قربانی اور اسلامی حکمت و دانش
ہر سال حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ان کے وَفا شعار فرزند حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی و ایثار کی یادیں تازہ کی جاتی ہیں- اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے جانور قربان کیے جاتے ہیں- ایامِ قربانی میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے پسندیدہ عمل قربانی ہے- جس کے ذریعے کئی درسِ عمل مہیا ہوتے ہیں-
درسِ عمل:
(١) اقامتِ دین کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ،
(٢) اپنے نفس اور مال کی بارگاہِ الٰہی میں قربانی،
(٣) اطاعتِ الٰہی اور محبتِ رسالت پناہی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا درس،
قربانی کے اِس موسمِ بہار میں ہم قومی و تعلیمی ترقی کے مدارج اور اپنی مذہبی ذمہ داریوں کے لیے جذبۂ ایثار کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالیں گے-
علومِ اسلامیہ کے حصول کی فکر:
موجودہ دور میں پوری دُنیا میں مسلمانوں کو مٹا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے- کئی مسلم ممالک تاراج کر دیے گئے- اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی- مسلم حکمرانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا- عربوں کی دینی حمیت کا سودا کر لیا گیا- نتیجتاً جو قوم جہاں بانی کے لیے منتخب ہوئی تھی؛ وہ دوسروں کی محتاج ہو چکی ہے- جنھیں ظالموں پر غلبہ پانا تھا؛ وہ مغلوب ہو چکی ہے اور اپنے وجود کو بچانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہے-
ان حالات میں شوکتِ اسلامی کی بحالی کے لیے ایک راہ بچی ہے؛ وہ حصولِ علم کی ہے؛ جس کا بنیادی مصدر علومِ اسلامیہ ہیں- جس کے ذریعے بلند چوٹیوں پر کامیابیوں کے پھریرے لہرائے جا سکتے ہیں- ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے؛ پروفیسر مولانا سید سلیمان اشرف بہاری (سابق سربراہ اسلامک اسٹڈیز، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) مسلمانوں کے لیے بیداری کا پیغام دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"کاش! اب بھی مسلمان بیدار و متنبہ ہوں، اور ان متبرک ہستیوں کے سینہ میں جو زر و جواہر کا خزینہ مکنون ہے اور وہ صرف انھیں مسلمانوں کی بے بہا میراث ہے، اسے تہ خاک ہونے سے بچا لیں، تو ان کی قومیت کچھ دنوں تک اور بھی بقا کا فیض پا سکے گی۔ ورنہ جب یہ آفتاب غروب ہو جائے گا تو پھر تاریک شب کی سیاہی مسلمانانِ ہند کی قومیت پر ایسی چھا جائے گی کہ چراغ و شمع کا تو کیا ذکر برقی روشنیاں بھی ان کے خط و خال اور شکل و صورت کو عیاں نہ کر سکیں گی، یہ ایک ایسا خطرہ ہستی سوز ہے جسے ہر ذی فہم نے محسوس کیا ہے۔‘‘(السبیل ،ص۱۸۔۱۹)
علامہ موصوف نے جھنجھوڑا ہے؛ خواب سے بیدار کیا ہے؛ ایسے وقت میں جب کہ ملک پر انگریز قابض تھا؛ مذہبی روایات کو کچلا جا رہا تھا؛ اعلیٰ حضرت اور ان جیسے علماے حق چاہتے تھے کہ مسلمان شمعِ علم دین سے استفادہ کر کے کامیابیوں کے اُجالے پھیلائیں؛ یہی رخ اعلیٰ حضرت کے شاگرد پروفیسر مولانا سید سلیمان اشرف بہاری نے اُجاگر کیا ہے-
ایثار کے تعلیمی جلوے:
علمائے اسلام نے محنت و لگن سے تمام علوم کی گھاٹیاں سر کیں- علوم و فنون کی پیچیدگیوں کو اپنے تعمقِ فکر سے حل کیا- علومِ دینیہ کے فروغ کے لیے دیگر علوم کو دین کی بنیادوں پر استوار کیا؛ جس سے معاصر علوم فیض رَساں بن گئے- فلاسفہ کی فکری کجی سے بزمِ علم ستھری ہو گئی- پروفیسر سید سلیمان اشرف رقم فرماتے ہیں:
"فنِ کلام نے حکماے مشّائین کے فلسفہ سے مسلمانوں کو بے نیاز کیا تھا تو علمِ تصوف نے حکماے اشراقین کی حکمت کو بے نور ثابت کر دیا-" (السبیل،ص۳۴)
اسلامی حکمت و دانش نے فلسفہ کے خام نظریات کو ظاہر کر کے معیارِ علم عطا کیا؛ روحانی و ظاہری زندگی کی تعمیر کی؛ علم کلام و تصوف کی بنیاد پر اسلامی عقائد و اخلاق کا درس دیا-
توجہ و لگن کے ثمرات:
نوپید علوم، مثل طب و فلسفہ کو مسلم علما نے توجہِ خاص سے نوازا- قرآنی علوم کی اشاعت کی؛ اسی سے روشنی لے کر طب و ہئیت اور فلسفہ و کلام، ریاضی و جیومیٹری کو درجۂ کمال تک پہنچایا؛ جس سے یورپی ممالک کی ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں- خلیفہ و شاگردِ اعلیٰ حضرت پروفیسر مولانا سید سلیمان اشرف بہاری فرماتے ہیں:
"حیرت تو مسلمانوں پر ہے جنھوں نے دائرۂ مذہب میں رہ کر اسلام کے اعمال و ارکان کو غایت شغف کے ساتھ تعمیل کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے تو اپنے الہامی اور مذہبی علوم کا دریا بہا دیا، اور دوسرے ہاتھ سے انسانی اور وضعی علوم کو بحر ناپیدا کنار کے مرتبہ تک پہنچا دیا، آج ان کی محنت اور دماغی قابلیت کا اگر اقرار نہ کیا جائے تو کم از کم ان کے کمالات پر خاک ڈالنے سے تو ہاتھوں کو بچا لیا جائے۔‘‘(السبیل،ص۳۷)
ان علوم و فنون کو مسلمانوں نے دوام بخشا- جن پر آج اہلِ مغرب کا اجارہ ہے- جن علوم کو ایثار کے ذریعے مسلمانوں نے درجۂ کمال عطا کیا؛ ان پر جو آج قابض ہیں؛ وہ بجائے تشکر کے مسلمانوں کی علم و تاریخ کے تابندہ نقوش کھرچنے پر تلے ہوئے ہیں- ہمیں چاہیے کہ اسلاف کی راہ چلیں؛ ایثار کے جذبات کی آبیاری کریں اور علما و صلحا کے پاکیزہ نقوش کو ترقی کا زینہ سمجھیں:
مشعلِ رہ آج بھی ہیں اُس کے قدموں کے نشاں
نور کا مینار اُس کی زندگی کے ماہ و سال