مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کو معیوب سمجھنا معاشرے کا ایک بڑا فساد - قسط ۔ ا

محمد احمد حسن امجدی

(ترجمان ۔ تنظیم جماعت رضائے مصطفی گورکھپور۔ ورکن  شعبہ  نشرواشاعت تحریک  فروغ اسلام دہلی)

بدلتے حالات اور بدلتے زمانے نے ہمارے لئے ڈھیر ساری آسانیاں اور مختلف کاموں میں سہولتیں پیدا کی ہیں، گزشتہ زمانے کے مقابلے  ہم مختلف جہتوں سے چین و سکون اور آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے ، لیکن اس دنیا کی رنگینیوں اور چکا چوند نے ہمیں اپنی سابقہ روایات کی پاسداری، معاشرتی حسن و خوبی، اسلامی تہذیب و تمدن سے غافل کر رکھا ہے، اور ہم بھی اس ذلت آمیز اور فانی دنیا کو اپنی حقیقی اور دائمی دنیا سمجھ کر اس میں مدہوش سرگرداں ہیں، تقریبا ایک صدی قبل جب سے مغربی تہذیب نے ہمارے درمیان جگہ بنائی ،تب سے ہم اسلامی کلچر اور اپنے معاشرے میں اچھائی اور بھلائی کرنے سے کوسوں دور ہوتے جا رہے۔  اس رنگین دنیا اور بدلتے زمانے میں جہاں ایک طرف بہت سے بےفائدہ طور طریقے جنھیں کبھی اسلام میں غلط اور ناگوار تصور کیا جاتا تھا لیکن آج ان پر کثرت سے عمل کیا جارہا ہے اور ایسا کرنے کو فخر سمجھا جاتا ہے، وہیں اس کے برعکس وہ کام جو معاشرے میں باہمی الفت و محبت اور بھلائی کا ذریعہ ہوتے تھے،انہیں معیوب سمجھا جانے لگا حتی کہ معاشرے میں اگر کوئی ایسے کام کرنے کی جسارت بھی کرے تو اسے حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور اس پر طعنہ زنی بھی کی جاتی  ہے ۔

دور حاضر میں معیوب سمجھے جانے والے کاموں میں ایک کام مطلقہ اور بیوہ سے نکاح کرنا ہے، اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں ایسی بے شمار خواتین ہیں کہ کم عمری ہی میں کسی وجہ سے ان کی طلاق واقع ہو جاتی ہے یا پھر ان کے شوہر انہیں داغ مفارقت دے کر دنیاۓ بقا کی جانب چلے جاتے ہیں  اور اس خاتون پر بیوہ ہونے کا ٹائٹل لگ جاتا ہے ۔

 بلاشبہہ ہمارے معاشرے میں ایسی بے شمار  خواتین ہیں جو اس درد و الم میں آبدیدہ ہو کر زندگی گزار رہی ہیں، ایسے بہت کم سسرال والے ہیں جو بیٹے کے انتقال کے بعد بہو کی کفالت کا ذمہ لیں، ورنہ اکثر تو لڑکیوں کو ایسی حالت میں ان کے پیدائشی گھر چھوڑ جاتے ہیں، بےچارے غریب والدین جنہوں نے نہ جانے کتنی صعوبتیں برداشت کرکے، نہ جانے کہاں کہاں سے انتظام کرکے اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کیے تھے، لیکن صد افسوس! کہ قسمت نے اس بیٹی کو پھر اسی جگہ لاکر کھڑا کردیا ،اور پاس پڑوس اور رشتہ داروں کی ستم گری یہ کہ اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے بجائے اپنی چھوٹی بڑی محفلوں ، چائے کی دکانوں، ہوٹلوں پر بیٹھ کر بوڑھے والدین کو اس مصیبت زدہ، لاچار بیٹی پر عار دلاتے ہیں اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کرتے ہیں۔

کسی  وجہ سے کسی خاتون کی اگر کم عمری میں طلاق ہو جائے یا اس کا شوہر انتقال کر جائے ، تو کیا ایسی لڑکیوں کو معاشرے میں جینے کا کوئی حق نہیں ؟ اس میں اس بےچاری خاتون کا کیا قصور ؟

ایک شریف زادی کے لیے طلاق یا کسی بیوہ کے لیے اس کی صعوبتیں اور زحمتیں ہی برداشت کرنا سر پر غموں کے پہاڑ ٹوٹنے سے کم نہیں ہے، دنیا میں اس کا ایک ایک منٹ  ہزاروں سال کے برابر گزرتا ہے ،وہ زندگی سے مکمل مایوس ہو جاتی ہے ، اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے اور وہ خاتون گھٹ گھٹ کر اپنے آنسوؤں کو پی کر زندگی گزارتی ہے ۔

لہذا ضروری ہے کہ اس کی مایوس زندگی میں ایک نئی امید پیدا کی جائے،  اس کی تاریک زندگی میں خوشیاں لائی جائیں، اس کے غموں پر تسکین اور محبت کی چادر اوڑھائی جائے  اور کوئی فرد بھلائی اور مواسات  کی نیت کر کے آگے بڑھے اور شرعی طریقے سے اس خاتون کا ہاتھ تھام کر اسے نئی زندگی کی شروعات کا موقع فراہم کرے۔

اور مطلقہ اور بیوہ کی غمخواری اور از روۓ احسان ان سے نکاح کرنا حضورِ پُر نور احمد مجتبٰی محمد مصطفی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی ثابت ہے، اور بزرگانِ دین کے اقوال سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد احمد حسن امجدی

ریسرچ اسکالر ۔ جامعة البرکات علی گڑھ .

مسكن ۔ لکھن پوروا،رودولی بازار ضلع بستی، یوپی، الہند۔

رابطہ نمبر :8840061391

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter