رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ: مختصر حیات و خدمات
برصغیر کی علمی و دینی فضا میں کئی آفتاب و ماہتاب چمکے، مگر کچھ ایسے بھی تھے جن کا نور صرف اپنے وقت تک محدود نہ رہا، بلکہ بعد از غروب بھی دلوں کو منور کرتا رہا۔ انہی روشن ستاروں میں ایک تابندہ نام علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کا ہے، جو صرف ایک مصنف یا مقرر نہیں، بلکہ ایک ہمہ جہت شخصیت، ایک فکرِ رواں، ایک دعوتی تحریک، ایک قلمی انقلاب، اور ایک مسلکی بصیرت کا روشن مینار تھے۔ وہ مبلغ بھی تھے اور معلم بھی، وہ نظریاتی سپہ سالار بھی تھے اور روحانی پیشوا بھی۔
آپ نے اپنی پوری زندگی عقائدِ اہلِ سنت کی پاسبانی، باطل افکار کے رد، مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ترویج اور اسلامی شعور کے احیاء میں صرف کر دی۔
نام و نسب: آپ کا اصل نام غلام رشید تھا، مگر علمی و ادبی دنیا میں ارشد القادری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کے والد کا نام عبد اللطیف رشیدی تھا۔ یہ خاندان علم، تقویٰ اور سلوک میں معروف و ممتاز تھا۔
پیدائش اور ابتدائی تعلیم: آپ کی ولادت 5 مارچ 1925ء کو سید پورہ، ضلع بلیا (یوپی) میں ہوئی۔ دینی ماحول میں پرورش پائی اور بچپن ہی سے علم کی طرف رغبت تھی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ پھر مسلسل 8 سال تک عظیم محدث و مربی، حافظ ملت علامہ عبد العزیز مبارکپوری علیہ الرحمہ (بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور) کی سرپرستی میں رہ کر اکتسابِ علم و فیض کیا۔ بعد ازاں آپ نے الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور سے 1944ء میں سندِ فراغت حاصل کی اور ممتاز طلبہ میں شمار کیے گئے۔
تدریسی و دعوتی خدمات: فراغت کے بعد کچھ عرصہ ناگپور میں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر 1952ء میں جمشیدپور کو اپنی علمی، دینی اور فکری سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ یہاں سے آپ نے ایک ایسے تعلیمی و دعوتی دور کا آغاز کیا جو نصف صدی سے زائد پر محیط رہا۔ ہزاروں تشنگانِ علم کو سیراب کیا، انہیں صرف علومِ دینیہ نہیں سکھائے، بلکہ دعوت کی جرأت، مسلکی غیرت اور فکری استقامت بھی عطا کی۔
تصنیفی خدمات: علامہ ارشد القادری کا قلم صرف لکھتا نہیں تھا، بلکہ بولتا تھا اور دلوں پر اثر چھوڑ جاتا تھا۔ آپ کی تحریریں جہاں فکری بالیدگی عطا کرتی ہیں، وہیں عقیدے کی پختگی اور جذبے کی حرارت سے لبریز ہوتی ہیں۔ آپ کی تصانیف کی تعداد 30 سے متجاوز ہے۔ کچھ شہ پارے یہ ہیں: زلزلہ، زیرو زبر، تعزیرات قلم، نقش کربلا، لالہ زار، دعوتِ انصاف، شخصیات، زلف و زنجیر، افکار و خیالات، صدائے درویش، شعور و آگہی، انوار احمدی، تجلیاتِ رضا، کمالاتِ مصطفیٰ ﷺ، تبلیغی جماعت، اور جماعت اسلامی۔
مناظرانہ خدمات: علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے قلم و تدریس کے ساتھ ساتھ منبرِ مناظرہ پر بھی اہلِ سنت کی حقانیت کا جھنڈا بلند کیا۔ آپ کے علمی مناظروں نے فتنہ پرور گروہوں کو بارہا لاجواب کیا اور حق کا غلبہ نمایاں کیا۔ اہم مناظروں کا اجمالی ذکر درج ذیل ہے:
پہلا مناظرہ — کٹک (اڑیسہ) میں مولوی عبد اللطیف نعمانی کے ساتھ "حفظ الایمان" کی کفریہ عبارت پر، جس میں آپ نے دیوبندی موقف کو مکمل طور پر باطل ثابت کر دیا-
دوسرا مناظرہ — چھپرا (بہار) میں مولوی عبد السلام لکھنوی کے ساتھ "سلام و قیام" کے مسئلہ پر، جو ایک ہی دن میں اہلِ سنت کی شاندار فتح پر ختم ہوا۔
تیسرا مناظرہ — ضلع امراوتی (مہاراشٹر) میں مولوی ارشاد احمد مبلغ دارالعلوم دیوبند کے ساتھ تبلیغی جماعت کے موضوع پر۔
چوتھا مناظرہ — بولیا مندسور (راجستھان) میں مولوی ارشاد دیوبندی کے ساتھ "حفظ الایمان" کی کفریہ عبارت کے موضوع پر۔
پانچواں مناظرہ — ضلع دھنباد (جھارکھنڈ) میں مولوی طاہر گیاوی کے ساتھ، جس میں دونوں طرف سے اکابرین کے ایمان کو زیر بحث لایا گیا۔
چھٹا مناظرہ — کٹک (اڑیسہ) میں، جس میں دیوبندیوں نے تین مرتبہ اپنا مناظر تبدیل کیا، لیکن آپ ہر مرحلہ میں اہلِ سنت کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈٹے رہے اور مناظرے کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
یہ مناظرے نہ صرف علمی بصیرت اور فکری پختگی کی دلیل ہیں بلکہ آپ کی جراتِ ایمانی اور استقامت کی روشن مثال بھی ہیں۔
ادارے و تنظیمات: آپ صرف فرد نہیں، ایک ادارہ ساز شخصیت تھے۔ صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی آپ نے دعوت و تنظیم کی بنیادیں رکھیں۔ ان میں سرِ فہرست ہیں:
مدرسہ فیض العلوم – جمشیدپور
جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء – دہلی
ادارہ شرعیہ – پٹنہ
جامعہ مدینۃ الاسلام – ہالینڈ
دار العلوم علیمیہ – سورینام (جنوبی امریکا)
دعوتِ اسلامی – عالمی دعوتی تحریک
ورلڈ اسلامک مشن – لندن
اسی کے ساتھ ساتھ، آپ نے ملک کے مختلف علاقوں میں کئی مساجد کی تعمیر بھی کروائی جو آج بھی آپ کی دور اندیشی، دینی حمیت اور اخلاص کی گواہی دے رہی ہیں۔
بیعت و خلافت: روحانی تربیت کے لیے آپ نے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے بیعت کی اور پھر مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان قادری علیہ الرحمہ سے خلافت حاصل کی۔
وصال: 15 صفر المظفر 1423ھ، بمطابق 2002ء کو یہ چراغ علم و ہدایت ہمیشہ کے لیے بجھ گیا، اور امت علم و حکمت کے ایک بے مثال رہنما سے محروم ہو گئی۔
اختتامیہ: اللہ تعالیٰ علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے مرقد کو نور سے بھر دے، ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے، اور امت کو ان کے افکار و نظریات سے مسلسل فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
وہ چلے گئے، مگر اُن کی صدائیں اب بھی گونج رہی ہیں، وہ قلم رکھ گئے، مگر اُن کے الفاظ آج بھی دلوں کو گرما رہے ہیں۔