حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ حیات و تعلیمات (قسط دوم)

ایک اور موقع پر فرمایا کہ جس کسی نے نعمت پائی سخاوت سے پائی۔ یعنی سخاوت اور کرنا غریبوں پر خرچ کرنا حضرت خواجہ کی نظر میں نعمتیں حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔

یہ حضرت خواجہ کے ملفوظات ہی نہیں بلکہ ان کی زندگی کا عمل تھا۔ انہوں نے پوری زندگی خود اس پر عمل کر کے دکھایا، کبھی کبھی جب ضرورت محسوس ہوئی تو اس کی تلقین بھی کی، ورنہ صوفیہ کے یہاں بیان سے زیادہ اہمیت عمل کی ہے اور اس کا زندہ نمونہ ان کی زندگیاں اور ان کی قائم کردہ روایت ہے۔ الفاظ کے گورکھ دھندوں میں اعمال کی روح گم ہو جاتی ہے۔ صوفیہ کرام  بالعموم الفاظ کا استعمال کم کرتے ہیں، اصل زور عمل پر ہوتا ہے۔ حضرت خواجہ کے یہاں بھی چند ہی مقامات پر اعمال کے سلسلے میں تلقین نظر آتی ہے ورنہ ان کا اصل پیغام ان کا عمل تھا اور یہ ان کا عمل اور جذبہ خدمت ہی تھا کہ آج بھی ملک و بیرون ملک سے لوگ اس دربار کی زیارت کے لئے کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔

حضرت خواجہ کی نظر میں درویشی دنیا بے زاری کا نام نہیں تھا بلکہ دنیا کو خدا کے راستے میں اختیار کرنے کا نام درویشی تھا۔ حضرت خواجہ فرماتے تھے کہ ”درویشی اس بات کا نام ہے کہ جو آئے اسے محروم نہ کیا جائے اور اگر بھوکا ہو تو کھانا کھلایا جائے، اگر ننگا ہے تو نفیس کپڑے پہنائے جائیں۔ بہر حال اسے خالی نہ جانے دیا جائے۔ اس کا حال پوچھ کر اس کی دلجوئی کی جائے“۔ اس کے بعد حضرت خواجہ نے اس کی ایک عملی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ میں شیخ عثمان ہارونی اور ایک درویش سفر کر رہے تھے۔ ہم نے شیخ بہاء الدین بختیار اوشی کو از حد بزرگ پایا۔ آپ کی خانقاہ میں جو آتا خالی نہ جاتا۔ اگر ننگا ہوتا تو نفیس کپڑے اسے دئیے جاتے اور ایسا ہوتا کہ ابھی ایک کو دے کر فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ دوسرا آ جاتا۔ آپ کی صحبت میں چند دن گذارے۔ آپ کی پہلی نصیحت یہ تھی جو کچھ ملے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہئے۔ ایک پیسہ بھی اپنے پاس نہ رکھنا چاہئے کہ اللہ سے دوستی ہو۔ پھر فرمایا، اے درویش جسے نعمت حاصل ہوئی اسی سے ہوئی۔

حضرت خواجہ کی نظر میں جیسا کہ اوپر مذکور ان کے ملفوظات سے اندازہ ہوتا ہے، صوفی کے لئے خدمت خلق اور اللہ کے کمزوربندوں کی خبر گیری اس طرح ضروری اور واجب ہے جس طرح عبادت الٰہی فرض ہے اور جب تک کسی صوفی کے اندر یہ صفات اعلیٰ درجہ کی پیدا نہ ہوں اس وقت تک وہ کامل صوفی نہیں ہو سکتا۔ حضرت خواجہ کی نظر میں جس طرح عبادت الٰہی ضروری ہے اس طرح اطاعت الٰہی بھی ضروری ہے۔ عبادت الٰہی کے ذریعے بھی بندہ اپنی ذات کو بارگاہ خداوندی میں پیش کر دیتا ہے اور اطاعت الٰہی کے ذریعے وہ خدمت خلق کے واسطے سے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔

صوفی کے لئے خدمت خلق ضروری اور لازمی امر ہے۔ اس کے بغیر اس کا سلوک مکمل نہیں ہوتا۔ لیکن خدمت خلق کے فوائد صرف آخرت میں ظاہر نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں بھی اس کے فوائد ظاہر ہوتے ہیں۔ حضرت خواجہ نے خدمت خلق کے دنیاوی فوائد کا اشارۃً تذکرہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا ”ایک درویش بہت مفلس تھا لیکن اس کو عادت تھی کہ جو چیز بھی اسے ملتی اسے وہ درویشوں میں بانٹ دیتا۔ ایک دن ایک مرد درویش صاحب ولایت اس کے پاس آیا۔ اس نے پانی مانگا۔ درویش گھر سے دو جو کی روٹیاں اور کوزہ پانی لے کر آیا کیونکہ ان کی بھوک غالب تھی۔ روٹی کھا کر پانی پیا۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہنے لگے، درویش تو نے اپنا کام کیا، ہمیں بھی اپنا کام کرنا چاہئے۔ ایک نے کہا اسے دنیا دینی چاہئے۔ دوسرے نے کہا دنیا کے سبب یہ گمراہی میں پڑ جائے گا اس لئے اسے آخرت دینی چاہئے۔ پہلے نے کہا درویش بخشنے والے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ درویش بڑا کامل انسان بنا اور اس کے باورچی خانے میں کثیر طعام ہوتا تھا جو مخلوق کو کھلایا جاتا۔ (یعنی دنیا و آخرت دونوں مل گئیں)۔

حضرت خواجہ نے ایک حکایت سنائی کہ کس طرح ظالم آدمی ایک دن اس دنیا میں بھی اپنے کئے کا پھل بھوگتا ہے۔ فرمایا کہ ایک بادشاہ کو دیکھا جس نے رعایا پر ظلم اور زیادتی کا بازار گرم کر رکھا تھا اور لوگوں کی زندگی مشکل میں ڈال رکھی تھی۔ ایک مدت کے بعد اس بادشاہ کو بغداد میں ککری مسجد کے قریب کھڑے دیکھا۔ سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے، جسم خاک آلود۔ اس سے پوچھا تو وہی ہے نا جو لوگوں کو ستاتا تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا؟ اس نے پوچھا کہ آپ نے مجھے کیسے پہچانا؟ میں نے کہا کہ میں نے تجھ کو ظلم کرنے کی حالت میں بھی دیکھا تھا اور آج اس حال میں بھی دیکھ رہا ہوں۔

خدمت خلق کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ کمزور اور محتاج لوگوں کی مدد کرنا، ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا اور ناداروں کی ضرورت پوری کرنا۔ خدمت خلق کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بندگان خدا کو خدا کے قریب کرنا اور خدا تعالیٰ کا پیغام بندوں تک پہنچانا۔ حضرت خواجہ کی زندگی میں دونوں ہی پہلو اعلیٰ درجہ کے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کی تفصیل اس جگہ بیان ہوئی۔

لوگوں کی خیر خواہی اور فلاح و اصلاح کے تعلق سے حضرت خواجہ کی تعلیمات کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے حقوق کو صحیح طرح ادا نہ کرے اور ان میں کمی بیشی کرے، خاص طور پر نماز کے معاملے میں کمی کرے تو حضرت خواجہ کو بہت تکلیف ہوتی تھی اور حضرت خواجہ ان کی حالت پر روتے تھے۔ دلیل العارفین میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ نے نماز کے اچھی طرح ادا کرنے کے فضائل بیان کئے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ ان لوگوں کی حالت پر زار زار روئے جو نماز کے ارکان گراتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کی نمازیں اس مقام تک نہیں پہنچتی جہاں سے شرف قبولیت کی منزل شروع ہوتی ہے۔

حضرت خواجہ کے اس عمل سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو عام لوگوں کی کس قدر فکر رہتی تھی۔ عام آدمی کی جس طرح دنیا کی ضرورت پوری ہونی چاہئے اسی طرح اس کی دینی اور مذہبی ضروریات کی تکمیل بھی ہونی چاہئے۔ چونکہ جس طرح انسان دنیا کا محتاج ہے اس طرح آخرت کا بھی محتاج ہے، جس طرح اس کی دنیا کی ضروریات کی تکمیل کی کوشش کرنا ہمارے لئے ضروری ہے اسی طرح اس کی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔

حضرت خواجہ نے فقراء و مساکین کے کھانے کا انتظام کرنے کے لئے ایک خادم کو مستقل رکھ رکھا تھا۔حضرت خواجہ اجمیری علیہ الرحمہ کو اپنے پڑوسیوں اور ہم سایوں کا بڑا خیال رہتا تھا۔ آپ کا فیضان اجمیر میں جاری تھا، آپ کے مطبخ میں روزانہ اتنا کھانا پکتا تھا کہ تمام غربا و مساکین بھی سیر ہو کرکھاتے تھے۔ بھلا پڑوسی اس نعمت سے کیسے محروم رہتے۔ آپ اپنے پڑوسیوں کا بھی بڑا خیال رکھتے تھے۔ان کے کھانے پینے اور ضروریات کا دھیان رکھتے تھے۔ اگر پڑوس میں کسی کا انتقال ہو جاتا تو جنازہ کے ساتھ جاتے اور تدفین کے بعد جب تمام لوگ واپس ہو جاتے تب بھی آپ قبر پر بیٹھے دعائیں کرتے رہتے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک پڑوسی کا انتقال ہوگیا، حضرت خواجہ حسب معمول جنازہ کے ساتھ گئے۔ خواجہ قطب الدین بھی ساتھ تھے۔ جب تمام لوگ واپس ہو گئے تو حضرت خواجہ اس ہمسایہ کی قبر پربیٹھ گئے۔ خواجہ قطب الدین فرماتے ہیں کہ یکایک حضرت کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ پھر اسی وقت اصلی حالت پر آ گیا۔ خواجہ قطب الدین نے رنگ بدلنے کی وجہ پوچھی تو حضرت نے بتایا کہ عذاب کے فرشتے آئے تھے لیکن پھر رحمت الٰہی نازل ہوئی۔

حضرت نے اپنے پیر خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات میں ایک جملہ یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ حاجت مندوں کی مدد کرنے والا اللہ کا دوست ہے اور اس کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر سالک اپنے معمولات اور اوراد و وظائف میں مشغول ہو اور حاجت مند آ جائے تو اپنے معمولات کو چھوڑ کر اس کی حاجت روائی کرے اور اس کے لئے جو بھی کر سکتا ہو اس میں دریغ نہ کرے۔ چونکہ وظائف تو بعد میں بھی پورے کئے جا سکتے ہیں لیکن حاجت مند کی ضرورت پوری کرنا اسی وقت ضروری ہے۔

ارادت تصوف کا سب سے اہم پہلو ہے۔ تصوف کا سلسلہ ہی ارادت ہے۔ ارادت کیا ہے، ارادت دراصل وہ تعلق ہے جو ایک سالک کو ایک مرید کو اپنے پیر اور مرشد سے ہوتا ہے۔ ارادت تصوف کی روح ہے۔ اگر پیر اور مرید کا تعلق درست نہیں ہے اور مرید نے ارادت کے لئے مطلوب آداب و اخلاق کی رعایت روا نہیں رکھی ہے تو ایسی ارادت سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ارادت وہی مطلوب ہے جو آداب کی رعایت کے ساتھ ہو۔

حضرت خواجہ نے مرید کے لئے آداب کی رعایت پر بہت زور دیا ہے۔ چونکہ ارادت کے ذریعہ مرشد اپنے مرید کے لئے اندر جو خوبیاں پیدا کرنا چاہتا ہے وہ اس وقت پیدا ہو سکتی ہیں جب مرید بھی آداب ارادت کی رعایت کر کے اپنے آپ کو ان کے لائق بنا لے۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ ”جس نے جو پایا وہ خدمت پیر سے پایا۔ مرید پر لازم ہے کہ وہ پیر کے حکم سے سرمو انحراف نہ کرے۔ پیر جو فرمائے اسے دھیان سے سنے، نماز، تسبیح اور اوراد کی جو تلقین کرے اس پر عمل کرے۔ پیر مرید کو سنوارنے اور اسے کمال تک پہنچانے کے لئے عمل کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔

مرید ہونا ایک مشکل عمل ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سالک اس کے تقاضے پورے کرے۔ سیرالاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ نے اہل طریقت کے لئے دس شرائط ضروری قرار دی ہیں ان پر عمل کے بغیر سلوک کی منزل پر گامزن ہونا مشکل ہے۔ اول طلب حق، دوسرے طلب مرشد، تیسرے ادب، چوتھے رضا، پانچویں محبت اور ترک مالایعنیہ (یعنی لغو اور فضول کاموں کا چھوڑ دینا)، چھٹے تقویٰ، ساتویں شریعت کے اوپر استقامت، آٹھویں کم کھانا اور کم سونا، نویں لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا، دسویں نماز اور روزہ۔ پھر فرمایا کہ اہل حقیقت کے لئے بھی دس چیزیں ضروری ہیں۔ اول یہ کہ معرفت میں کامل ہو اور اللہ تعالیٰ تک پہنچا ہوا ہو۔ دوم یہ کہ کسی شخص کونقصان و ضرر نہ پہنچائے اور نہ کسی کے بارے میں بری بات سوچے، سوم یہ کہ حق تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرے اور لوگوں سے وہی بات کہے جس میں دنیا اور دین کا فائدہ ہو، چوتھے تواضع اختیار کرے، پانچویں گوشہ نشینی اختیار کرے، چھٹے یہ کہ ہر شخص کی عزت و احترام کرے اور اپنے آپ کو تمام لوگوں سے کم تر اور حقیر سمجھے، ساتویں تسلیم و رضا، آٹھویں یہ کہ ہر رنج و مصیبت میں صبر اور برداشت سے کام لے، نواں یہ کہ اس کے اندر سوز و گداز ہو اور عجز و نیاز ہو، دسواں قناعت و توکل ہو۔

مرید کے شرائط اور مرشد کے مقامات راہ سلوک میں کامیابی کی ضمانت بھی ہیں اور راہ سلوک کی غرض و غایت بھی۔ ان کی تفصیل اس طرح کی جا سکتی ہے کہ جب تک سالک میں حق کی تلاش کا جذبہ ہی پیدا نہ ہوگا تو وہ طلب حق میں لگے گا ہی نہیں۔ جب سالک کے دل میں حق کی تلاش ہوگی تو پھر اس راستہ پر رہنمائی کے لئے وہ اپنا رہنما یا مرشد تلاش کرے گا۔ مرشد کا ادب و احترام اور اس کے احکام کو بجا لانا ضروری ہے اور مرشد جو حکم دے اس پر راضی رہنا اور اللہ تعالیٰ جس حال میں رکھے اس پر راضی رہنا، اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا اور فضول اور لایعنی چیزوں سے یعنی جن چیزوں کا فائدہ نہ اس کی زندگی میں ہو نہ مرنے کے بعد کی زندگی میں، ایسی چیزوں کا چھوڑ دینا، اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کے بتائے راستہ یعنی شریعت پر پورے طور پر مکمل استقامت کے ساتھ عمل کرنا، اپنے آپ کو شریعت پر عمل کرنے کے لئے تیاری کے طور پر کم کھانا، کم سونا اور غیر ضروری طور پر لوگوں سے ملاقات کرنے اور صحبت کرنے سے بچنا بہت ضروری ہے۔ حضرت خواجہ نے آخری بات نماز اور روزہ کی پابندی سے متعلق فرمائی۔ نماز اور روزہ شریعت ہی کا حصہ ہیں۔ ان کو الگ سے تاکید کے ساتھ ذکر کرنے کی ضرورت یہ ہے کہ نماز انسان کے اوقات کو منضبط بناتی ہے اور اس کو پابند کرتی ہے۔ اس کے اندر نظم و ترتیب یا پلاننگ اور مینجمنٹ کی خوبیاں پیدا کرتی ہے۔ وہ رات میں جلدی سوئے گا چونکہ اس کو صبح کی نماز پڑھنی ہے، وہ اپنے کام میں محنت سے لگے گا چونکہ اس کو دوپہر کی نماز سے قبل اپنا کام مکمل کرنا ہے، وہ خرید و فرخت لئے ایسا وقت چنے گا جب اس کی نماز متاثر نہ ہو،نماز ادا کرنے کے لئے طہارت ضروری ہے اس لئے ہمیشہ پاک و طاہر رہنے کی کوشش کرے گا۔

اس طرح روزہ بھی اس راہ کے لئے بہت ضروری ہے۔ روزہ انسان کے اندر ملکوتی صفات پیدا کرتا ہے۔ روزہ انسان کو دوسروں کی بھوک پیاس کا احساس دلاتا ہے، روزہ انسان کو کھانے کی ضرورت اور بقدر ضرورت کھانے کا درس دیتا ہے، کھانا اور پانی کی عظیم نعمتوں کا احساس دلاتا ہے۔

اس طرح اگر انسان غور کرے تو اس کا زیادہ تر وقت لایعنی کاموں میں صرف ہوتا ہے یا ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں جاتا ہے جن سے دنیا و آخرت کا کوئی فائدہ نہیں۔ مرید کے لئے ضروری ہے کہ وہ غیر ضروری ملاقاتوں سے اجتناب کرے، اپنے وقت کو اپنا قیمتی اثاثہ سمجھ کر خرچ کرے۔ صوفیہ فرماتے ہیں کہ وقت تو تلوار ہے اگر تم اس کا صحیح استعمال نہیں کرو گے تو یہ تم کو قتل کر دے گا۔

حضرت خواجہ نے مرید اور مرشد کی جو شرائط بیان کی ہیں وہ تو علم کا ایک سمندر ہیں۔ انسان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کی ان میں ضمانت ہے۔ ان پر عمل کر کے انسان ہرخیر و خوبی کو حاصل کر سکتا ہے۔ اجمالاً ان کا ذکر کیا گیا، تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی اس اجمال کے ساتھ بھی ان کو اپنی زندگی میں داخل کرے گا تو امید ہے کہ وہ فوز و فلاح سے ہم کنار ہوگا۔ حضرت خواجہ نے اس پر چل کر ایسی بے مثال کامیابی و کامرانی حاصل کی کہ آج صدیوں بعد بھی ان کا مدفن خاکی زیارت گاہ خلائق ہے اور آپ نے اپنے مریدین کی ان تعلیمات کے ذریعہ ایسی تربیت کی کہ وہ پائیدار مینارہ نور بن گئے۔ ہرمذہب و ملت کے لوگ ان سے اور ان کے الفاظ سے آج بھی رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور یہ پاک سلسلہ تو ہندوستان کے معاشرے میں شریانوں کا جال ہی بن گیا جن کے ذریعہ ان بزرگوں کی تعلیمات ملک کے گوشہ گوشہ میں جاتی ہیں اور لوگوں کو محبت و الفت اور میل ملاپ کے ساتھ رہنا سکھاتی ہیں۔

صوفیہ کرام کے یہاں محبت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک خدا سے محبت، دوسری مخلوق خدا سے محبت۔ لیکن یہ دو قسمیں الگ الگ نوعیت کی نہیں ہیں، بلکہ ان میں جو فرق ہے وہ لفظی اور منطقی سے زیادہ نہیں ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ محبت تو ایک ہی ہے۔ خدا سے جو محبت کی جاتی ہے وہ اس کے احسانات کے ذکر، اس کے سامنے اپنی عبدیت کے اعتراف، اس کے حضور عاجزی اور انابت سے عبارت ہے اور سالک کو جو محبت مخلوق سے ہوتی ہے اس کا سبب بھی یہی ہوتا ہے کہ سالک اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات سے بھی محبت کرتا ہے۔ اس کی محبت کا سبب بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے، سالک انسانوں سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ وہ اللہ کا کنبہ ہے، وہ زمین سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ یہ بھی اس کے کنبہ کا حصہ ہے، اس کو آسمان، چاند، سورج، ستارے، پیڑ پودے، درخت، پہاڑ، جانور، غرض ہر چیز سے محبت ہوتی ہے اور وہ ہر چیز کی بہتری کے لئے جدوجہد کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے محبت جو مخلوقات سے محبت کا سرچشمہ ہے، اس کی غایت یہ ہے کہ اللہ سے ایسی محبت کی جائے کہ اگر سالک کا وجود بھی فنا ہو جائے تو بھی اس محبت میں کمی نہ آئے۔ حضرت خواجہ کے ملفوظات میں اس مفہوم کے بعض اندراجات موجود ہیں۔

محبت کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے ایک مرتبہ حضرت خواجہ نے فرمایا”محبت کے چار معنی ہیں، ذکر الٰہی میں دل و جان سے خوش رہنا، دوسرے ذکر الٰہی کو بلند کرنا، تیسرے دنیا کی چیزوں سے قطع تعلق کرنا، چوتھے اپنی اور اپنے سوا ہر ایک کی حالت پر رونا۔ قرآن مجید میں ہے:

قل ان کان آباء کم و ابناؤکم او اخوانکم۔

محبوب کی صفت یہ ہے کہ ان کی محبت ایثار کے معنی میں ہو۔ (یعنی دنیا سے اور دنیا کی چیزوں سے)۔ اس کے بعد چار منزلیں ہیں محبت، علم، حیا اور تعظیم۔ ان کو طے کرے۔ پھر فرمایا کہ محبت میں صادق وہ ہے جواللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو ہر ایک پر مقدم جانے۔ حتیٰ کہ والدین اور خویش و اقرباء کے حکم سے بھی زیادہ،محب و ہ شخص ہے کہ کلام الٰہی کے حکم پر چلے اور حق کی دوستی میں صادق ہو۔

حضرت خواجہ نے محبت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اور محبت الٰہی میں اضافے کے طریقے بتاتے ہوئے فرمایا کہ ”اللہ سے دوستی اس سے پیدا ہوتی ہے کہ جس چیز سے اللہ تعالی محبت کرتا ہے اس سے محبت کی جائے اور جس چیز کو وہ دشمن جانتا ہے اس کو دشمن جانا جائے، جیسے دنیا اور نفس۔

            ایک مرتبہ فرمایا کہ اہل محبت کی علامت یہ ہے کہ سوائے خدا کے کسی کا مطیع نہ ہو اور نہ کسی سے ڈر کر اس کے حکم پر چلے۔ یعنی صرف خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرے۔ اگر کسی دوسرے کا حکم مانے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق مانے اور اس کی علامت یہ ہے کہ سوائے خدا کے کسی کے حکم پر اس شخص کے خوف یا ڈر کی وجہ سے تعمیل نہ کرے۔

موت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی واعظ نہیں۔ چونکہ وعظ یا نصیحت یاتلقین الفاظ ہیں اور موت تو ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ انسان دوسرے کی میت دیکھتا ہے، اگر اس مقام پر وہ اپنی میت کو فرض کر لے تو برائیوں کے قریب بھی نہیں جائے گا۔ حضرت خواجہ نے اپنی نصیحتوں میں لوگوں کو موت کی یاد سے عبرت لینے کی بات بھی ارشاد فرمائی۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے لکھا ہے کہ حضرت خواجہ نے آب دیدہ ہو کر فرمایا ”اے غافل اس سفر کے لئے توشہ تیار کر جو تجھے درپیش ہے، یعنی موت۔

موت بظاہر ایک زندگی کا خاتمہ ہے لیکن حقیقت میں یہ زندگی کا نہیں بلکہ مہلت عمل کا خاتمہ ہے۔ انسان کو موت تک آزادی ہے، چاہے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن کر جئے یانافرنانی کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ موت کے ساتھ ہی یہ مہلت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد انسان کے جسد خاکی کو خاک کی آغوش میں ڈال دیا جاتا ہے۔ حضرت خواجہ نے بھی موت اور قبر کی منزل کو بار بار یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ خواجہ عطائی سلمی سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے چالیس سال سے آسمان کی طرف کیوں نہیں دیکھا اور آپ کے ہر وقت روتے رہنے کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ قبر اور قیامت کے عذاب کے خوف سے روتا ہوں اور آسمان کی طرف اس لئے نہیں دیکھتا کہ گناہ بہت کئے ہیں، نظر اٹھاتے ہوئے شرم آتی ہے۔

حضرت خواجہ ہر حال میں سچ بولنے کی تاکید کرتے تھے۔ جھوٹ ان کی نظر میں بہت بڑا جرم تھا۔ جھوٹ بولنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے حضرت خواجہ نے فرمایا جس نے جھوٹی قسم کھائی گویا اس نے اپنے خاندان کو ویران کیا۔ اس کے گھر سے برکت اٹھ جاتی ہے۔

حضرت خواجہ کی سخت تاکید ہے کہ آدمی حلال طریقے سے روزی کمائے اور جھوٹ بولنے اور جھوٹی قسم کھانے سے باز رہے۔ اگر ایسا کرے گا تو اس کی بخشش ہو جائے گی اور اس کے گھر میں برکت بھی ہوگی۔ جھوٹی قسم کا یہ ایک عذاب ہے۔ اس کا دوسرا عذاب مرنے کے بعد ہے۔ حضرت خواجہ نے فرمایا ”ایک مرتبہ میں نے بغداد کی جامع مسجد میں ایک ذاکر مولانا عمادالدین بخاری سے یہ حکایت سنی، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دوزخ میں ساتواں دوزخ ہادیہ پیدا کیا گیاہے۔ اس میں سانپ، بچھو بکثرت ہیں۔ اگر اس کا ایک قطرہ دنیا میں آ پڑے تو تمام دریاخشک ہو جائیں اور تمام پہاڑ پگھل جائیں، اس کی گرمی سے زمین پھٹ جائے۔ اے موسیٰ یہ عذاب دو شخصوں کے لیے ہے، ایک وہ جو نماز نہیں پڑھتا، دوسرا وہ جو میرے نام کی جھوٹی قسم کھاتا ہے۔

حضرت خواجہ نے از راہ رحم دلی اور غریب پروری عام لوگوں کے فائدے کے لئے قرآن پاک اور قرآن پاک کی بعض سورتوں کے فضائل بھی بیان کئے ہیں۔ قرآن مجید کلام الٰہی ہے، اس میں رہنمائی ہے، ہدایت ہے، روشن دلیل ہے اور اس میں قلبی اور بدنی، روحانی اور جسمانی ہر طرح کی بیماریوں کا علاج ہے اور دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کا  حل بھی ہے۔ ذیل میں وہ چند خواص بیان کئے جاتے ہیں جو حضرت خواجہ نے اپنے خاص خلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کو بتائے۔

خواجہ قطب الدین بختیار کاکی فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ معین الدینؒ نے فرمایا کہ مشائخ طبقات کے آثار میں لکھا ہے کہ کسی حاجت کو پورا کرنے کے لئے کثرت سے سورہ فاتحہ کو پڑھنا چاہئے۔ حدیث میں ہے جسے کوئی مشکل پیش آئے وہ اس طریقے سے سورہ فاتحہ پڑھے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ. یعنی رحیم کو لام سے ملائے اور آمین کے وقت تین مرتبہ آمین کہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی مشکل حل کر دے گا۔

اس کے بعد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے۔ آپؐنے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سے معجزات عطا کئے ہیں۔ جبرئیلؑ نے تشریف لا کر کہا کہ حکم ربانی ہے کہ میں نے جو کتاب تجھ پر نازل کی ہے اس میں ایک ایسی سورۃ ہے اگر وہ توریت میں ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام کی امت میں کوئی شخص اس طرح کے یہود کی طرح نہ ہوتا۔ اگریہ انجیل میں ہوتی تو عیسیٰ علیہ السلام کی امت میں کوئی بت پرست نہ ہوتا۔ اگر زبور میں ہوتی تو داؤد علیہ السلام کی امت میں کوئی مغنی نہ ہوتا۔ یہ اس لئے نازل کی گئی ہے کہ اس کی برکت سے آپؐ کی امت مدد حاصل کرے اور قیامت میں دوزخ سے نجات پائے۔ آپ نے دریافت کیا وہ کون سی سورت ہے؟ فرمایا سورۃ فاتحہ۔ اگر دنیا کے تمام درخت قلم اور سمندر سیاہی اور ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں کاغذ بن جائیں تو پھر تعریف مکمل نہ ہوگی۔

پھر خواجہ صاحب نے فرمایا سورۃ فاتحہ تمام دردوں اور بیماریوں کے لئے شفا ہے۔ جس بیماری کا علاج نہ ہو، صبح کی نماز کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان اکتالیس مرتبہ بسم اللہ اور سورۃ فاتحہ پڑھنے سے اور اس کے دم کرنے سے دور ہو جاتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ الفاتحۃ شفاء من کل دار۔ (سورۃ فاتحہ ہر بیماری کی دوا ہے)۔

پھر فرمایا ایک موقع پر ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہوئی۔ جب علاج سے عاجز آ گیا تو اس نے وزیر کو خواجہ فضیل بن عیاضؒ کے پاس بھیجا۔ آپ نے آ کر اکتالیس مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور اپنا ہاتھ اس کے جسم پر پھیرا۔ اسے صحت ہو گئی۔

ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کسی بیمار کے اوپر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ وہ صحت یاب ہو گیا۔ کسی نے پوچھا کیسے صحت یاب ہوئے؟ اس نے ماجرا طنزاً بیان کیا۔ ابھی وہ بات ختم کرنے نہ پایا تھا کہ پھر وہی بیماری لاحق ہو گئی اور وہ مر گیا۔ یہ اس کی بداعتقادی کانتیجہ تھا۔ آدمی کو صدق دل سے نیک عقیدہ رکھنا چاہئے تھا۔

            حضرت خواجہ اجمیری کی حیات و تعلیمات سے متعلق یہ چند کلمات بطور تبرک لکھے گئے۔حضرت کی پوری زندگی عبادت الہی اور خدمت خلق سے عبارت تھی اور یہی حضرت کا پیغام تھا۔جو شخص حضرت کااتباع کرنا چاہے اس کے لیے حضرت کی تعلیمات کی شکل میں گویا خود حضرت بات کر رہے ہیں اس لیے ان کی تعلیمات پر عمل کرے یہی حضرت کے لیے کسی عقیدت مند کا سب سے بڑااظہار عقیدت ہے اور یہی وہ راست ہے جس پر چل کر دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹرمفتی محمدمشتاق تجاروی

اسسٹنٹ پروفیسر

شعبۂ اسلامک اسٹڈیز

جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

muftimushtak@gmail.com

Mobile:9910702673

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter