سلام رضا میں سراپائے محبوب ﷺ کی ضیا پاشیاں (۴)
مکین گنبد خضرا ﷺ کے حسن ورعنائیوں کا ذکر جمیل ہورہا تھا اور حسن مصطفی کی خیرات وصدقہ ہی سے جہان رنگ وبو میں جمال ودلکشی کی صورتیں پوست ہوئی ہیں۔ اس کائنات آب وگل میں حسن وعشق کے جو ہنگامے برپا ہیں وہ سب حسن مصطفی ﷺ کی پرتو ہیں یہی حسن کبھی ہمیں آبشاروں میں سنائی دیتا ہے کبھی دریاؤں کے سکوت میں کہیں صحراء وریگستانوں کی خاموشیوں میں کبھی سمندروں کے تلاطم خیز موجوں میں کہیں سبزہ زاروں کی شادابی میں، الغرض یہی حسن ہر شے میں کارفرما ہے۔آج ضرورت بھی اس بات کی ہے کہ حسن کے متلاشی وسرگرداں لوگوں کو در مصطفی ﷺ پر پہنچادیا جائے تاکہ اس حسن کی جلوہ سامانیوں میں گم ہوکر نجات ابدی وفلاح سرمدی سے بہرہ مند ہوجائیں۔بزم ہستی میں محبت رسول ﷺ وعشق مصطفی ﷺ کے چراغ روشن کرنے سے دلوں کا ایمان مضبوط اور قلوب کا ایقان استوار ہوجائے گا۔اسی وجہ سے امام عشق ومحبت دعا کیا کرتے تھے، وہ فرماتے ہیں:
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
اسی حقیقت کو قلند ر لاہوری علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہرکے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے!
اب ایک پکے سچے عاشق رسول حضرت سیدی ابو العباس مرسی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان بھی پڑھیے اور ایمان تازہ کیجیے، وہ فرماتے ہیں: لو غاب عنی رسول اللہ ﷺطرفۃ عین ما عددت نفسی من المسلمین اگر حضور پرنور شافع یوم النشور ﷺکی یاد میرے دل سے چشم زدن کے لیے اوجھل ہوجائے تو میں خود کو مسلمان شمار نہیں کرتا۔آئیے تمہید کی طوالت کی موشگافیوں میں الجھے بغیر اصل عنوان کی طرف پلٹتے ہیں۔امام عشق ومحبت امام احمد رضا خان محدث بریلوی حضور کے گیسوئے انور کے بارے میں فرماتے ہیں:
وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا لکہء ابر رحمت پہ لاکھوں سلام
حضور پر نور ﷺ کے گیسوئے اطہر کستوری کی مثل اور وجود وسخا کے بادلوں کی طرح تھے اور وہ مہربانی کے بادلوں میں کرم کے بادل کا حسین ٹکڑا ہے۔حضور پروقار ﷺ کے موئے مبارک نہایت حسین اور جاذب النظر تھے نہ بالکل سیدھے اور نہ مکمل طور پر گھنگھریالے بلکہ ہلکے سے خمدار اور توازن واعتدال کا دلربا امتزاج کی وجہ سے ریشم کی طرح نرم وملائم تھے۔صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گاہے بگاہے حسن وجمال مصطفی ﷺ کا ذکر کرکے اپنے نہاں خانہ ء دل کو تسکین کا سامان فراہم کرتے تھے۔اور حضور شہر یار ارم ﷺ کی ذات بابرکات سے اتنی والہانہ عقیدت ومحبت کے پھول نچھاور کرتے کہ ان کے دل ودماغ اور نگاہوں میں ہمہ وقت آپ ﷺ کا رخ انور خرام ناز کرتا رہتا تھا۔وہ آپ ﷺ کی عنبریں زلفوں کے اسیر تھے۔انہیں زلف عنبریں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: کان شعر النبی ﷺ رجلا لا جعد ولا سبط حضور تاجدار حرم ﷺ کی زلف عنبریں نہ تو مکمل خمدار تھی اور نہ پوری طرح سیدھی، اکڑی ہوئی تھی بلکہ نیم خمدار تھی۔
احادیث مبارکہ میں آپ ﷺ کے گیسوئے اطہر کے بارے میں اکثر وبیشتر تین الفاظ گردش کرتے ہیں کبھی آپ کے زلف مشکبار کو”ذولمۃ“ یعنی چھوٹی زلفوں والا کبھی ”ذووفرۃ“لٹکتی ہوئی زلفوں والا اورکبھی ”ذوجمۃ“کاندھوں سے چھوتی ہوئی زلفوں والا کہہ کر صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خطاب کیا کرتے تھے۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ما رایت من ذی لمۃ أحسن فی حلۃ حمراء من رسول اللہ ﷺ شعرہ یضرب منکبیہ میں نے چھوٹی زلفوں والے سرخ حلہ پوش سرکار دوجہاں مالک ارض وسماں ﷺ سے بڑھ کر کسی حسین وجمیل کو نہیں دیکھا اور سرکار ﷺ کے گیسوئے انور شانوں کو چوم رہے تھے۔ حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: کان رسول اللہ ذا وفرۃحضور سرور کونیں لٹکتی ہوئی زلفوں والے تھے۔اسی طرح اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کی زلف مشکبار کے بارے میں فرماتی ہیں: وکان لہ شعر فوق الوفرۃ دون الجمۃ آپ ﷺ کے موئے مبارک کانوں اور شانوں کے درمیان ہوا کرتے تھے۔جمۃ کہتے ہیں وہ زلف عنبریں جو بڑے ہوکر شانہء مبارک کو چھونے لگے۔گویا ذی جمۃ کا معنی یہ ہوا کہ کاندھوں سے چھوتی ہوئی زلفوں والا۔ الحاصل احادیث مبارکہ میں آپ ﷺ کی زلف مشکبار کی بابت تیں الفاظ وارد ہوئے ہیں:
پہلا: ذو لمۃ۔چھوٹی زلفوں والا
دوسرا: ذو وفرۃ۔ لٹکتی ہوئی زلفوں والا
تیسرا: ذو جمۃ۔کاندھوں سے چھوتی ہوئی زلفوں والا
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ آپ کے موئے مبارک کے حسن وجمال کو بیان کرتے ہیں: لہ شعر یبلغ شخمۃ الیسری رایتہ فی حلۃ حمراء لم أر شیئا قط أحسن منہ حضور خسروئے خوباں ﷺ کے موئے مبارک کانوں کی لو تک لٹکتے رہتے تھے۔ میں نے سرخ پوشاک میں حضور پرنور ﷺ سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔نیز حضرت براء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: کان شعر رسول اللہ ﷺ الی منکبیہ حضور شافع یوم النشور ﷺ کی زلف مبارک شانوں تک لٹکی ہوئی تھی۔ مولائے کائنات شیر خدا مشکل کشا سیدنا علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: کان رسول اللہ ﷺ حسن الشعر رسول خدا ﷺ کے گیسوئے اقدس نہایت ہی حسین وجمیل تھے۔خداوندے قدوس نے جن سیاہ زلفوں کی قسم کھا کر ’واللیل اذا سجی‘ کہا ان سیاہ زلف مشکبار کی رعنائیوں کو بیان کرتے ہوئے حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں: کان رسول اللہ ﷺ شدید سواد الرأس واللحیہ حضور ﷺ کے سر اور داڑھی مبارک کے بال گہرے سیاہ رنگ تھے۔زلف عنبریں کی مانگ نکالتے وقت حسن دوبالا ہوجاتا تھا جس کو حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: کان رسول اللہ فرق بعد ذلک فرق العرب چند ایام کے بعد حضور ﷺ اس طرح مانگ نکالتے تھے جیسے اہل عرب نکالا کرتے تھے وہ مانگ سیدھی اور باریک رہتی تھیں اسی حسین مانگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلی حضرت فرماتے ہیں:
لیلۃ القدر میں مطلع فجر حق مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام
امام عشق ومحبت نے سرکار دو جہاں کی مانگ مبارک کو لیلۃ القدر سے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے موئے انور نہایت سیاہ تھے اور قدر کی مبارک راتیں بھی سیاہ کالی ہوتی ہیں۔ شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے جس کی اکثر راتیں سیاہ ہوتی ہیں تو اعلی حضرت نے آپ کی زلف مشکبار کو لیلۃ القدر سے تشبیہ دی اور فجر سپیدہ صبح آسمان پر ایک سفید روشن سیدھی لکیر ہوتی ہے جس سے دن کی شروعات ہوتی ہے۔امام عشق ومحبت نے مانگ اظہر کو جو سر کے درمیان بالکل سیدھی نکالی جاتی ہے اس کو فجر حق سے تشبیہ دی جس طرح شب قدر میں طلوع فجر تک اللہ کی رحمتیں وانوار برستے ہیں تو اسی طرح گیسوئے مشکبار سے بھی صبح قیامت تک رحمتیں وبرکتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔
اب تک ہم نے زلف عنبریں کے حسن وجمال کو بیان کیا۔ اب آئیے اس گیسوئے اطہر کے انوار وبرکات کے ذکر سے اپنے قلوب کو منور ومجلی کرتے ہیں۔حضرت عبد المجید بن جعفر روایت کرتے ہیں: ان خالد بن ولید فقد قلنسوۃ لہ یوم الیرموک فطلبہا حتی وجدھا وقال اعتمر رسول اللہ ﷺ فحلق رأسہ فابتدر الناس جوانب شعرہ فسبقتہم الی ناصیتہ فجعلتہا فی ہذہ القلنسوۃ فلم أشہد قتالا وھی معی الا رزقت النصر جنگ یرموک کے دن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی گم ہوگئی۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ جنگ کو بھول کر ٹوپی تلاش کرنے لگے اور ٹوپی حاصل کرنے تک دم نہ لیا۔ احباب کے دریافت کرنے پر آپ نے کہا: امام الانبیاء ﷺنے جب عمرہ ادا فرمایا تو آپ نے اپنے سرکا حلق فرمایا، لوگ موئے مبارک پرٹوٹ پڑے، میں نے سبقت کرلی اور آپ کی پیشانی مبارک کے بال حاصل کرکے میں نے ان گیسوؤں کو ٹوپی میں محفوظ کرلیا۔ خدا کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں جس جنگ میں شریک رہا انھیں زلف مشکبار کی برکتوں سے نصرت پاتا رہا۔حضرت عثمان بن عبداللہ روایت کرتے ہیں: أرسلنی أھلی الی أم سلمۃ بقدح من ماء۔وقبض اسرائیل ثلاث اصابع من قصۃ۔ فیہ شعر من شعر النبی ﷺ وکان اذا أصاب الانسان عین او شیء بعث الیہا مخضبہ فاطلعت فی الحجل فرایت شعرات حمرا میرے گھر والوں نے مجھے ایک پیالہ میں پانی دے کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا، حضرت اسرائیل راویئ حدیث فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی انگلیوں کو بند کرکے اسی پیالی کی طرح بنالیا جس کے اندر نبی پاک ﷺ کے موئے مبارک رکھے گئے تھے۔ چنانچہ جب کسی آدمی کو نظر بد لگ جائے یا کوئی اورتکلیف ہوجائے تو ان کی طرف دیکھے۔اس حدیث کے تحت علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: المراد انہ کان من اشتکی أرسل اناء الی ام سلمۃ فیجعل فیہ تلک الشعرات وتغسلہا فیہ وتعیدہ فیشربہ صاحب الاناء او یغتسل بہ استشفاء بہا فتحصل لہ برکتہا اس سے مراد یہ ہے کہ جب کسی کو کسی مرض کی شکایت ہوتی تو لوگ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت عالیہ میں برتن بھیجتے تو آپ ان گیسوؤں کو اس پانی میں ڈبو کر وہ پانی اس مریض کو پلاتیں تو وہ شفایاب ہوجاتا اور اس زلف ناز کی برکتوں سے مالامال ہوجاتا۔
یہ صرف سراپائے محبوب ﷺ کے ایک عضو کا کمال ہے تو اندازہ لگائیے اس محبوب ﷺ کی مکمل ذات کی کیابات ہوگی جس کو رب قدیر نے دنیا کی تمام خوبیوں کا مرقع وپیکر بناکر مبعوث فرمایا ہے۔ کیا خوب کہا علامہ جامی نے کہ۔۔۔
حسن یوسف، دم عیسی، یدِ بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری!
پھر کسی شاعر نے یہ بھی کہا کہ۔۔۔
نہ ایسی زلفیں نہ ایسا چہرہ نہ یوں کسی پہ شباب ہوگا!
جواب ہوں گے سبھی کے لیکن نہ مصطفی ﷺ کا جواب ہوگا
اللہ تبارک وتعالی ان زلف کی برکتوں سے مجھ فقیر سراپا تقصیر اور جملہ قارئین کو مالا مال فرمائے۔ آمین! بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔