تعلیم یافتہ لڑکیاں ازدواجی زندگی سے محروم کیوں؟
آج تعلیم یافتہ لڑکیاں بروقت ازدواجی رشتے سے منسلک نہ ہونے کے باعث جس قدر غلط روی کی شکار ہورہی ہیںاورجس پیمانے پر فسادِمعاشرہ کا سبب بن رہی ہیںاُس سے ہم میں کا ہرفرد بشر بخوبی واقف ہے۔ بلکہ حد تو یہ ہےکہ آج خوشحال والدین بھی اَپنی تعلیم یافتہ لڑکیوں کی ازدواجی زندگی کے مسئلےکو لےکر خون کے آنسو رُوپے پر مجبور وبےبس ہیں۔ اِس کی اہم وجہ یہ ہےکہ لڑکیاں اعلی تعلیم حاصل کرتے ہوئے عمر کی اُس منزل پر پہنچ جاتی ہیںکہ اُن کے لیےمناسب جوڑے آسانی سے نہیں ملپاتے۔حالاںکہ ہوناتو یہ چاہیےکہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کی ازدواجی زندگی کا آغاز اَوّل فرصت میں ہوجائے، لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے تو اِس کے پیچھےکون سےاسباب کارفرما ہیںاور اِس کا حل کیا ہے؟چناںچہ اِس سلسلے میں غوروفکرکرنے پر جواَسباب اور حل ہمارےسامنے آتے ہیں اُن میں بعض یہ ہیں:
۱۔والدین/سرپرستان شعوری طورپر اپنی لڑکیوں کی بروقت شادی سےلاپرواہی برتتے ہیں اور عذر لنگ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ لڑکیاں تواَبھی زیر تعلیم ہیں۔ اِس طرح آہستہ آہستہ رشتے کی عمر نکلتی چلی جاتی ہےاور جب رشتے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے تو بڑھتی عمرایک اژدہے کی مانند تعلیم یافتہ لڑکیوں کےسامنے کھڑی ہوجاتی ہے۔اِس لیے لڑکیوں کی اَزدواجی زندگی کا آغاز بہرحال بروقت ہوناچاہیے اوراِس تعلق سےوالدین /سرپرستان کو تمام تر لاپرواہیوں سے سخت گریز کرناچاہیے۔نیز اِس عذر لنگ سے بھی دامن جھاڑناچاہیےکہ لڑکیاں اَبھی زیر تعلیم ہیں۔بلکہ اگر لڑکیاں ازدواجی زندگی کےلائق ہوجائیں تودَورانِ تعلیم بھی کوئی مناسب رشتہ دیکھ کرلڑکیوںکو ازدواجی زندگی سے منسلک کردینا چاہیے، اوررَہا تعلیم وتعلّم کامسئلہ ہے توشادی کے بعد بھی باہم اتفاق و محبت سے لڑکیوں کاتعلیمی سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے ۔
۲۔دسویں پاس کے لیے بارہویں پاس، بارہویں پاس کے لیے بی اے پاس، بی اے پاس کے لیے ایم اےپاس اور ایم اے پاس کےلیے ایم فل/پی ایچ ڈی ہولڈر لڑکا مطلوب ہوتاہےاور یوں جن لڑکیوں کو ایک پُرسکون ازدواجی زندگی گزارنے کا موقع مل سکتاہے،وہ بہتر سے بہترین اورمناسب سے مناسب ترین کیخواہش میں ازدواجی زندگی سے محروم رہتی ہیںاورساتھ ہی ساتھ اُن کی عمریںبھی تیزی سےبڑھتی چلی جاتی ہیں،چناںچہ اِس ذہنیت سے توبہ کرناچاہیے اور لڑکی-لڑکے کی جوڑی اچھی بھلی ہو اَورایک فریق دوسرے فریق کی شرافت ونجابت کو لے کرمطمئن ہوتو رِشتے داری کرلینی چاہیے اگرچہ لڑکی کے بالمقابل لڑکا کم پڑھا لکھاہی کیوں نہ ہو۔
۳۔ایک ذہنیت یہ بھی بام عروج پر ہے کہ لڑکیاں اگر ملازمت پیشہ ہیں تو لڑکے بھی ملازمت پیشہ ہونےچاہئیں،چناںچہ اگر ایسا رشتہ مل جائے تو سونے پہ سہاگہ ۔ لیکن تلاش بسیار کے باوجود بھی اگر اِس طرح کارشتہ نہ مل سکےتو غیرملازمت پیشہ لڑکے کےساتھ بھی ازدوجی رشتہ قائم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونا چاہیے۔کیوں کہ اگر لڑکاتعلیم یافتہ ہے تو آج نہ کل وہ اپنا راستہ خودبنالےگا۔
۴۔بسا اوقات لڑکے تعلیم و ملازمت میں لڑکیاں کے ہم پلّہ ہوتے ہیںلیکن پھر بھی ازدواجی رشتہ اُستوارنہیں ہوپاتاتو محض اِس لیے کہ لڑکیوں کے والد اَثرورسوخ والے اور اعلی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ اُن کے بالمقابل لڑکوںکے والدایک عام انسان اورایک میڈل کلاس سےتعلق رکھتے ہیں۔یہ بہت ہی بُری بیماری ہے جو ہمارے معاشرے میں ناقابل یقین کی حد تک موجودہے۔اِس لیے اِس سلسلے میں بھی انتہائی سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے اور اَثرورسوخ کی شیخی کو بالائے طاق رکھتے ہوئےاگرچہ لڑکے اور اُن کے والد ایک میڈل کلاس اور ایک عام فیملی سے تعلق رکھتے ہوںلیکن جوڑ ی مناسب اورمعقول ہے تو ازدواجی رشتہ قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔
۵۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ لڑکے-لڑکیاں تعلیم و ملازمت میں مساوی ہوتےہیںلیکن لڑکیوں کے بالمقابل لڑکوں کی ماہانہ /سالانہ آمدنی کم ہوتی ہے تواِس سبب بھی ازدواجی زندگی اپنے آغاز سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے، چناںچہ اِس طرح کےفاسد خیالات سے بالخصوص پرہیز کرناچاہیے اورلڑکوں کی آمدنی کم ہے یازیادہ اِس پر نظر کرنے کے بجائےیہ دیکھنا چاہیے کہ لڑکے-لڑکیاں ایک دوسرے کے لائق ہیں یا نہیں،اور محض قلت آمدنی کی بنیاد پر کسی اچھے رشتے کو نظرانداز کردینا ہرگز دانشمندی نہیں ہے۔
۶۔لڑکیاں-لڑکے دونوں تعلیم وتعلّم، ملازمت اورآمدنی میں بھی برابرہوتے ہیںلیکن چوں کہ لڑکیاں دیکھنے میں شہزادی ہوتی ہیںاورلڑکے کی پرسنالٹی شہزادے کی سی نہیں ہوتی،تو اِس سبب بھی ازدواجی رشتہ قائم نہیں ہوپاتا۔کیوں کہ ایک شہزادی ،ایک شہزادے سے کم پرراضی نہیں ہوتی ۔اِس طرح کانظریہ بھی لڑکیوں کی ازدواجی زندگی کے لیے زہر ہے، لہٰذا لڑکے تعلیم وملازمت اور آمدنی کے معاملے میں ہم پلّہ ہوںتو اگرچہ وہ شہزادہ کے قبیل سے نہ ہوںپھر بھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجانا چاہیے۔
۷۔ لائق وفائق اور مناسب جوڑا ہونے کے باوجودوَالدین، اپنی لڑکیوں کارِشتہ اپنےخاندان میںکرنے سے گریز کرتے ہیں اور خاندان سے باہر لائق وفائق اور مناسب رشتہ کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔لہٰذایہ بھی ایک منفی سوچ ہے اِس سے پرہیز کرناچاہیے اوراگر خاندان میں کوئی لائق وفائق اور مناسب رشتہ ہے تو اُسے اوّل فرصت میں قبول کرلینا چاہیے۔
لہٰذا سب سے پہلے تولڑکیوں کو بروقت ازدواجی زندگی سے منسلک کرنے پرزور دیا جائے اوراِس سلسلے میں خودتعلیم یافتہ لڑکیوں کوپہل کرنی چاہیےاور ازدواجی زندگی سے منسلک ہونے کے لیےتمام طرح کے اُلٹے-سیدھے افکاروخیالات کو بالائے طاق رکھتے ہوئےمحض شرعی اوراخلاقی تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔وہ اِس طورپر کہ جس طرح ایک تعلیم یافتہ لڑکا،ایک غیرتعلیم یافتہ لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرلیتا ہے۔ ایک اعلی تعلیم یافتہ لڑکا، ایک کم تعلیم یافتہ لڑکی سے اپنا رشتہ جوڑ لیتا ہے۔ ایک ملازمت پیشہ لڑکا، ایک غیرملازمت پیشہ لڑکی کو اَپنا ہمسفر قبول کرنے میں نہیںہچکچاتا۔ ایک کامیاب لڑکاایک ناکام لڑکی کو اَپنا شریک حیات بنانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا۔ ایک اثرورسوخ رکھنے والےخاندان کا لڑکا،ایک میڈل کلاس لڑکی سے رشتہ ازدواج قائم کرنے میں اپنی ہتک عزت نہیں سمجھتاوغیرہ تو پھر لڑکیاں ازدواجی معاملے میں اِن باتوں کو اَہمیت کیوں دیتی ہیں، جب کہ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہےکہ لڑکے کے بالمقابل ازدواجی زندگی کی زیادہ ضرورت لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ کیوں کہ ازدواجی زندگی میں آجانے کے بعد لڑکیاں بہت سارے خطرات سے محفوظ ہوجاتی ہیں اور ایک نگہبان کے سائبان میں آجاتی ہیں۔چناںچہ لڑکیوں کو اِس معاملے میںمثبت فکر کےساتھ قدم بڑھانا چاہیے اور ازدواجی زندگی قائم کرتے وقت محض تعلیم وتعلّم، ملازمت، آمدنی، اعلی خاندان وغیرہ کو اَہمیت نہیں دینا چاہیے بلکہ اگر لڑکے-لڑکیوں کی جوڑی شرعی واخلاقی لحاظ سے اطمینان بخش ہے اورمعقول ومناسب ہے توپھرزندگی کی شاہراہ پر چل پڑنا چاہیے، اور خود سے اِس سوال کا جواب طلب کرنا چاہیےکہ جب ایک لڑکی، اپنے بےروزگاروالدین اور بھائی-بہن کی کفالت کرسکتی ہے تو اَپنے بےروزگار شریک سفر کی کفالت کا ذمہ کیوں نہیں اُٹھاسکتی؟ لہٰذاجس دن یہ نظریہ پروان چڑھ گیاہے کہ لڑکوں کی طرح لڑکیاںبھی ایک بےروزگار کےساتھ اپنی ازدواجی زندگی کا آغازبخوشی کرسکتی ہیں تو ہمیں کامل یقین ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی ازدواجی زندگی ہرمسئلہ حل ہوتا نظرآئےگا ۔