سالِ نو کی آمد اور خود احتسابی!!
بلا شبہ اللہ ربّ العزت نے بے شمار احسانات اور لاتعداد نعمتیں اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہیں۔ انہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہماری اور آپ کی زندگی ہے۔ کتنوں کو زندگی کی یہ بیش بہا نعمت ملی مگراب وہ اپنے شب وروز گزار کر زیرِ خاک ہیں۔ شمس وقمر کی گردش احساس دلاتی رہتی ہے کہ عیش وعشرت کے بستر پر سونے والوں عنقریب تمہارا بچھونا بھی بسترِ خاک ہوگا۔
محترم قارئین! اگر کوئی شخص چند سالوں کے لیے کرایے کے گھر میں اقامت پذیر ہے تو ہرماہ وسال کے گزرنے پر اس کی چوکسی اور آگاہی نئے مسکن کی تلاش وجستجو میں بڑھتی رہتی ہے۔ کیوں کہ اسے بخوبی پتہ ہے کہ کرایے کے گھر کی میعاد قریب الاختتام ہے۔
میرے بھائیو! دنیاوی زندگی بھی کرایے کے گھر کی طرح ہے۔ دنیا ہمارا دائمی نہیں، بلکہ عارضی مسکن ہے۔ دنیا کی چین وسکون، آرائش وزیبائش بلکہ نعمتِ زندگانی کے ساتھ فانی دنیا کی ساری نعمتیں پیچھے چھوٹ جائیں گی۔ بعدہٗ آخرت کے مراحل اپنے اچھے برے اعمال کے مطابق طے کرنا ہوگا۔
نظروں کے سامنے بچے، جوان اور بوڑھوں کی اٹھتی لاشیں ہمیشہ آگاہ کرتی رہتی ہیں کہ زندگی کی نعمت دائمی نہیں ہے، وقتی اور فانی ہے۔ لہذا سال کے گزرنے اور نئے سال کی آمد پر محفلِ احتساب منعقد کرو اورغور وفکر کرو کہ اب تک کیا کھویا اور کیا پایا اور آگے کیا کیا حاصل کرنا ہے۔ اس لیے کہ خود احتسابی کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ خود احتسابی سے محروم شخص کبھی کامیابی کے منازل طے نہیں کر سکتا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ فرماتے ہیں: "اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔" (ترمذی)
مگر حقیقتِ حال یہ ہے کہ نئے سال کی آمد پر خود احتسابی کے بجائے شراب نوشی، عیاشی، اور بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ افسوس! مسلمان بھی دھڑلّے سے اس قبیح رسم کا حصہ بنتے ہیں۔ اللہ رب العزت کو ناراض کرکے دنیا وآخرت کی تباہی مول لیتے ہیں۔ اسلاف کے نقش قدم پر چلنا دشوار ہوچکا ہے اور مغرب کی گندی تہذیب وتمدن کو اپنی زندگی میں باآسانی اتار لیتے ہیں۔ مگر مغرب نے ہزاروں خرابیوں کے باوجود وقت کی قدر کرکے جو ترقیاں حاصل کیں ہیں اس سے درس حاصل نہیں کرتے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: "اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ"(المائدة) مگر ہم ان کو دوست بنا کر یا ان کی تہذیب و تمدن کو اپنا کر اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ حالانکہ دنیا وآخرت کی کامیابی اللہ عزوجل اور اس کے حبیب ﷺ کی رضامندی اور خوش نودی میں ہے۔
فرمان نبیﷺ ہے "لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلَاهُ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ؟" روزِ قیامت (اللہ کے دربار میں) انسان کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق نہ پوچھ لیا جائے : اس کی عمر کے متعلق کہ اس نے اسے کن کاموں میں ختم کیا ، اس کی جوانی کے متعلق کہ اس نے اسے کہاں ضائع کیا، اس کے مال کے متعلق کہ اس نے اسے کہاں سے حاصل کیا اور اسے کن مصارف میں خرچ کیا اور اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا ؟‘‘
میرے پیارے بھائیو! اگر آپ نے نئے سال کی آمد وغیرہ پر اپنی عمر، اپنی جوانی، اور اپنے مال کا غلط استعمال کرنے کا قصد وارادہ کرلیا ہے تو ابھی بارگاہِ رب العلی میں صدق دل سے توبہ کرلیجیے۔ تاکہ بروز حشر حساب وکتاب اور اللہ ربّ العزت کی گرفت سے بچ سکیں۔
فرمان باری تعالیٰ ہے "فَمَنۡ تَابَ مِنۡۢ بَعۡدِ ظُلۡمِہٖ وَاَصۡلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوۡبُ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۳۹﴾"(المائدة)
ترجمہ کنزالایمان: تو جو اپنے ظلم کے بعد توبہ کرے اور سنور جائے تو اللہ اپنی مہر سے اس پر رجوع فرمائے گا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ نیز اللہ عزوجل کے اس فرمان کو بھی ذہن نشین کرلو "وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۱۹۶} (البقرة) ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔
اگر نیا سال منانا ہے تو خود احتسابی، ذکر واذکار، تعلیماتِ قرآن وسنت کی تعمیم اور ایک دوسرے کے لیے دعائے خیر اور نیک تمناؤں کے ساتھ منائیں۔
اللہ پاک سالِ نو کو عروج و ارتقا اور خیر وبرکت کا ضامن بنائے ۔۔۔كل عام وأنتم بخير...