لاک ڈاون میں امت مسلمہ کی دینی رہ نمائی کرنے والی ذات: سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین رضوی کا ایک تعارف

یہ دنیا کبھی ایسے بالغ النظر فقیہ محقق کے وجود سے خالی نہیں ہوگی جو مسائل دینیہ اور جدید مسائل کے احکام سے امت مسلمہ کو روشناس کرانے کا فریضہ انجام  دے۔ دور حاضر میں ایسا فقیہ محقق سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی حفظہ اللہ کی شکل میں موجود ہے۔آپ جامعہ اشرفیہ جیسے دین و سنیت کے عظیم ادارہ کے صدرالمدرسین، شیخ الحدیث، صدر مفتی اور مجلس شرعی جیسے اہم فقہی شعبہ کے ناظم ہیں ۔آپ کی فقہی عبقریت اور فقہی بصیرت کا اعتراف موجودہ  لاک ڈاون میں ہندو پاک کے علاوہ یورپ اور امریکہ کے علما و فقہا کرتے ہوئے نظر آئے۔ اور ان تحریروں کے مطابق ان ممالک کے علما حکم شرعی بتاتے رہے ۔اردو کے ساتھ انگریزی ،ہندی اور ڈچ زبان میں بھی ان احکام شریعت کی اشاعت مختلف ممالک میں ہوئی ۔   لاک ڈاون میں جس طرح آپ کی ذات ستودہ صفات نے ہر وقت  اور ہر موڑ پر امت مسلمہ کی صحیح رہ نمائی کا فریضہ انجام دیا یقینا وہ فقہ اسلامی کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے ۔

یہ جملے، میں اس لیے سپرد قلم کر رہا ہوں کہ چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں میرے مطالعہ کے اعتبار سے اس طرح کے طویل لاک ڈاون کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔اس لیے ایسے دور میں امت کو دینی رہ نمائی کی اشد ضرورت تھی ۔یہ ضرورت حضرت سراج الفقہا حفظہ اللہ کی ذات گرامی سے پوری ہوئی ۔اس طویل لاک ڈاون میں ہمارے بڑے بڑے اسلامی تیوہار ،ہفتوں کی عید جمعہ، عبادات کا عظیم ماہ رمضان المبارک ،شب براءت ، لیلة القدر ،اعتکاف ،عیدالفطر کے متعلق مسائل در پیش آئے جن کے احکام سے بروقت روشناس کراکر امت مسلمہ پر احسان عظیم فرمایا۔اس کی اہمیت و افادیت اور بروقت رہ نمائی کے پیش نظر امت نے اسے دیوانہ وار قبول کیا اور اکثر امت نے انھیں احکام پر عمل بھی کیا۔صرف لاک ڈاون میں آپ کی فقہی خدمات اور دینی رہ نمائی پر طویل تحریر کی ضرورت ہے ۔یہ مختصر تحریر  ان کی بارگاہ میں خراج عقیدت اور عید مبارک پیش کرنے کے لیے سپرد قلم کیا ہے ۔میں آپ کی بارگاہ میں اس تحریر کے ذریعہ قارئین کو آپ کے مختصر احوال سے واقف کراکر عید کی مبارک باد پیش کرنے کی کوشش  کر رہا ہوں ۔

عصرحاضر کےعظیم محقق،فقہ اسلامی کے ماہر،  محقق مسائل جدیدہ،سراج الفقہاء فقیہ اعظم حضرت علامہ مفتی محمدنظام الدین رضوی مصباحی کی ذات محتاج تعارف نہیں ہے۔آپ کی

 ٭ولادت :2؍مارچ 1957ء موضع بھوجولی ضلع کشی نگر اترپردیش کے  ایک دین دار گھرانے میں ہوئی۔

 تعلیم وتربیت: آپ نے اپنے گاؤں کے مکتب سے تعلیمی سفر شروع کیاجو انجمن معین الاسلام بستی،مدرسہ عزیزالعلوم نانپارہ ضلع بہرائچ ہوتے ہوئے جامعہ اشرفیہ مبارکپور پرختم ہوا۔دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں آپ نے ۱۹۷۶ء میں داخلہ لیا اور جامعہ کے سرخیل وممتاز اساتذہ کرام سے خوب خوب اکتساب علم کے بعد اپریل ۱۹۸۰ء میں درس نظامی وشعبۂ تحقیق فی الفقہ سے فراغت حاصل کی۔آپ ہی کی خواہش پر الجامعۃ الاشرفیہ میں شعبۂ تحقیق فی الفقہ کااضافہ کیاگیا اور اس شعبہ کے سب سے پہلے محقق آپ ہی تھے،آپ ہی نے سب سے پہلامقالا بہ عنوان’’فقہ حنفی کاتقابلی مطالعہ کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘تحریر فرمایا۔

 بیعت وخلافت :آپ نے مفتی اعظم ہند حضرت علامہ محمد مصطفی رضا خاں نوری علیہ الرحمہ کے دست حق پر بیعت کی۔آپ کو حضرت سیدی برہان ملت مولانا محمد برہان الحق صاحب علیہ الرحمہ(جبل پور) اور امین ملت حضرت سید محمد امین میاں برکاتی صاحب(زیب سجادہ خانقاہ عالیہ برکاتیہ،مارہرہ شریف) اور پیر طریقت حضرت مولانا سید کمیل اشرف اشرفی الجیلانی سجادہ نشین حضرت مخدوم ثانی کچھوچھہ مقدسہ سے اجازت وخلافت حاصل ہیں۔حضور امین ملت نے آپ کو ’’برکاتی مفتی‘‘کے منصب پر بھی فائز فرمایا ۔اس منصب پر آپ سے قبل اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، مفتی اعظم ہند مولانا مصطفے رضا خان قدس سرہ اور شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ متمکن تھے۔

 تدریسی خدمات :فراغت کے بعد1981ء سے لے کر آج تک مسلسل چالیس  سالوں سے پوری تیاری اور ذمہ داری کے ساتھ ،بڑی عرق ریزی اور جاں سوزی اور کمال ِ مہارت کے ساتھ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں درس و تدریس اور فتوی نویسی کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آپ کی درسی تقریر بہت واضح،شستہ اور جامع ہوتی ہے جو درس کے تمام ضروری گوشوں کو محیط ہوتی ہے۔اس طرح آپ تدریسی میدان میں ایک نہایت ذمہ دار ،مخلص اور کامیاب استاذ نظر آتے ہیں۔

 ٖتصنیف وتالیف :سراج الفقہاء، بحث وتحقیق اور مقالہ نگاری میں بھی منفرد عالمانہ اسلوب کے مالک ہیں۔آپ کے مقالات ومضامین اور قلمی نقوش وآثار ،علمی وتحقیقی اسلوب کا خوب صورت رنگ لیے رہتے ہیں۔باتیں نپی تلی اور پتے کی ہوتی ہیں،مضامین کی فراوانی بھی خوب ہوتی ہیں لیکن مفہوم کی ترسیل اور معانی کی تفہیم کہیں بھی متاثر ہوتی نظر نہیں آتی،آپ کے ان قلمی نقوش کا امتیازی وصف تحقیق وتدقیق ہوتاہے۔مختلف دینی وعلمی موضوعات پر آپ کی قیمتی وجامع تحریریں ،وقیع وگراں قدر مقالے مختلف رسالوں میں شائع ہوکر عوام وخواص کے درمیان مقبول ہوتے رہے ہیں۔ حضرت سراج الفقہاء کے برق رفتار قلم سے اب تک مختلف عنوانات پر سوا سو سے زائد مضامین ومقالات معرض ِ وجود میں آچکے ہیں۔ان کے علاوہ تقریباً 45؍علمی وتحقیقی کتابیں آپ کے قلم سے معرضِ تحریرمیں آچکے ہیں۔تفصیل حسب ذیل ہے۔

  • الحواشی الجلیۃ فی تایید مذہب الحنفیۃ
  • فقہ حنفی کا تقابلی مطالعہ کتاب وسنت کی روشنی میں
  • عصمت انبیا
  • لاؤڈ اسپیکر کاشرعی حکم
  • شیئر بازار کے مسائل
  • جدیدبینک کاری اور اسلام
  • مشینی ذبیحہ :مذاہب اربعہ کی روشنی میں
  • مبارک راتیں
  • عظمت والدین
  • فقہ حنفی سے دیوبندیوں کا ارتداد
  • ایک نشست میں تین طلاق کاشرعی حکم
  • فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول
  • دوملکوں کی کرنسیوں کااُدھار،تبادلہ وحوالہ
  • انسانی خون سے علاج کا شرعی حکم
  • دُکانوں اور مکانوں کے پٹہ وپگڑی کے مسائل
  • تحصیل صدقات پر کمیشن کاحکم
  • خاندانی منصوبہ بندی اور اسلام
  • تعمیرمزارات احادیث نبویہ کی روشنی میں
  • خسر بہو کے رشتوں کا احترام نقل وعقل کی روشنی میں
  • اعضاکی پیوند کاری
  • فلیٹوں کی خریدوفروخت کے جدید طریقے
  • بیمہ وغیرہ میں ورثہ کی نامزدگی کی شرعی حیثیت
  • فقدان زوج کی مختلف صورتوں کے احکام
  • کان اورآنکھ میں دواڈالنامفسدِ صوم ہے یانہیں
  • جدیدذرائع ابلاغ اور رویت ہلال
  • طویل المیعاد قرض اور ان کے احکام
  • طبیب کے لیے اسلام اور تقویٰ کی شرط
  • نیٹ ورک مارکیٹنگ کاشرعی حکم
  • فسخ نکاح بوجہ تعسُّر نفقہ
  • ۱۴؍جلدوں میں ’’فتاویٰ نظامیہ‘‘جو دراصل ’’فتاویٰ اشرفیہ مصباح العلوم‘‘ہے
  • فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت ،فتاویٰ رضویہ کے حوالے سے
  • چلتی ٹرین میں نماز کاحکم :فتاویٰ رضویہ اور فقہ حنفی کی روشنی میں۔

فتویٰ نویسی:آپ تدریس،فتویٰ نویسی،تصنیف وتالیف،مقالہ نگاری، سمیناروں میں شرکت  جیسی دینی وعلمی مشغولیات میں منہمک رہتےہیں۔حضرت مفتی صاحب یوں تومختلف علمی وفنی میدانوں میں کمال دسترس رکھتےہیں لیکن آپ کاخاص میدان فقہ وافتاہے۔اس میدان میں آپ اس قدر ممتازونمایاں ہیں کہ معاصرین میں دوردورتک کوئی آپ کاثانی نظر نہیں آتا۔آپ نےحضرت شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب سےبیس سالوں تک فتویٰ نویسی کی تربیت حاصل کی اور شارح بخاری علیہ الرحمہ کی حیات ہی میں برصغیر کے ایک جلیل القدر فقیہ ومفتی اورجدیدشرعی مسائل کےایک عظیم محقق کی حیثیت سے مشہورہوگئے۔حضرت شارح بخاری نے صدرالشریعہ علامہ محمد امجد علی اعظمی اور مفتی اعظم ہند علامہ محمد مصطفی رضا نوری ؔ سے فتویٰ نویسی کی تربیت پائی تھی اور سراج الفقہاء نے شارح بخاری سے فقہ وافتا کی تربیت حاصل کی،اس طرح صرف دوواسطوں سے آپ فقہ وافتا میں فیضانِ رضاسے بہرہ ور اور مستفیض ہیں اور آپ کے فتاویٰ میں امام احمدرضا قدس سرہ کی علمی تحقیق کی جھلک صاف نظرآتی ہے۔آپ نے بہت سے نئے فقہی مسائل کی تحقیق فرمائی،نہایت وقیع اور بیش قیمتی ابحاث و تحقیقات قوم کےسامنے پیش فرمائیں،ہزاروں فتاویٰ لکھ کرامت مسلمہ کی الجھنوں کو دور کیا ۔جامعہ اشرفیہ کے  قیام سے لے کر اب تک صادر کیے گئے تمام فتاوی کا مجموعہ آپ کی زیر نگرانی منصہ شہود پر آ رہا ہے ۔۔اس کی تین جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں ۔بقیہ جلدوں کا کام آپ کی زیر نگرانی اور زیرتحقیق جاری ہے۔رب قدیر کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ آپ کا سایہ امت مسلمہ پر سلامتی کے ساتھ تادیر قائم رکھے ۔آمین بجاہ حبیبک النبی الامین الکریم

حافظ محمد اکرم اشرفی، امام میمن مسجد ٹنڈیل محلہ بھیونڈی. 9822760520

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter