حضور خواجۂ خواجگاں نے وادیِ کفر و شرک کو ایمان کی کرنوں سے منوّر کر دیا
’’میں نے ایک قبر(تربتِ غریب نواز) کو ہندوستان میں حکومت کرتے دیکھا‘‘
(وائسرائے ہند لارڈ کرزن)
ملک ہندوستان شرک و کفر کے دَلدَل میں پھنسا ہوا تھا۔ بعض علاقے ہی دامن اسلام میں تھے؛ جیسے کیرلا و سندھ ۔ کثیر علاقے شرک کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ لاکھوں اصنامِ باطل کی پرستش ہوتی تھی۔ پتھروں کے آگے سر جھکے ہوئے تھے۔ پیشانیوں کا وقار مجروح تھا۔ معبودِ حقیقی سے جبیں منحرف تھی۔ ایسے ماحول میں سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین حسن چشتی رحمۃ اللہ علیہ ہندوستان کی سرزمین پر تشریف لائے۔ آپ کی یہ آمد خدائی حکمت کے تحت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور سے دہلی تک- اور دہلی سے اجمیر تک- جہاں جہاں قیام ہوا؛ دلوں سے کفر و شرک کے زنگ دُھلتے رہے۔ لوگ جوق در جوق دامنِ اسلام میں آتے رہے۔
جس جگہ اصنام ہی صدیوں سے پرستش کا باعث بنے ہوئے ہوں- وہاں یقیں کے اُجالے بکھیرناآسان نہیں۔ خواجہ غریب نواز نے اپنی سادہ طرزِ زندگی، خوف و خشیت الٰہی سے پُر تعلیمات، اعلیٰ اخلاق، روشن و تاباں کردار کی بدولت کفر کی وادیوں میں اذانِ سحر دی۔ باطن کے اندھیرے دور کیے۔ ایمان کے نور سے جبیں کو منور کر دیا۔ کشتِ ایماں ہری بھری ہو گئی۔ اجمیر کی دھرتی سے پورے ہندوستان کو کنٹرول فرمایا۔ آپ کا نظام دعوت و تبلیغ معمولی نہ تھا۔ آج لاکھوں افراد میں تبلیغ اسلام کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور نتائج و حقائق دعوے کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ خواجہ غریب نواز کی تبلیغ مثالی اور نتیجہ خیز تھی۔ بجھی طبیعتیں ایمانی نور سے کھل اُٹھیں۔من کی دنیا میں انقلاب آگیا۔ گویا دبستاں کھل گیا۔ بنجر وادیاں شاداب ہو گئیں۔ تشنہ کام سیراب ہوئے۔ شرک کے بادل چھٹے۔ اندھیریاں دور ہوئیں۔ روشنی پھیلتی گئی۔ طیبہ سے ایمان کی بادِ بہاری چلی۔ پورا ہندوستان اس سے خوش گوار ہو گیا۔اِسی آفاقی تبدیلی نے مشنِ خواجہ کی مقبولیت کو ہویدا کیا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی نے خواجہ غریب نواز کی مقبولیت کے ضمن میں اس بات کو ذکر فرمایا ہے کہ: قبولیتِ دُعا کے مقامات میں بارگاہِ خواجہ غریب نواز بھی ہے، جہاں مانگی ہوئیں دُعائیں اجابت کی منزل پر فائز ہوتی ہیں۔
انقلاب کی تازہ لہر نے بہت جلد خواجہ غریب نوازکے مشن کی معنویت کو ظاہر کیا۔ خدائی مدد کا جلوہ رونما ہوا۔ اپنے ہی کیا پرائے بھی معترف ہوئے۔ مولانا محمد عبدالمبین نعمانی اس انقلابی تبدیلی کے ضمن میں فرماتے ہیں:
آپ کی زندگی بظاہر معمولی اور سادہ تھی ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں بیٹھ کر آپ نے ہندوستان میں جو روحانی انقلاب برپا کیا اس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ ہند خالی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج آپ کی عقیدتوں کے چراغ بلا تفریق مذہب و ملت سب کے دل میں جل رہے ہیں اور جملہ باشندگان ہند آج پروانہ وار آپ کی چوکھٹ پر حاضری دینے کے لیے اپنے کو بے قرار پاتے ہیں، یہ آپ کی وہ روحانی حکومت ہے جس کا اعتراف ایک انگریز حکمراں وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے جب وہ ۱۹۰۲ء میں آستانہ غریب نواز پر گیا تھا اس طرح کیا ہے: ’میں نے ایک قبر کو ہندستان میں حکومت کرتے دیکھا ہے‘۔ (اکابرین چشت ص ۲ پروفیسر غلام سرور رانا)
خواجہ غریب نواز نے دین کی تعلیمات کو بڑی سادگی کے ساتھ پھیلایا۔ اس میں ان کی اخلاقی عظمت کی قندیل فروزاں دکھائی دیتی ہے۔ آپ کے معرکہ آرا ارشادات میں اصلاح و فلاح کا جہان آباد ہے۔ چند ارشادات مطالعہ کریں:
[۱] محبت میں عارف کا کم سے کم مرتبہ یہ ہے کہ وہ صفاتِ حق کا مظہر ہوجائے اور محبت میں عارفِ کامل کا درجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اس کے مقابلے پر دعویٰ کرکے آئے تو وہ اپنی قوت کرامت سے اسے گرفتار کرلے۔
[۲] بدبختی کی علامت یہ ہے کہ کوئی گناہ کرتارہے، پھر بھی مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہونے کی اُمید رکھے۔
[۳] سخاوت کا بڑا درجہ ہے جس نے بھی نعمت پائی سخاوت سے پائی۔
[۴] لوگ منزلِ قرب نہیں پاتے مگر نماز کی ادائیگی میں کیوں کہ نماز مومن کی معراج ہے۔ (ماخوذ:اخبار الاخیارو مونس الارواح)
[۵]جس نے کچھ پایا خدمت سے پایا تو لازم ہے کہ مرشد کے فرمان سے ذرہ برابر تجاوز نہ کرے اور خدمت میں مشغول رہے۔
[۶]نماز بندوں کے لیے خدا کی امانت ہے تو بندوں کو چاہیے کہ اس کا حق اس طرح ادا کریں کہ اس میں کوئی خیانت پیدا نہ ہو۔
[۷]نماز دین کا رکن ہے اور رکن ستون ہوتا ہے تو جب ستون قائم ہو گیا تو مکان بھی قائم ہو گیا۔
[۸] جو بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور جہنم کے درمیان سات پردے حائل کردے گا جن میں سے ہر ایک پردہ پانچ سو سال کی راہ کے برابر ہوگا۔
[۹] اس سے بڑھ کر کوئی کبیرہ گناہ نہیں کہ مسلمان بھائی کو بغیر سبب تکلیف دی جائے اس میں خدا و رسول دونوں ناراض ہوتے ہیں۔
[۱۰] یہ بھی کبیرہ گناہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا نام سنے یا کلام اللہ سنے تو اس کا دل نرم نہ ہو اور ہیبتِ الٰہی سے اس کا ایمان زیادہ نہ ہو۔(ماخوذ:دلیل العارفین)
ان ارشادات میں اصلاحِ باطن و تزکیہ نفس کا پہلو مستور ہے۔ نمازوں سے رغبت دلائی گئی ہے۔ اعمال کی اصلاح کا پیغام مضمر ہے۔ان ارشادات پر عمل سے معاشرہ پاکیزہ ہو سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ تعلیمات خواجہ غریب نواز کی اشاعت کر کے معاشرے کی اصلاح کی جائے۔
٭٭٭