عہد حاضر کی تعلیمی ضرورت اورنوائے مستقبل
کلام کا مقتضی حال کے موافق ہونااورخودکلام کاتمام مشکل الفاظ سے خالی ہونا۔اس کومتفقہ طورپرفصاحت وبلا غت سے تعبیر کرتے ہیں۔تو پھرہم اسکو صرف کتابی مثال ہی کیوں سمجھتے ہیں یہی اصول ہم اپنے گردو پیش اورتعلیم و زندگی کے سفرمیں کیوں نہیں اپناتے؟خاص طور سے ہند وستان میں ہماری تعلیمی ضرورت اوراس کامقتضی کیا ہے؟ اس پر سنجیدگی سےغوروفکرکیوں نہیں کرتے؟ کیا سورج کی روشنی میں آنکھ موندلینے سے رات ہوجاتی ہے؟نہیں نا!توپھرکیا عصری تعلیم سے دوری ہی ہماری روحانیت کی اصل ہے؟ یاپھرکہیں ہم دانستہ طورپرشترمرغ کی طرح ریت میں منھ چھپا نے کی نقل تو نہیں کررہے ہیں؟میری مرادہندوستانی نقطہ نظرسے وقت کی پکارہے وقت کے تقاضہ پرکان دھرنا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ جب تک ہم بیدارہوں اسوقت تک کشتی ڈوب چکی ہوکیوں کہ پانی کےتھپیڑوں سے طوفان کی آمد کا اندازہ لگا کرساحل تک پہنچنے کی جتن میں لگ جانااورمصیبت بھانپتے ہی کان کھڑا کرناہی دانشمند ی کہلاتی ہے۔
محبت کو سمجھنا ہے تو ناصح خود محبت کر
کنارے سے کبھی اندازہ طوفان نہیں ہوتا
آج جس دورپرآشوب سے ہم متصادم ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ہماری کج فکری اوردوراندیشی سے منھ موڑنے اور مستقبل سے بے فکری کانتیجہ ہے۔کہا جاتا ہے ”صبح کابھولاشام کولوٹ آئے،، تو اس کوبھولانہیں کہتے۔اس لئے اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی چوک کودرست کرلیں اوروقت کی ضرورت کوسمجھتےہوئےاپنے تعلیمی نصاب میں تبدیلی لا ئیں۔ بهارت خصوصاشمالی ہندمیں تعلیم دوحصوں میں بٹی ہوئی ہے مدارس کی تعلیم، جسے دینی تعلیم کہتے ہیں۔ دوسری اسکولی تعلیم، جسے عصری یامادی تعلیم کہاجاتاہے۔دونوں کے اپنے اپنے اصول اوراپنےطریقہ کارہیں یقینا دونوں تعلیم اپنے اپنے لحاظ سے کامیاب ہیں انہی مدارس کے فارغین میں،مجدد، مفسر، محدث، مفتی، قاری حافظ وغیرہ ہیں۔ وہیں اسکو ل وکالج کے فارغین،ڈاکٹر،انجینئر،جج،وکیل،آئی ایس،آئی پی ایس وغیرہ ہیں۔عمومادونوں ایک دوسرےکےضدسمجھےجاتےہیں یعنی اکثر اسکولی متعلمین دینی تعلیم سے نابلد ہیں اور اسی طرح مدرسوں کے متعلمین مادی تعلیم سے ناآشنا ہیں جسکا نتیجہ یہ ہے کہ بنیادی طوررپربھی دنیاوی یاہندوستانی مسا ئل کے حل کاعلم مدارس کے فارغین کے پاس نہیں اوربعینہ ابتدا ئی طورپربھی شر عی مسائل کے حل کی جانکاری اسکولی فارغین کونہیں یہاں تک کہ نمازروزہ حج زکاۃ جو امت مسلمہ پرفرض وضروری ہیں ان کے متو سط مسائل تو اپنی جگہ بلکہ بطورفرض عمل کرنے اور قرآن پڑھنے تک کاعلم نہیں۔یہی وجہ ہے کہ دینی طالب علم اسکولی تعلیم کی تنقید کرتاہے اورعصری تعلیم کا حامل مدارس اوراس کی تعلیم ومتعلم کاشدت سے مخالفت کرتا نظرآتا ہے۔
اوریہ دوریاں دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہیں آپ دیکھئے کہ مدارس اوراس کی تعلیم کی قدامت پسندی یاپھرشدت پسندی کا جتنا پروپیگنڈ ہ ایک عصری تعلیم یافتہ کے ذریعہ ہوتا ہے اتنا عوام الناس کے ذریعہ نہیں ہوتا۔جس کاگورنمنٹ بھر پورفائدہ اٹھاتےہوئےآئے دن مدارس اوراس کی تعلیم ومتعلمین پرطرح طرح کی تنقید کےساتھ انگشت نمائی کررہی ہے اور اسی بہانے مدارس اسلامیہ کواپنی گہری نگاهداشت میں رکھنے کی تیاری ہورہی ہے یاپھراسے بندکرنے کی دانستہ سازش کی جارہی ہے جیساکہ گذشتہ سال آسام میں مدارس کو بند کیاگیااورپھریوپی میں بھی بندکرنےکاشن گن ہواہے اورمستقبل میں پاپندی کی عملى کوشش بھی تیزہوسکتی ہے۔ لہذاکیوں نہ ہم ان الزما ت سے بچتےہوئےاوراپنے مستقبل کودیکھتےہوئےجدت پسند بن جائیں اورہم دینی وعصری تعلیم کو یکجاكرپڑھنے اورپڑھانے کی کوشش تیزترکردیں تاکہ مسلمانوں میں جودینی ومادی تعلیم کا افتراق وانتشارہے وہ کسی حدتک ختم نه سهي کم توکیاجاسکے۔کیوں کہ اگربھارت میں اپنی شناخت بچانی ہے اوراپنا وجودقائم رکھنا ہے تواعلی تعلیم حاصل کرکے اعلی عہدے پر پہنچے بغیرممکن نہیں ہے تھوڑی دیرکے لئے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اورپھرفکری دریچےکھول کراپنے آس پاس کے حالات کومد نظررکھتےہوئےغورکریں کہ کیا آج ہمارے پاس اپنےکیس لڑنےکے لئے وکلاکی عمدہ جماعت ہے؟ یابارکونسل میں ہماری پہنچ ہے؟ کیاہمارے پاس ججوں کی جماعت ہے؟۔ جووقت پرآئین کے مطابق فیصلہ سناسکے،کیا ہمارے افرادمعتدبہ مقدارمیں فوجی ہیں؟ کیاہمارے پاس محافظین کی جما عت میں شمارکیےجانیوالے آئی ایس،آئی پی ایس اورپولیس ہيں؟کیاہمارے پاس سیاسی یاسماجی ایسی جماعت ہے جوہمارےحقوق کیلئے اپنی آوازبلند کرسکے؟ایسے تمام سوالات کے ہمارے پاس صرف ایک ہی جواب ہے کہ نہیں!
آج ہماری قوم ہرمیدان میں بہت بہت پیچھے ہے۔ اورہم آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ان بڑےعہدوں تک رسائی عصری تعلیم کے بغیرممكن نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب ہم ہندوستان کے تمام اثراندازعہدے کودیکھتے ہیں تودوردورتک تعلیم یافتہ مسلم نوجوان سے برمیدان خالی نظرآتاہےاوراگرخال خال کہیں ہے بھی تواسکوانسانیت وآخرت سےکچھ لینادینانہیں ہے بس وہ اپنی دنیامیں مگن ہیں. وجہ؟ مذہبی تعلیم نہیں ہے۔ جنہیں خوداپنے مذہب ہی کاعلم نہیں ہےان میں اپنی قوم کے لیے مرمٹنے کاسرسييدساجذبہ کہاں سے ہوگا۔المیہ یہ ہےکہ غیرمسلم کی متشددتنظمیں جن کےناموں کاوردہوتارہتاہے وہ ہماری غربت وجہالت کافائدہ اٹھاتےہوئے ہماری قوم کےبچوں کے ذہن میں تبدیلی لاتےہوئےمذہب بیزاربنارہے ہیں۔ایک رپورٹ کےمطابق موجودہ چندسالوں میں آرایس ایس کےاسکولوں اوراس تنظیم میں شامل ہونیوالے مسلم بچے بچیوں کی تعدادمیں بے تحاشااضافہ دیکھاجارہاہے جوباعث تشویش ہے۔اگرمعاملہ صرف تعلیم کاہوتوکوئی مشکل نہیں مگرتعلیم کی آڑمیں شرک وکفرکےمذموم عقائداور خوداپنے ہی مذہب سے بیزاری کی رہبری ہوتوسوچئے مستقبل کتناخوفناک ہوگا۔آج ہمارے لئے جو کچھ بھی تھوڑے بہت اعلی عہدیدارمیسرہیں وہ صرف مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی دین ہے اب آپ سوچیں کہ اگرہمارے پاس اس طرح کایہ ایک ادارہ نہ ہوتاتوہم کہیں کھڑے ہونے کےلائق بهي نہ ہوتے۔
لہذاحالات متقا ضی ہے کہ علی گڑھ،جامعہ ملیہ،جامعہ ہمدرد، وغیرہ اس طرح کے ادارے اگرہم نہیں بناپارہے ہیں توکم ازکم ان جیسے اداروں میں پہنچنے کے لئے بنیادی تعلیم سے آراستہ نوجوان توتیارکرنے کی سعی کرسکتے ہیں۔ جس سے وہ اس طرح کی یونیورسٹی میں مزید آگے کی تعلیم حاصل کر کےاعلی عہدے پرپہنچ کراپنے دیش وقوم کی خدمت کرسکے،اس کے لئے نئی عمارتیں اورنئی تنظیم کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے وہی مدارس اسلا میہ جس میں دینی تعلیم ہورہی ہے اسی کودینی علوم کےساتھ عصری تعلیم سے مزین کردیں۔تویہ بھی ایک انقلاب سے کم نہیں۔ چنانچہ اپنی فکری تبدیلی کاثبوت دیتے ہوئےاوروقت کی اشد ضرورت کوسمجھتے ہوئے خود کواوراپنے بچوں کواپنےعلاقوں کودین کے ساتھ موجودہ ضرورتوں سے جوڑنےکی کوشش کریں۔ تاکہ ایک دائمی انقلاب برپاہو۔
ویسے تو ہمارے لئے آزادی کے بعدہی سے ناگفتہ بہ حالات ہیں مگر فی الحال طوفان نمرودی وفرعونی ذرازیادہ اپھان پرہے جس کے لئے سترسالوں کے بیشمارمثالوں کی ضرورت نہیں۔ بلکہ تازہ واقعات دہلی اورحالیہ فسادات مدھ پردیش دل دہلانے کے لئے کافی ہیں۔اس لئے ہمیں ہرتعلیم کی اشد ضروت ہے خواہ دینی ومادی ہویادفاعی۔ ورنہ ایسانہ ہوکہ غیرمذاہب کےافرادجوسترسالوں سے ابتک دنگوں کی آڑمیں ہمارے مکان ودوکان مال ومتاع اورعبادت گاہوں کوجھوٹی محافظت کاراگ الاپنے والوں کی نگہبانی میں نگاہوں کے سامنے خاکستربناکرہماری زندگی کوغربت وافلاس اورجہالت کےقعرعمیق میں ڈھکیل کرہماری مجبوری کافائدہ اٹھارہے ہیں مستقبل میں مزیداورظلم ڈھانے کے درپےنہ ہوجائیں جس کی چھوٹی سی مثال سی اےّاے،این پی آرجیسےنئے قوانین ہیں جس سےہمیں ڈرایاجارہاہے خاص طورپرمسلم برادری جہاں بیشترلوگوں کے پاس نہ توپیدائشی سرٹیفکٹ ہےاوراگرہےبھی توانہیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارانام کس طرح کی اسپلینگ سےلکھاجائیگا۔بس ہم توسیدھا اپنااوراپنے بال بچوں کانام عربی الفاظ میں اردوکےاچھےمعانی کےلحاظ سےلکھادیتے ہیں نہ کہ انگریزی کی اسپلینگ کےاعتبارسے۔ اب کیامعلوم کہ”احمد Ahmed ایم ای ڈی سے لکھا جائیگایاAhmad ایم اے،ڈی سےلکھاجاتاہےایسے ہی مستقیم،Mustaqeemکیوڈبل ای سے لکھاجاتا ہے یا Mustakimکے أئی سےلکھاجائیگاحالانکہ پڑھنےمیں اورسننےمیں دونوں یکساں لگتاہے۔ یہ اسپلنگ کی تبدیلی ہماری نظرمیں بہت چھوٹی ہے۔مگر قانونی گرفت میں آتی ہے۔
كاش ہم ہماری قوم دونوں تعلیم کویکجاکرپڑھتی اوراپنے بچوں کوپڑھاتی توشناختی یاگورنمنٹی کارڈبنانے والوں کوبتاکریہ ساری خامیاں دورکی جاسکتی تھیں۔ بہرحال اب بھی وقت ہےکہ لکیرکےفقیربنےرہنے۔ اورفرسودہ خیالی سےباہرنکلیں اورعصرحاضرکی ضرورتوں پرکان دھریں جوکہ سبھی کی مشترکہ ضرورت ہے۔اگرمسلمان بعدآزادی مشترکہ تعلیم وتعلم پرمکمل نہ سہی حسب ضرورت ہی دھیان دیتی توممکن ہے کہ آج جوہمارےخلاف پروپگنڈےکیےجاتے ہیں یااعلی عہدے پرفائزغیرمسلم حضرات جو متعصب رویہ اختیارکرتےہیں ایساکرنےسےبازآتے.اوربعض اوقات خوداپنی ہی صف کےہم قوم بااثرسیاسی وسماجی اور مذہبی افرادغیرکی ہاں میں ہاں ملاکراپنے ہی سربراہوں کوجی بھرکوستے ہیں انہیں سمجھ آتی كہ ہمیں کیاکرنا اورکیاکہناچاہیے۔ تب شایدہمیں یہ شکوہ کرنےکی ضرورت نہ ہوتی کہ۔
رحمتیں ہیں تیری اغیارکے کاشانوں پر
برق گرتی ہے توبے چارے مسلمانوں پر