تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
یوں توآزادی کے بعد سے ہی اکثریت کا ایک طبقہ مسلمانوں کے خلاف نفرتی اقدام کرنےکو بہرحال جائز ٹھہراتا آرہا ہے اور اِس سلسلے میں منظم کوششیں بھی کرتا آرہا ہے۔ لیکن پچھلےایک عشرےسے اِس میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے۔خواہ سیاست کامیدان ہویامعاشرت کا،جہاں بھی دیکھاجائے نفرت نے اپنا وجود مستحکم ومضبوط کرلیا ہے۔ بالخصوص بہرنوع اِنتخاب کے پیش نظر، یہ نفرتیں مزید اپنے شباب پر پہنچ جاتی ہیں اورزعفرانی خیالات کےہرچھوٹے بڑے لیڈران مذہبی وقومی منافرت جیسی بیماری میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ۲۰۲۴ءکے تناظر میں بات کی جائے تو اِس کا آغاز ’’رام مندرپران پرتشٹھا‘‘سےکیا گیا۔ اِسی سلسلے کی ایک کڑی گیان واپی مسجدکو نشانہ بنایاگیا، یہاں تک کہ سیاسی مفاد کی خاطر دستورِہند کوبھی طاق پر رکھنے سے گریز نہیں کیاگیا۔اِس کے ساتھ ہی اقلیتوں اور اُن کے مذہبی و سیاسی قائدین کی گرفتاری بھی عمل میںلائی گئی اور اُن کوخوف وہراس میں مبتلا کرکے اُنھیں دوسرے درجے کا شہری ہونے کااحساس کرایاگیا۔ اِس کے پیش نظرمسلم قائدین کی جانیں تک بھی لی گئیں ۔یہ اور بات ہے کہ مسلم قائدین کی جانیں لینا اور اُنھیں تلف کرنا خود زَعفرانی خیالات کے حامل افراد ہی کے لیے جی کا جنجال بن گیا۔ کیوں کہ اِس غیراِنسانی اور اِنتقامانہ کارروائی کی نہ صرف اقلیت نےبلکہ اکثریت کے بیشتر طبقات نے بھی شدید مذمت کی اور ملکی اُخوت ومروت اور باہمی آہنگی کے لیے اَیسی کسی بھی کارروائی کو خطرناک قرار دیا۔اِسی کو دیکھتے ہوئے زعفرانی لیڈران کے کچھ ہوش ٹھکانے لگے اور اُنھوں نے اپنے رویےسے اقلیت کو رِجھانے میں لگ گئے۔ لیکن خیال رہے کہ زعفرانی جماعتیں محض اقلیت کے حق میں مضرت رساں نہیں ہیںبلکہ اِن جماعتوں سےہروہ طبقہ نالاں اورنااُمید ومایوس ہوگیاہے جوکھانے-کمانے اور ایک پُرسکون زندگی بسر کرنے میں یقین رکھتا ہےاور اِس کا اثر مکمل طورسے ۲۰۲۴ء کے مرحلہ وار اِنتخاب میں دیکھنے کو بخوبی مل رہا ہےکہ کیا مسلم اور کیا غیرمسلم ،کیا پسماندہ اور کیا غیرپسماندہ سبھوں نے زعفرانی جماعت کے خلاف اپنی ناراضی درج کرائی ہے۔
چناں چہ ۲۰۲۴ء کاپہلاانتخابی مرحلہ تک توسب کچھ درست رہا کہ انتخابی جلسوںسے متعلق کافی کچھ اچھا پڑھنے اور سننے کو ملا۔ لیکن جیسےہی ابتدائی مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچااورزَعفرانی جماعتوں کو اُن کےقدموں تلے کی زمین کھسکتی نظرآئی، توپھر کیا تھاہمیشہ کی طرح مذہبی وملی منافرت کی جھڑی لگ گئی۔ اِس کا افسوس ناک پہلو یہ ہےکہ اِس کا آغازبذات خود مسٹروزیر اعظم نے کیا۔یہ وہی وزیراعظم ہیںجویہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ’’ہم کبھی ہندو-مسلمان نہیں کرتے اور جس دن ہم ہندو-مسلمان کرنے لگیں گے اُسی دن ہم سیاست ترک کردیں گےوغیرہ۔‘‘ لیکن اِس کے برخلاف راجستھان کے علاقے بانسواڑہ کے انتخابی جلسے سے جو اُنھوں نےنفرتی انداز اختیارکیا اور جس فرقہ واریت کی آگ کو ہوادی وہ راجستھان تک ہی محدودنہیں رہی بلکہ یہ ملک کی متعدد رِیاستوں میں بھی پہنچ گئی۔مسٹروزیراعظم نےراجستھان، یوپی، بہار وغیرہ مختلف صوبوں میں یہ نفرت انگیزیاں کیں کہ’’اگر کانگریس اقتدار میں آ گئی تو ملک کی تمام جائیداد اُن کے درمیان تقسیم کر دے گی جن (مسلمانوں)کے زیادہ بچے ہیں۔ہماری غریب ماؤں اور بہنوں کے منگل سوتربھی بیچ دےگی اور ہماری عورتوں کی جمع پونجی چھین کر دَراندازوں (مسلمانوں) کے سپرد کردےگی۔‘ ‘کچھ اِسی طرح کا نفرتی لب ولہجہ مسٹر وزیراعظم نے علی گڑھ کے ایک انتخابی جلسے میںبھی اپنایااور لوگوںکو فرقہ واریت پر اُکسایا۔ علاوہ ازیں مختلف انتخابی جلسوں میں ببانگ دہل یہ بھی کہتے نظرآئے کہ’’انڈیا اتحادOBC کا ریزرویشن مسلمانوں کو دِے دےگا۔رام مندر پر بلڈوزر چلادےگا،CAA کو منسوخ کردےگا اورایک بار پھرسےآرٹیکل۳۷۰؍ بھی نافذکردےگا۔‘‘ مظفرپور-سارن کے خطاب میں اُنھوں نےیہاں کہہ دیاکہ’’ کچھ لوگوں کو نیند میں ہی پاکستان کا ایٹم بم دکھائی دیتا ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہنیں، تو میںاُن کو بتانا چاہتا ہوںکہ وہ چوڑیاں نہیں پہنی تواُنھیں پہنا دیا جائےگا۔‘‘اِس پر مستزاد یہ کہ جیسے جیسے ۲۰۲۴ء کا انتخاب مرحلہ وار آگے بڑھ رہاہے ویسے ویسے زعفرانی لیڈران کی زبانیں نفرتی زہرسے آلودہ ہوتی جارہی ہیں۔چناںچہ جس وزیر داخلہ نے دہلی اسمبلی انتخاب کے موقع پر وزیرآباد، دہلی میں
کبھی یہ کہاتھاکہ ’’اِس بار اِس زور سے بٹن دبانا ہے کہ اُس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچ جائے۔‘‘ لہٰذاحسب سابق اِس باربھی ۲۰۲۴ء کے انتخابی تشہیری جلسے میں بڑے زور-شور سےوہ یہ کہتے نظر آرہے ہیںکہ ’’ اگرتلنگانہ میں ہماری جماعت کو دَس سیٹیں ملیں تو مسلم ریزرویشن منسوخ کردیاجائےگا۔‘‘نفرتی تشہیربازی کے گُرو مسٹر یوگی بھی اِس معاملے میںکسی سے پیچھے کیوں کر رَہ سکتے ہیں، چناںچہ وہ لکھنومیں۲۱؍مئی کو اَپنے ایک بیان میں یہ کہتے نظرآئے کہ ’’اب کوئی یوپی کے سڑکوں پر نماز پڑھنے کی ہمت نہیں کرتا۔ مساجد نے اپنے مائک ہٹالیےہیں۔آئندہ ۵؍ برسوں میں لوگ مساجد کی اذانوں کو بھی بھول جائیںگے۔‘‘یوں ہی شبھاس بھامرے کی حمایت میں مالیگاؤںکے باشندوں سے مسٹر یوگی نے کہاکہ’’کانگریس کے اندر اَورنگزیب کی روح حلول کرگئی ہے۔‘‘اِدھر زعفرانی صدرجےپی نڈا نےاپنی ہم جماعت لیڈروں کی زہرافشانیوں کو چھپانے کی حتی الامکان کوشش کی اور نیوز اِینکرز کے ذریعےمسٹریوگی کے نفرتی بیان سے متعلق کیےگئے سوالات کے جواب میں کہاکہ’’کاشی متھرا میں مندرو ں کی تعمیر کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘حالاںکہ ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ گیان واپی مسجد میںپوجا-پاٹ کے خلاف دی گئی عرضی کو عدالت نے خارج کردیا ہے اور اُس پر کسی بھی طرح کی شنوائی سے صاف صاف منع کردیا ہے۔لیکن اگر واقعی ایساہی ہے جیساکہ مسٹر نڈا نے کہا ہے ،تو پھر وہ ازخودپوجا-پاٹ بندکیوں نہیں کرادیتے ہیں۔اِسی کے ساتھ مہاراشٹر کے ایک زعفرانی اُمیدواررَاہل شیوالے نےبھی کچھ اِ س طرح کی باتیں کہی ہیںکہ ’’ہم سبھی کو ساتھ لےکر چلیں گے یہ ہماراوعدہ ہے، آئین تبدیل کرنے کی افواہ بےبنیاد ہے۔ ‘‘ نیزخود کو آئین ہند کا محافظ کہا اور اَقلیتوں سے متعلق اپنی متعددخدمات بھی گنوائیں۔اگر مسٹرشیوالے حقیقتاً اقلیت کے بہی خواہ ہیں تو اَبھی چند دنوں پہلے رام نومی کے موقع پرممبرا واطراف میں جو فسادات ہوئے اور اَقلیت کے جوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی تو اُس وقت وہ کہاں تھے اور کیا اُس معاملےمیںاُنھوں نےکچھ کردار کیاتھااورکیا اُن زعفرانی لیڈران کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جو نفرتی محاذکھولے بیٹھے تھے؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس طرح کےمخرب اور نفرتی بیانات پر شکنجہ کیسے کسا جائے اور کون کسے؟ جب کہ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزرائے اعلی جیسے مناصب پر فائز افراد ہی نفرت انگیزی اور شرانگیزی کو بڑھاوا دے رہے ہیںاور حصول اقتدار کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانےسے کچھ دریغ نہیں کررہے ہیں۔حالاںکہ مسٹر وزیراعظم نے دس سال تک مسلسل ملک پر کامل حمایت کے ساتھ حکمرانی کی ہےاور جب جس وقت جیسا چاہا فیصلہ لیاہے،یہاں تک کہ قانون میں ترمیم وتبدل بھی کیاہے،توہونا تو یہ چاہیے کہ اِس بار ۲۰۲۴ءکے انتخاب میں وہ بلاتعصب وتفریق ہر ہندوستانی کے بنیادی مسائل اور تمام ریاستوں کو دَرپیش مسائل پر غور وفکر کرتے اوراُنھیں حل کرنے پرزُوردیتے، لیکن اِس کے برخلاف ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی وہ اور اُن کے سیاسی حواری،مذہبی وملی منافرت پھیلارہےہیں۔ مندر-مسجد اورہندو-مسلم کے نام پر پولرائزیشن کی سیاست کررہے ہیں۔ اگردَس سال اقتدار میں بنے رہنے کے بعد بھی نفرتی بیانات اورہندو-مسلم کاسہارالیاجارہا ہے اور وہی اِلزامات درالزامات کا دور دورہ ہے، تو اِس کا واضح مطلب ہے کہ مسٹر وزیراعظم خوداِس بات کو تسلیم کررَہے ہیں کہ دس سال حکومت کرنے کے بعد بھی اُن کے پاس ترقیات وحصولیابیات کے نام پراَیساکچھ نہیںہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی عوام کو اَپنے حق میں سازگار کرنے کی ہمت جٹاسکیں۔ ورنہ کیا وجہ ہےکہ جوکبھی بڑے کروفر کے ساتھ یہ کہتے نظرآتے تھے کہ ’’ہم ہندو-مسلم کے نام پر کبھی سیاست نہیں کریں گے‘‘ وہ آج ہندو-مسلم کے سہارے مزید اِقتدار میں بنے رہنا چاہتے ہیں۔ کیا اُنھیں ’’اب کی بار ۴۰۰؍ پار پر اِعتماد نہیں ہے؟‘‘ کیا اُن کی اپنی ہی گارٹنی عدم اعتبار کا شکار ہوچکی ہے؟‘‘
خیر! مسٹر وزیراعظم کواَپنے دس سالہ حکومت کی کارگزاریوں کی بنیاد پرہی اپنی عوام کے سامنے جانا چاہیے اور ڈَنکے کی چوٹ پر اپنی خدمات گنواتےہوئے اُن سے اپنے حق میں ووٹ مانگنا چاہیے کہ ہم نے پچھلے دس سال میں یہ یہ حصولیابیاں اوریہ یہ ترقیاں حاصل کی ہیں اِس لیے ہمیں مزید موقع دیاجائے تاکہ مزید بہتری کے ساتھ ہم آپ سب کےکام آسکیں۔ لیکن ایسا کچھ نظارہ دیکھنے میں نہیں آرہاہے،تواِس کے سوا اور کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے کہ مسٹر وزیراعظم نے الزامات واتہامات اور ہندو-مسلم کرکے نہ صرف اپنی ساکھ اور وقار کو مجروح کیا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کے اعلی ترین عہدے کوبھی دَاغدار کیا ہے۔ ایسے میں غالب کا یہ شعر زبان پر آئے بغیر نہیں رہتاکہ
ہرایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے؟
تمہیں کہوکہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟