو اور اس کے کردار میں عجز و نیاز کی خوبی نہ ہو، مسلمان رضائِ خداوندی کے لیے رمضان المبارک میں حلال اشیاء کو بھی ترک کرنے کے باوجود زندگی بھر حرام ذرائع سے دولت کماتا رہے، غرباء و مساکین کی غربت کو دور کرنے کے لیے ایک مسلمان ان کی مالی امدادو اعانت کرے اور مظلوموں کا مالی استحصال کرے اور ان کی جائیداد پر قابض بھی ہوجائے، مناسک حج کی ادائیگی کے دوران ایک رنگ کے لباس میں ملبوس ، ایک ہی تلبیہ ادا کرتے ہوئے، ایک ہی مقام پر ٹھہر کر ایک ہی جیسے اعمال بجالانے والا مسلمان مابقی زندگی میں مساوات انسانی کا پاس و لحاظ نہ رکھے ۔اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت نفس، شیطان اور دنیا پرستی کے جال و فریب میں پھنس چکی ہے جس کی وجہ سے ہماری اعتقادی و عملی خرابیاں عروج پر پہنچ چکی ہے نتیجتاً ہمارا ایمان انتہائی کمزور ہوچکا ہے۔

آج کا مسلمان ارکان اسلام تو ادا کررہا ہے لیکن ان کے مقاصد کو حاصل کرنے میں عملی طور پر ناکام ہوچکا ہے ۔ جبکہ قرآن مجید ملت اسلامیہ کو ظاہراً، باطناً، اعتقاداً اور عملاً اللہ اور اس کے حبیبؐ کے واضح احکامات و روشن فرامین ،اسلام کے تمام ضابطوں اور قوانین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور ان کی غیر مشروط اطاعت اختیار کرنے کا حکم فرماتا ہے جو انسان کی فکری، روحانی اور مادی ترقی کی ضامن ہے۔ موجودہ حالات میں امت مسلمہ جن مصائب و آلام کے ہجوم کا شکار ہے وہ بداعمالیوں کا خمیازہ اور نافرمانیوں کی سزا ہے۔ ورنہ اللہ تعالی کے وعدہ اور عدل و انصاف کے خلاف ہے کہ ایک انسان کامل مومن بھی ہو اور اسے دنیا و آخرت میں ناکامی و نامرادی اور ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ آج ہم مخالفین اسلام کی ایذائوں کا ہدف بننے کے بعد مظلومانہ جذبات سے بھرے دل کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں دعائیں کررہے ہیں، فسطائی طاقتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں، قراردادیں منظور کررہے ہیں، جلسے و جلوس اور کانفریس منعقد کررہے ہیں، سوشیل میڈیا پر اقتصادی مقاطعہ کی مہم چلارہے ہیں لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے چونکہ ہماری تمام مصیبتوں کا حل تعلق مع اللہ کے مضبوط کرنے میں مضمر ہے۔ دعا عبادت کا مغز ہے جب عبادت ہی میں تساہل و کوتاہی ہو تو دعا میں اثر کیسے پیدا ہوگا؟ آج ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر دینی معاملات میں کوتاہی سے کام لے رہے ہیں۔

 ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی تمام خطائوں اور گناہوںسے تائب ہوکر خلوص و للہیت کے ساتھ رجوع الی اللہ ہوتے ہوئے داعیانہ کردار ادا کرنے کی حتی الوسع کوشش کریںاور موجودہ حالات میں جزع و فزع اور چیخ و پکار کرنے کے بجائے ان حوادثات و سانحات کی بے در پے یلغار کا صبر و استقامت ، عزم و استقلال اور پامردی و ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کریں یقینا اللہ تعالی قادر مطلق ہے وہ تمام عالم اسلام کے مصائب و متاعب اور آفات و پریشانیوں کو نہ صرف آن واحد میں دور فرمانے کی قدرت رکھتا ہے بلکہ اس میں مصائب و مشاکل کو راحتوں اور مسرتوں سے مبدل فرمانے کی بھی طاقت ہے لیکن شرط یہ ہے کہ آج کا مسلمان ایمان کے تمام تقاضوں کو پورا کرے ،شکر گزاری کو اپنی زندگی کا اہم حصہ بنالے ،ہر لحظہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور اپنے اعمال کی جانچ پڑتال کرتا رہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter