دیارِ غیر میں  ہجرت کرنے والوں کے مذہبی حالات

آج بڑی تیزی سے اہل اسلام یوروپ اورمسیحی ممالک کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ پہلے بھی کرتے رہے ہیں؛ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بنیاد مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نسلیں ان کے ہاتھوں سے نکل رہی ہیں اور کنبے کا کنبہ مرتد ہوتا چلا جارہا ہے۔ معروف مصری عالم شیخ علی الطنطاوی کی پوتی مومنہ العظام کی اس سلسلے میں ایک چشم کشا، فکر انگیز اور دل و دماغ جھنجھوڑ دینے والی ایک رپورٹ پڑھیے، وہ کہتی ہیں کہ:

میرے داداشیخ طنطاوی نامور عالم و فاضل ہونے کے ساتھ بڑے روشن دماغ اور مستقبل شناس تھے۔ دادا کی عالمی شہرت کی وجہ سے ہمارے پاس  یوروپ جانے کے بہت سے مواقع تھے، آسانی سے ویزے مل سکتے تھے؛ لیکن وہ ہمیں ہمیشہ دیارِ غیر میں جانے سے روکتے تھے۔  مجھے بڑا غصہ آتا تھا کہ یہ کیا دقیانوسیت ہے، سارے لوگ ہجرت کررہے ہیں، زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں؛ مگر ہمارے مذہبی خاندان نے عجیب قسم کی پابندی ہمارے اوپر لگا رکھی ہے۔

لیکن جب میں بڑی ہوئی، یوروپ کے دورے کیے،اور بہت سارے مہاجر خاندانوں سے ملاقات کا اتفاق ہوا تو دادا جان کے لیے دل سے دعائیں نکلیں اور ان کی دور اندیشی کو سلام کرنا پڑا؛ کیوں کہ ان کا خدشہ صد فی صد حقیقت ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ "کفر کی زمینوں پر رہنا، اور کافرانہ ملکوں میں بودوباش اختیار کرنا  پیش آمدہ نسلوں کے ایمان وعقیدہ کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ ہوسکتاہے آپ اپنے بچوں کے ایمان کو بچالیں، لیکن ان کے بعد کیا ہوگا، اور پھر ان کے پوتوں کے پوتوں پر کیا بیتے گی اس کی کوئی ضمانت نہی

بہت سے مذہبی لوگ یہ دعوے کرتے ہیں کہ الحمدللہ ہمارا گھرانہ بڑا کٹر دینی ہے، کہیں جائے اور کسی زمین پر رہے فرق نہیں پڑتا۔مگر نہیں صاحب ایسا نہیں ہے، وقت گزرنے کے ساتھ فرق پڑتا ہے اور بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔ 

مومنہ العظام کہتی ہیں کہ ایک دہائی قبل مجھے مہاجر خاندانوں خصوصا مشہور بیروتی مذہبی ’’رمضان خاندان‘‘ کی تحقیقات پر مامور کیا گیا۔ جب میں نے ریسرچ شروع کی، ان کے شجرات کھنگالے اور دنیا جہان میں پھیلے اس خاندان کے افراد کا جائزہ لیا تو قریبا پانچ ہزار لوگوں کا سراغ ملا۔ لیکن ان کی نسلوں کی مذہبی تباہی  کی داستان بڑی دلخراش اور جگرشگاف تھی۔ پھر انھوں نے یوروپ ہجرت کرجانے والے خاندانوں کا ایک گوشوارہ تیار کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ 

100سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 96%  غیرمسلم ہوچکے ہیں۔
80 سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 75%  مرتد  ہوچکے ہیں۔
60 سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 40%  عیسائی ونصرانی بن چکے ہیں۔
40 سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 25%  اسلام چھوڑ چکے ہیں۔

قریباً اَسّی سال  قبل ایک مشہور شیخ نے جنوب امریکہ کے ایک شہر ’ایکویڈر‘ کی طرف ہجرت کی، اور وہاں سب سے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے گھر کا ماحول مذہبی رکھا اور بچوں کو سختی سے دینی تعلیم بھی دی۔ لیکن آج بدقسمتی سے ان کے پوتوں میں کوئی بھی مسلم نہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ بیشتر مہاجر خاندانوں کے ساتھ ہے۔ 

دور کہاں جانا، ہم لوگ قریباً چالیس سال سے امریکہ میں مقیم اور یہاں کے شہری ہیں، اور خود میرے دادا شیخ علی الطنطاوی کے پوتے پوتیوں میں سولہ غیرمسلم ہوچکے ہیں۔ 

ایکویڈر میں رمضان خاندان کے انٹھانوے لوگ آباد ہیں۔ ان کے آباو اجداد ۱۹۲۳ میں ہجرت کرکے یہاں پہنچے تھے۔ آج وہ سارے کے سارے عیسائی بن چکے ہیں، جن میں سے میں نے جورج، کرسچین، اور امیلیو رمضان سے ملاقات بھی کی۔ان کو میں نے ان کا تابناک خاندانی پس منظر بتایا اور ہر طرح سے مدد کرنے کی کوشش بھی کی کہ کسی طرح گھر واپسی کرلیں، لیکن  نعوذ باللہ کوئی رضامند نہ ہوا۔

یہ رپورٹ میں نے کئی سال قبل پڑھی تھی، اور پڑھ کر بڑا دکھ ہواتھا کہ دنیا میں کیسے کیسے حادثا ت وواقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔پھر ذہن سے بات نکل گئی تھی۔ ابھی چند روز قبل قنوج میں منعقد احیاے تصوف کانفرنس کے لیے جانا ہوا تو وہاں ایک شیخ سے ملاقات ہوئی، اور باتوں ہی بات میں انھوں نے حیدر آباد کے ایک معروف عالم -کہ جن کی لکھی کتاب آج بھی درسِ نظامی کی ابتدائی جماعت میں پڑھائی جاتی ہے- کے بچوں کے امریکہ ہجرت کر جانے کا ایک دلخراش واقعہ سنایا تو برسوں قبل پڑھی ہوئی مذکورہ رپورٹ کا نقشہ ذہن میں گھوم گیا۔

شیخ صاحب نے بتایا کہ مولاناکے دو بچے ایک زمانے سے امریکہ میں رہتے تھے، وہیں کے شہری بن گئے، وہیں ان کی اولادیں بھی ہوئیں، گھر سے انھوں نے کوئی تعلق نہیں رکھا۔ مدتوں بعد ابھی حال ہی میں جب انھیں اپنی مٹی کی یاد آئی تو ان میں سے ایک ہندستان گھومنے آیا۔ اس نے جب اپنے امریکی خاندان کی روداد سنائی تو سامعین پر سکتہ طاری ہوگیا کہ اس کے اپنے دو بیٹے دائرۂ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں: ایک عیسائی بن گیا اور دوسرا ایتھیسٹ۔ آج وہ بہت بچتا رہا تھا لیکن "اب بچھتاوے کا ہووت جب چڑیا چگ گئی کھیت"

واقعی اولاد کی تربیت اور ان کے قدموں کو دین پر جمائے رکھنا سب سے مشکل، صبر آزما اور اہم ترین کام ہے۔ مگر کیا کیجیے گا کہ ہمیں جب اپنے دین وایمان کی فکر ہی نہیں تو اپنی اولاد اور اولادوں کی اولاد کے ایمان وعقیدے کی فکر کیا ہوگی!۔ جب کہ اپنی اولادوں کے ایمان وعقیدہ کے بارے میں فکرمند ہونا اور انھیں بہترین دینی واسلامی ماحول فراہم کرکے جانا یہ انبیاے کرام کی سنت ہے۔

اللہ جل مجدہ ہمارے حال زار پر رحم فرمائے اور ایمان وعقیدہ صحیحہ کی روشنی ہماری نسلوں میں باقی رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔

کچھ رہے یانہ رہے بس یہ دعا ہے کہ امیر
نزع کے وقت  سلامت  میرا ایمان رہے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter