ہمارے عربی کالجز

1983 میں "البہج" نامی یادگار (سوونیر) شمارے میں شائع ہونے والا ایم ایم بشیر مسلیار کا مضمون دینی تعلیم کے حوالے سے ان کے اصلاحی وژن کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ اس مضمون میں پیش کیے گئے خیالات اور تجاویز آج بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے اس وقت تھے، کیونکہ ان میں سے کسی کو بھی عملی طور پر نافذ نہیں کیا گیا۔ موجودہ دارالھدیٰ جیسے ادارے بھی ان چالیس سال پرانے نکات سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سمت میں پیش قدمی مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ایک فوری اور مؤثر اقدام ہو سکتی ہے۔ یہی آج کی ضرورت ہے۔
اس مضمون میں پیش کیے گئے اصلاحات اور جدیدیت صرف دو لفظ نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے پر مشتمل ہیں، جو اس مرد حق نے بڑی حکمت کے ساتھ وضع کیا ہے۔ یہ مضمون ان تمام افراد کے لیے پڑھنا لازمی ہے جو اس اصلاحی طریقہ کار کے حامی یا ناقد ہیں۔ مضمون ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

ہمارے عربی کالجز
از: ایم ایم بشیر مسلیار
(1983، المجلہ "البہج" میں شائع شدہ مضمون)

جب "عربی کالج" کا نام لیا جاتا ہے، تو فوراً اس کا مطلب ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ یہ وہ ادارے ہیں جہاں مختلف فنون کو عربی زبان کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں کالجز میں تعلیمی میڈیم کے لیے کون سی زبان اپنائی جائے، یہ ایک اہم بحث کا موضوع ہے۔ ہر شخص اس موضوع پر اپنے ذوق اور پسندیدہ ساتھیوں کے ساتھ گفتگو کرتا ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ جس علم کی ابتدا جس زبان میں ہوئی ہو، اس علم کو محفوظ رکھنے اور پھیلانے کے لیے وہی زبان سب سے زیادہ موثر ہے۔ مثال کے طور پر، چونکہ قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی زبان عربی ہے، اس لیے قرآن اور اسلامی فقہ کی تعلیم و تدریس کے لیے عربی زبان سب سے موزوں ہے۔
آج کے عربی کالجز
آج عربی کالجز کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جو عربی زبان کے مطالعہ پر مرکوز ہیں، اور دوسرے وہ جو عربی کو ذریعہ تعلیم بنا کر اسلامی علوم پڑھاتے ہیں۔ عربی زبان پر مرکوز کالجز زیادہ طلبہ کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں کیونکہ وہ سرکاری اداروں میں ملازمت کا وعدہ کرتے ہیں۔ لیکن جو طلبہ اسلامی فقہ کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے موجودہ حالات میں کوئی خاطر خواہ ملازمت کے مواقع نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے کالجز میں طلبہ کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے جو دینی علم کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس بے رخی کو فوری طور پر دور کرنا ضروری ہے۔

نصاب میں اصلاحات
ہمارے نصاب میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ امام غزالیؒ اور دیگر عظیم مفکرین کی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسا متوازن نصاب تیار کیا جائے جو انسانی سماجی، ثقافتی اور سیاسی ترقی کا چراغ بنے۔ اس نصاب میں صحت، تعمیرات، ٹرانسپورٹ اور دیگر فنی شعبے شامل ہونے چاہئیں، کیونکہ اسلام نے ان علوم کی ترغیب دی ہے۔ جب ہمارے کالجز ان تکنیکی اور پیشہ ورانہ مہارتوں کو اپنائیں گے، تو یہ نہ صرف روحانی بلکہ مادی فوائد کا بھی ذریعہ بنیں گے۔
طلبہ کا کلچر
کالجوں کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے طلبہ کی ثقافتی تربیت بھی اہم ہے۔ صرف مدرسہ کا نام بدل کر کالج رکھ دینا کافی نہیں، بلکہ نظام تعلیم میں حقیقی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ دینی تعلیم کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھیں، نہ کہ اسے ثانوی حیثیت دیں۔

اساتذہ کی تربیت
بہترین تعلیم کے لیے اساتذہ کی تربیت لازمی ہے۔ اساتذہ کو ایسی تربیت دی جائے جو طلبہ کو علم میں دلچسپی پیدا کرے اور اس کے اثرات ان کے دلوں میں جاگزیں ہوں۔ آج کئی علماء ہونے کے باوجود تدریس میں ناکام ہو رہے ہیں، جس سے طلبہ تعلیم سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس کے سدباب کے لیے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت نہایت ضروری ہے۔

کالج کمیٹیاں اور انتظام
کسی بھی کالج کی ترقی کا دارومدار اس کی گورننگ کمیٹی پر ہوتا ہے۔ کمیٹی کے فیصلے کالج کی کامیابی یا ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے کمیٹی کے اراکین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ادارے کی ضروریات اور مقاصد کو بخوبی سمجھیں۔ ایک منظم اور ترقی پسند کمیٹی کالج کے معیار کو بلند کر سکتی ہے۔

اصلاحات اور عملی اقدامات کے ذریعے ہمارے کالجز ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں اور اپنی تاریخی و دینی ذمہ داریوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ اللہ ہمیں علم کی فضائیں دور دور تک پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔

(ایم ایم بشیر مسلیار، "البہج" یادگار شمارہ، 1983)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter